اسلامی جمہوریہ پاکستان میں”سیاست“ کر کون رہا ہے؟؟

جمعہ 4 مئی 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

ایک مکتبہ فکر کے نذدیک ڈکٹیٹرشپ کے عہد میں ملک” سیاسی اور معاشی“ لحاظ سے زیادہ مستحکم رہا جبکہ” سویلین “حکمرانوں نے اپنی نااہلی اور کرپشن سے اس ملک کو شکست وریخت سے دوچار کیا۔ضیا الحق کی طرح پرویز مشرف کا بھی یہی موقف ہے کہ جہاں ملک کی سالمیت کا تقاضا ہو وہاں آئین سے تھوڑا بہت انحراف کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے بعد میاں نوازشریف کی عدلیہ کے ہاتھوں نااہلی کو دانشور حضرات اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت پارلیمانی نظام کیلئے بڑی خطرناک صورتحال قرار دیتی ہے بلکہ ان میں سے جو لوگ جمہوریت کیلئے زیادہ پرجوش ہیں، اسٹیبلشمنٹ ایک دفعہ پھر جمہوری قوتوں کو دبانے اور ان کی طاقت کو محدود کرنے کیلئے کوشاں ہے۔

نوازشریف کی تاحیات نااہلی” ایگزیکٹوز کی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ “کے ساتھ” محاذ آرائی“ اور مجھے کیوں نکالا کے ساتھ ساتھ ووٹ کو ”عزت“ دو بیانیہ سے ملکی سیاسی حالات ”ایک زلزلہ“ کی کیفیت سے دور چار ہیں،الیکشن ”متوقع“ فائنل مرحلے میں داخل ہوتے ہیں کہ نہیں”ابھی“ کچھ نہیں کہا جا سکتا، ادھر عمران خان نے”لاہوری سیاست“ کا ایک منظر ”مینار پاکستان“ گراونڈ میں پیش کیا تو دوسری طرف بلاول بھٹو،مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم کے ساتھ ”ن“ لیگ کے بیانیہ سے ملک کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ تاثر ابھرکر سامنے آرہا ہے کہ ملک ”صدارتی نظام“ کی طرف بڑھ رہا ہے۔

(جاری ہے)

سینئر سیاست دانوں کی طرف سے اس امکان کو”واضح“ کیا جا رہا ہے تاہم62/63 کی ایک واضح شکل سامنے آنے کے بعد جنرل پرویز مشرف والی”بی اے کی شرط“ کا سیکنڈ پارٹ دیکھائی دیتا ہے۔چند ماہ قبل جسٹس (ر) افتخار چودھری اور ایم ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹرعطاالرحمٰن نے” صدارتی نظام“ کے حق میں بھرپور آواز اٹھائی تو ان پر مخصوص حلقوں کی طرف سے”تنقید“ کا نشانہ بنے،مسٹر عمران خان نے بھی کئی بار ملک میں صدارتی نظام کو ملک کی” معاشی ترقی“ کیلئے بہترقرار دیا مگر اس کیلئے وہ تجویزکرتے ہیں کہ پنجاب کو کم ازکم تین صوبوں میں تقسیم کیا جائے تاکہ صدارتی نظام میں یہ تاثر نہ ابھرے کہ چونکہ پنجاب اکثریتی صوبہ ہے لہذا اسی صوبے کا امیدوار ہرحال میں ملک کا صدر بننے کی پوزیشن میں ہوگا۔

چینی سفیر نے عمران خان سے ملاقات کرکے درخواست کی تھی کہ سی پیک پراجیکٹ کی کامیابی کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ عمران خان نے چینی سفیر کو جواب دیاکہ میں توکرپشن کے خلاف جدوجہد کررہا ہوں۔ اس ”ناں“ کے بعد پاکستانی و عالمی میڈیا پر مسٹر خان کے بارے میں ایک” مہم“ چلائی گئی جس میں پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا نیٹ ورک کا دعویٰ کرنے والے ”ٹی وی و اخبار“ نمایاں ہے نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہودی، امریکی اور بھارتی لابی نے عمران کی شکل میں ایک ایسا کریکٹر تشکیل دیا ہے جس کوپرموٹ کرنے اور مقبول بنانے کے لیے پاکستانی میڈیا بھرپور کردار ادا کرکے اسے وزارت عظمی کے منصب تک پہنچانا چاہتا ہے۔

پارلیمانی نظام کے حوالے سے زیادہ متفکر حضرات کا خیال ہے کہ اسٹیلشمنٹ کو کبھی بھی وزیراعظم کا بااختیار ہونا پسند نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا‘ ذوالفقار علی بھٹو قتل کے مقدمے میں جوڈیشل مرڈرکا شکار ہوگئے جبکہ نوازشریف کو تیسری دفعہ وزارت عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا اور بینظیر بھٹو جو تیسری دفعہ بھی وزیراعظم منتخب ہونے کی سب سے مضبوط امیدوار تھیں وہ بھی شہید کردی گئیں۔

علاوہ ازیں خواجہ ناظم الدین،حسین شہیدسہروردی،چودھری محمد علی، آئی آئی چندریگر‘،محمد خان جونیجو یا یوسف رضا گیلانی جیسے کمزور حیثیت والے وزرائے اعظم کی توکوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ وہ توخزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑگئے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق چیئرمین سینٹ جناب رضا ربانی نے کھل کر اپنے خدشات کا اظہارکیا ہے حالانکہ اس طرح کا اظہارجرآت تو مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کا بنتا تھا۔

محترم رضا ربانی کا کہنا ہے کہ ملک کے تمام آئینی اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا، لیکن مشکل یہ کہ رضا ربانی نے ”یہ بیان“ دینے میں کافی دیر کردی، رضا ربانی نے تو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ” عدلیہ“ پارلیمان اور ایگزیکٹو پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی ہے،اداروں کی مداخلت کے باعث ”آج “سب سے زیادہ کمزور ادارہ” پارلیمان“ ہے اور کبھی کوئی آمر آئین کی شق کا سہارا لے کر عوامی نمائندوں کو گھر بھیج دیتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان فلاحی کے بجائے گیریژن اور سکیورٹی سٹیٹ بن گیا۔

اس مکتب فکرکے نزدیک اسٹیبلشمنٹ یہ سب کچھ بدنیتی اور ہوس اقتدار کے جذبے کے تحت کررہی ہے بلکہ اس طرح جس طرح غلام محمد،سکندر مرزا، ایوب خان،ضیاالحق، فاروق لغاری، غلام اسحاق خاں اور پرویز مشرف نے کیا تھا مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیوں بار بار عوامی نمائندوں کو گھر بھیجنے پر تلی رہتی ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اگرچہ ہماری فوج،عدلیہ اور بیوروکریسی کے کرتا دھرتا کسی دودھ سے دھلے ہوئے نہیں ہیں مگرہمارے سیاست دانوں کی اکثریت ہمیشہ اپنے مخالف حریف کی حکومت گرانے کیلئے آرمی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ہرحال میں تیار رہتی ہے۔

دوسرا ہمارے ہاں پارلیمانی جمہوریت کبھی بھی اپنی اعلیٰ اور ارفع روایات کے ساتھ پروان نہیں چڑھتی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کی نااہلی، نااتفافی اور قومی معاملات میں سنجیدہ روش اختیار نہ کرنا، حکمران خاندان بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ملکی وسائل کو لوٹ مارکرتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ان کے ان کارناموں کی فائلیں تیار رکھتی ہے اور جب یہ سیاسی کٹھ پتلیاں اپنے آپ کو بااختیار سمجھتے ہوئے حقیقی حکمران بننے کی کوشش کرتی ہیں تو پھر یہ سیاستدان اپنی کرپشن کی وجہ سے نیب کے ہاتھوں بلیک میل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

پاکستان کی 70 سالہ آزاد زندگی مختلف النوع بحرانوں کی ایک مسلسل داستان ہے۔ آزادی کے بعد ہمیں لاتعداد چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری اور ایک نئے ملک کی انتظامی مشینری اور معیشت کو استوار کرنا آسان کام نہ تھا۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت قائداعظم کی رحلت کے بعد پاکستان کو ایک جمہوری، فلاحی، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنانے کے چیلنج کا کامیاب مقابلہ کرنے میں ناکام رہی۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک پارلیمانی نظام کے مستحکم بنیادوں پر کھڑا نہ ہونے کی بنیادی وجہ سیاسی قیادت کی ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں ناکامی ہے۔بطور کالم نگار میرا ”عوامی بیانیہ“ یہ ہے کہ کیا سیاست دان مجھے بتا سکتے ہیں کہ ” اسلامی جمہوریہ پاکستان میں”سیاست“ کر کون رہا ہے؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :