
قلب و ذہن کی تبدیلی
پیر 22 جنوری 2018

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
سخت سزائیں اور حکومتی اقدامات اپنی جگہ پر لیکن ایسے واقعات کو مستقل طور پر ختم کرنے کے لئے قلب و ذہن میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔یہ ایک ایسا عظیم اور مسلمہ اصول ہے جسے قرآن حکیم نے سورہ نور کی تیسویں آیت میں یوں بیان کیا کہ یغضو من ابصارھم یعنی مرد ہو ں یا عورتیں وہ اپنی نگاہوں کو بے باک نہ ہونے دیں اور ان میں شرم و حیا پیدا کریں۔ اسلام صرف میکانکی انداز میں عفت کی حفاظت کے احکام نہیں دیتا بلکہ وہ ایسادل و دماغ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ غلط خیالات کا وہاں دخل ہی نہ ہو۔ان احکامات کا مقصد محض نگاہوں کو نیچا کرنا نہیں بلکہ نگاہوں کو بے باک نہ ہونے دینا ہے اور اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھنا ہے۔ایک شرابی رات گئے اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے جہاں اس کی بہن سو رہی ہوتی لیکن شراب کے نشہ میں دھت وہ شخص اپنی بہن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اور سونے کے لئے دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اسے علم ہے یہ اس کی بہن ہے۔ سوچ یہ ہونی چاہیے کہ قوم کی ہر بیٹی، بہن اور ماں میری بھی بیٹی، بہن اور ماں ہے۔ جب تک دل و دماغ میں یہ تبدیلی پیدا نہیں ہوگی ایسے واقعات کا تدارک ممکن نہیں۔قوم لوط کی ڈگر پر چلنے والوں کو ان کا انجام بھی ذہن رکھنا چاہیے۔ ملزم اگر ذہنی مریض ہو تو اسے علاج کے لئے کسی مرکز میں ہونا چاہیے جہاں ان کی تشخیص اور علاج ہو نہ کہ وہ آزاد ہو اور دوسروں کی زندگیاں تباہ کرتا رہے۔ بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے ہونے والے واقعات کی ذمہ داری براہ راست مردوں پر عائد ہوتی ہے ۔ اگر مرد مضبوط کردار کے حامل ہوں تو چاہے کیسی بھی بے راہروی کیوں نہ ہو ، مرد کبھی بہک نہیں سکتے اور نہ زیادتی کے واقعات ہوسکتے ہیں۔ اس امرکی شہادت خود قرآن حکیم نے سورہ یوسف میں حضرت یوسف کے کردار کی مثال دیتے ہوئے دی ہے جس میں مردوں کے لئے راہنمائی ہے کہ حالا ت چاہے جیسے بھی ہوں، اسوہ حضرت یوسف کو مشعل راہ بناتے ہوئے اپنے دامن کو پاک وصاف رکھ سکتے ہیں۔ معاشرہ کو اس قسم تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے جو لوگوں کے ذہن بدل دے۔ہمارے اہل قلم اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کو یہ کردار ادا کرنا ہوگا اور ہر وقت سیاسی موضوعات کو زیر بحث لانے کی بجائے ان سماجی مسائل پر لکھنے اور بولنے کی ضرورت ہے۔ والدین اپنے ، بچوں کی تربیت کے ذمہ دار ہیں اور بچوں کو ان معاملات کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے۔ بچوں کویہ تربیت ضرور دیں کہ اپنے رشتہ داروں اور ملنے والوں سے کس حد تک تعلق رکھ سکتے ہیں۔ والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق ضروری ہے اور خدانخواستہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایک یہ بھی المیہ ہے کہ دینی مدارس اور تعلیمی اداروں میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں گویاجن سے تربیت کی توقع کی جاسکتی ہے ، انہیں خود اس کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں مروج توبہ کے غلط تصور کو بھی درست طور پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور اس امر کی عوام کو واضح طور پر بتانے کی ضرورت ہے کہ ایسے گناہ محض توبہ کہنے سے معاف نہیں ہوتے بلکہ معاف کرنے کا اختیار مظلوم کے پاس ہے۔ عوام کا بھی فرض ہے کہ جو بھی ایسے انسانیت سوز واقعات میں ملوث ہوں، ان سے سماجی قطع تعلقی اختیار کریں۔یاد رکھیں یوم حساب میں جب مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا وہاں حکمرانوں، قانون نافذ کرنے والوں، تفتیشی اداروں اور انصاف فراہم کرنے والوں سے بھی یقینا باز پرس ہو گی۔ مظلوموں کا ہاتھ ظالموں کے ساتھ بااختیار طبقہ کے گریبان پر بھی ہو گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.