قاضی صاحب کے مغالطے اور ہم

جمعرات 6 اگست 2020

Asad Yaseen

اسد یٰسین

’گاؤں میں قتل ہو گیا‘۔ یہ بات زبان زد عام تھی‘ ہر طرف چہ مگوئیاں ہونے لگیں‘ کچھ دیر میں کوتوال لوہار کے گھر پہنچے اور اسے حراست میں لے لیا‘ بچہ بچہ جانتا تھا کہ قاتل لوہار ہی ہے اور اس نے جرم کا اعتراف بھی کر لیا تھا‘ معاملہ قاضی صاحب کے پاس پہنچا اور معمول کی کارروائی شروع کی گئی‘قاضی صاحب نے تفتیشی افسر کو حکم دیا کہ کیس کے تمام پہلئوں پر تفتیش کر کے اک مفصل رپورٹ جمع کروائی جائے‘ تفتیشی افسر اثبات میں سر ہلا کر چل دیا‘کچھ دنوں بعد، تفتیشی افسر قاضی صاحب کے سامنے تمام حقائق لے آیا‘فیصلے کا دن مقرر ہوا، تمام گاؤں والے جوک در جوک عدالت کے باہر پہنچنے لگے‘ گاؤں کے معززین پہلی صف میں بیٹھ گئے‘تمام نگاہیں عدالتی دروازے کی طرف لگی ہوئی تھیں کہ کب یہ دروازہ وا ہواور قاضی صاحب کمرئہ عدالت میں تشریف لائیں‘قاضی صاحب کے آتے ہی تمام سامعین و معززین احتراما کھڑے ہو گئے‘ قاضی صاحب مقررہ نشست پر براجمان ہوئے، کمرئہ عدالت میں نظر دوڑائی اور فائل کھول کر سرسری مطالعہ کیا‘تفتیشی افسر ملزم کو لے کر کمرئہ عدالت میں پیش ہو ااور رسمی کارروائی کے بعد قاضی صاحب نے فیصلہ سنانا شروع کر دیا‘ فیصلہ سنتے ہی تمام لوگ انگشت و بدنداں رہ گئے، ہجوم سے ٹر ٹر کی آوازیں آنے لگیں، تفتیشی افسر بھی حیران رہ گیا‘ قاضی صاحب نے لوہار کی بجائے درزی کو پھانسی کا حکم دے دیا‘لوگ حیران تھے کہ درزی کا اس مقدمے سے کیا تعلق؟ کچھ توقف کے بعد ، قاضی صاحب نے کہا کہ دیکھو بھائیوں! پورے گاؤں میں ایک ہی لوہار ہے اگر اسے پھانسی دے دی تو گاؤں میں لوہار کے فرائض کون سر انجام دے گا؟ہاں، البتہ درزی دو تین میسر ہیں، ان میں سے اگر ایک آدھ کو پھانسی بھی دے دی جائے تو خاص فرق نہیں پڑے گا‘ کام چلتا رہے گا۔

(جاری ہے)


یہ تو ہنگری کی اک مشہور مزاحیہ کہانی تھی‘ مگر اس کہانی کو جرمن ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے اپنی کتب میں ایک نہیں بلکہ تین دفعہ قلم بند کیا تھا۔ علی ہذالقیاس، انسان اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو خدا کی حکمت کی بجائے ظلم سمجھ بیٹھتا ہے اور اپنی تسلی کے لیے بد قسمتی یا الزام تراشی سے کام لیتا ہے‘کبھی اپنی غلطیوں کا بوجھ دوسروں پر ڈالتا ہے تو کبھی کسی کی غلطی کا ذمہ دار کسی کمزور یا ایسے فرد پر ڈالتا ہے جس سے جوابی کارروائی کی امید نہ ہو‘ہمارے ارد گرد کئی قاضی صاحب موجود ہیں‘یہ لوگ رجوع،تزکیہ و استفراق پر یقین نہیں رکھتے‘ اسی وجہ سے اپنی شخصیت کے ساتھ ساتھ اپنا گھر، رشتہ داریاں اور دوستیاں بھی خراب کر لیتے ہیں۔

انسانی ذہن کچھ اسی طرح کام کرتا ہے‘ کبھی انسان کٹھن حالات سے گزرتا ہے‘ کبھی زمانے کے نشیب و فرازاسے پستیوں کی عارضی سیر کو لے جاتے ہیں تاکہ انسان کی آزمائش ہو سکے‘ اکثر انسان دھوکے اور زیادتیاں بھی دیکھتا ہے جس کا مقصد درگزرکرنے کا امتحان کامیاب کرنا ہوتا ہے‘ آخر دنیا میں تمام بڑے انسان اس امتحان میں کامیاب ہوتے نظر آئے ہیں‘وہ صابرین میں سے ہوتے ہیں،شاکرین میں سے ہوتے ہیں۔


آج کل، بالخصوص نوجوانوں میں یہ رجحان بہت تیزی سے پھیل رہا ہے‘ ہر کسی نے قاضی صاحب کی طرح سوچنا شروع کر دیا ہے‘الزام تراشی اور دوسروں کو برا بھلا کہہ کر اپنی جان چھڑوانے کی کوشش کی جا تی ہے۔ قدرت صبر،شکراور درگزر کا امتحان لیتی ہے‘مگر انسان بہت جھگڑالو واقع ہوا ہے‘کم ہی صبر کرتا ہے‘ بہت جلد واسوختوں کا شکار ہو جاتا ہے‘ یہ بھول جاتا ہے کہ مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔


اپنی غلطیوں یا حالات کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرادینا دنیا کا سب سے آسان کام ہے‘ انسان کچھ دیر تک تو سکون محسوس کرتا ہے، مگر بعد از یہ عادت بن جاتی ہے اور فی الضمیر قیام کر لیتی ہے‘ گویا یہ عادت انسان کے ساتھ ہمسائیگی اختیار کر لیتی ہے۔
انفرادی سطح سے بلند ہو کر دیکھیں تو یہ مزاج سیاسی اور عوامی سطح پر بھی پایا جاتا ہے‘ آئے روز سیاستدان مباحثوں میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آتے ہیں اور ملک کے معاشی اور سیاسی حالات کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں‘ کوئی اپنے گریبان میں جھانکنا پسند نہیں کرتا‘یہی نہیں بڑے بڑے ادارے بھی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے نظر آتے ہیں‘ اور عوام؟ عوام کے کیا کہنے، ان کا تو شب و روز ہی یہی ہے‘ کسی چوراہے میں کھڑے ہو جائیں یا کسی چائے فروش کے ٹھیلے پر، کسی فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھ جائیں یا کسی دانشور کی بیٹھک میں، ہر شخص ملکی حالات کا ذمہ دار ارباب و بست و کشاد کو ہی ٹھہراتا نظر آتا ہے‘ کوئی سیاستدان پر بوجھ ڈالتا ہے تو کوئی فوجی جیپ کی ڈگی میں الزامات کی ٹوکری رکھ دیتا ہے، کوئی اس بوجھ کو انصاف کے ترازو میں تولنے کی سعی کرتا ہے تو کوئی صحافی کے قلم سے نکلنے والی روشنائی کو مورد تقصیر ٹھہراتا ہے‘ عرض یہ کہ عوام کا مزاج بھی بس یہی ہے کہ ملک کی غلطیوں، کوتاہیوں کا ذمہ دار کسی نہ کسی کو ٹھہرا کر اپنے دکھوں کا مداوا کیا جائے۔


کسی حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے کہ جس کا جتنا بڑا عہدہ و مقام ہوتا ہے اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے‘ مگر اس الزام تراشی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینا زیادتی ہے۔
آج کل صوبائی خود مختاری اور آٹھارویں ترمیم کا دور دورہ ہے ‘ صوبے اپنے اپنے معاملات میں بہت حد تک خود مختار ہیں‘کورونا کے پیش نظر، وفاق اور صوبوں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘سندھ وفاق پر اور وفاق سندھ پر چڑھ دوڑنے کی کوشش کر رہا ہے‘ ادھر بھی قاضی صاحب والا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے، کرے کوئی بھرے کوئی‘ اس کی وجہ سیاسی تعصبات کے علاوہ اس عادت کا سیاسی و سماجی ڈھانچے میں سرایت کر جانا بھی ہے‘یہ وقت ان مغالطوں سے نکل کر عوامی فلاح بارے سوچنے کا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :