قلب و ذہن کی تبدیلی

پیر 22 جنوری 2018

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

ہر کوئی اپنے فہم اور سوچ کے مطابق قصور میں ہونے والے انتہائی شرمناک اور انسانیت سوز واقعہ کے بارے میں رائے کا اظہار کررہا ہے۔سب پریشان ہیں کہ معاشرہ کس سمت میں جارہا ہے۔ زوال کی حد ہے کہ معصوم زینب کے ساتھ اس بہیمانہ ظلم کے بعد سرگودھا، فیصل آباد، پتوکی ، کراچی، سیالکوٹ، مردان اور دیگر کئی مقامات پربچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوئے ہیں کہ شیطان بھی ایسے ظالموں سے پناہ مانگتا ہوگا۔

یہ سب اس ملک میں ہورہا ہے جو ایک اسلامی ریاست ہے اور جہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے۔میڈیا میں یہی موضوع زیر بحث ہے اور کوئی ناقص حکومتی کارکردگی پر نالاں ہے تو کوئی میڈیا اورانٹر نیٹ کو ان واقعات کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ کچھ ملک کے ناکارہ تفتیشی اداروں کی خامیوں پر برہم ہیں کہ جس وجہ سے عدالتیں موثر کام نہیں کرسکتیں اور مجرم چھوٹ جاتے ہیں اور بعض کے نزدیک بے راہ روی اور معاشرہ میں بڑھتی ہوئی خرابیاں اس ناگفتہ بہ صورت کی وجہ ہیں۔

(جاری ہے)

یہ تمام عوامل اپنی جگہ پر اہم ہیں لیکن یہ واقعات آج کی بات نہیں ہیں بلکہ برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور کسی مجرم کو نہ قرار واقعی سزا دی گئی ہے ا ور نہ ان کے محرکات پر غور کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ یورپ میں بھی خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے جرائم ہوتے ہیں لیکن اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے جن کا تسلسل پاکستان میں جاری ہے۔

سویڈن جیسے مادر پدر آزاد ملک میں بھی کوئی ا یسا واقعہ نہیں ہوا کہ آٹھ سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرکے پھینک دیا گیا ہو۔پوری دنیا میں پاکستان کی رسوائی ہورہی ہے۔پاکستان میں ہونے والے حالیہ واقعات کے تناظر میں اسکاٹ لینڈ میں ایک طویل عرصہ سے مقیم معروف صحافی اور کالم نگار جناب طاہر انعام شیخ کے مطابق یورپ میں ایسے واقعات کے ذمہ دارزیادہ تر ذہنی مریض ہوتے ہیں۔

جب بھی خواتین کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو قانون پوری شدت کے ساتھ حرکت میں آتا ہے اور بہت سرعت میں فیصلہ کیا جاتا ہے۔ بڑے سے بڑا بااثر ہی کیوں نہ ہو قانون کے شکنجے سے باہر نہیں نکل سکتا ۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی ذمہ داری ٹھیک ادا کرنی چاہیے تاکہ عدالتیں ایسے مجرموں کو سخت سزا دے کر نشان عبرت بنا سکیں۔

طویل عرصہ سے پاکستان میں ہونے والے ایسے واقعات نے یہ ثابت کیا ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے ایسے واقعات کے سد باب کے لئے کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے اور نہ ہی ان کی ایسی نیت ہے۔ پاکستان میں عدالتوں کا کردار انتہائی مایوس کن ہے اور مجرموں کو وہ سزا دینے میں ناکام رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا عدالتوں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ سانحہ قصور کے بعد پولیس اور تفتیشی اداروں کی نااہلی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملزم کی ویڈیو دستیاب ہونے کے باوجود تادم تحریر ابھی تک وہ گرفتار نہیں کیا جاسکاجبکہ سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں گذشتہ سال سات اپریل کو ایک دہشت گرد نے ٹرک کوشہر کے وسط میں ایک عمارت سے ٹکرا دیا جس سے پانچ افراد جاں بحق ہوئے۔

اس ملزم کی ایک قدرے غیر واضح تصویر سی سی ٹی وی کیمرہ سے ملی اور چند گھنٹوں کے بعد پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ پاکستان میں بھی پولیس کو ان جدید خطوط پر استوار کرنے کے ضرورت ہے۔
سخت سزائیں اور حکومتی اقدامات اپنی جگہ پر لیکن ایسے واقعات کو مستقل طور پر ختم کرنے کے لئے قلب و ذہن میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔یہ ایک ایسا عظیم اور مسلمہ اصول ہے جسے قرآن حکیم نے سورہ نور کی تیسویں آیت میں یوں بیان کیا کہ یغضو من ابصارھم یعنی مرد ہو ں یا عورتیں وہ اپنی نگاہوں کو بے باک نہ ہونے دیں اور ان میں شرم و حیا پیدا کریں۔

اسلام صرف میکانکی انداز میں عفت کی حفاظت کے احکام نہیں دیتا بلکہ وہ ایسادل و دماغ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ غلط خیالات کا وہاں دخل ہی نہ ہو۔ان احکامات کا مقصد محض نگاہوں کو نیچا کرنا نہیں بلکہ نگاہوں کو بے باک نہ ہونے دینا ہے اور اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھنا ہے۔ایک شرابی رات گئے اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے جہاں اس کی بہن سو رہی ہوتی لیکن شراب کے نشہ میں دھت وہ شخص اپنی بہن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اور سونے کے لئے دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہے۔

کیوں؟ اس لئے کہ اسے علم ہے یہ اس کی بہن ہے۔ سوچ یہ ہونی چاہیے کہ قوم کی ہر بیٹی، بہن اور ماں میری بھی بیٹی، بہن اور ماں ہے۔ جب تک دل و دماغ میں یہ تبدیلی پیدا نہیں ہوگی ایسے واقعات کا تدارک ممکن نہیں۔قوم لوط کی ڈگر پر چلنے والوں کو ان کا انجام بھی ذہن رکھنا چاہیے۔ ملزم اگر ذہنی مریض ہو تو اسے علاج کے لئے کسی مرکز میں ہونا چاہیے جہاں ان کی تشخیص اور علاج ہو نہ کہ وہ آزاد ہو اور دوسروں کی زندگیاں تباہ کرتا رہے۔

بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے ہونے والے واقعات کی ذمہ داری براہ راست مردوں پر عائد ہوتی ہے ۔ اگر مرد مضبوط کردار کے حامل ہوں تو چاہے کیسی بھی بے راہروی کیوں نہ ہو ، مرد کبھی بہک نہیں سکتے اور نہ زیادتی کے واقعات ہوسکتے ہیں۔ اس امرکی شہادت خود قرآن حکیم نے سورہ یوسف میں حضرت یوسف  کے کردار کی مثال دیتے ہوئے دی ہے جس میں مردوں کے لئے راہنمائی ہے کہ حالا ت چاہے جیسے بھی ہوں، اسوہ حضرت یوسف  کو مشعل راہ بناتے ہوئے اپنے دامن کو پاک وصاف رکھ سکتے ہیں۔

معاشرہ کو اس قسم تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے جو لوگوں کے ذہن بدل دے۔ہمارے اہل قلم اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کو یہ کردار ادا کرنا ہوگا اور ہر وقت سیاسی موضوعات کو زیر بحث لانے کی بجائے ان سماجی مسائل پر لکھنے اور بولنے کی ضرورت ہے۔ والدین اپنے ، بچوں کی تربیت کے ذمہ دار ہیں اور بچوں کو ان معاملات کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے۔ بچوں کویہ تربیت ضرور دیں کہ اپنے رشتہ داروں اور ملنے والوں سے کس حد تک تعلق رکھ سکتے ہیں۔

والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق ضروری ہے اور خدانخواستہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایک یہ بھی المیہ ہے کہ دینی مدارس اور تعلیمی اداروں میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں گویاجن سے تربیت کی توقع کی جاسکتی ہے ، انہیں خود اس کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں مروج توبہ کے غلط تصور کو بھی درست طور پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور اس امر کی عوام کو واضح طور پر بتانے کی ضرورت ہے کہ ایسے گناہ محض توبہ کہنے سے معاف نہیں ہوتے بلکہ معاف کرنے کا اختیار مظلوم کے پاس ہے۔

عوام کا بھی فرض ہے کہ جو بھی ایسے انسانیت سوز واقعات میں ملوث ہوں، ان سے سماجی قطع تعلقی اختیار کریں۔یاد رکھیں یوم حساب میں جب مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا وہاں حکمرانوں، قانون نافذ کرنے والوں، تفتیشی اداروں اور انصاف فراہم کرنے والوں سے بھی یقینا باز پرس ہو گی۔ مظلوموں کا ہاتھ ظالموں کے ساتھ بااختیار طبقہ کے گریبان پر بھی ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :