مسئلہ احسان مانی نہیں ہے!

اتوار 29 اگست 2021

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

احسان مانی کی چھٹی ہوگئی پاکستان کرکٹ بورڈ کا نیا چیئرمین رمیض راجہ کو ہونا چاہیے۔ماہرین کرکٹ کے مطابق احسان مانی کو یہ عہدہ دینا ہی نہیں چاہئے تھا کیونکہ یہ عہدہ کسی حاضر سروس کا طلبگار تھا جو پاکستانی کرکٹر ہواور پاکستان کے اندر رہ کر ہر صوبے کے ٹیلنٹ سے بخوبی واقف ہو۔کرکٹ بورڈ کا سربراہ باہر سے نہیں چننا چاہے تھا جو خود کچھ نہ کرے اور بورڈ چلانے کا سارا دارومدار چمچوں کے پاس ہو خیر قوم نے اس غلطی کا خمیازہ بھگت لیا ہے۔

امید ہے اب کرکٹ وزیراعظم کے وژن کے تحت پروان چڑھے گی اور رمیض راجہ عہدہ سنبھالتے ہیں تو یہ پاکستانی کرکٹ کے لیے نیک شگوں ہوگا کیونکہ رمیض راجہ پاکستانی کرکٹ بہتر طریقے سے جانتے ہیں بلکہ نیا ٹیلنٹ ان کی انگلیوں پر ہو گا۔

(جاری ہے)

اور وہ پاکستانی کرکٹ کی الف بے سے واقف ہیں رمیض پڑھے لکھے ایماندار، کرکٹ فیملی سے تعلق رکھتے اور پاکستانی کرکٹ کی اونچ نیچ کو بخوبی سمجھتے اور جانتے ہیں۔

احسان مانی نے کے خلاف الزامات ہیں کہ انہوں نے” پاکستان کرکٹ کو تباہ، ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ”کرکٹ کے فروغ کیلئے کام کرنے کی بجائے ” تنازعات“ میں الجھے رہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن ہماری کھیلوں کے میدانوں میں کارکردگی کو دیکھ کر ہر محب وطن پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے،کھیلوں میں اولمپکس سب سے بڑا عالمی میلہ ہوتا ہے، قومیں چار سال تک اس مقابلے کی تیاریاں کرتی ہیں اور جب ان کے کھلاڑی سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے لے کر واپس لوٹتے ہیں تو پوری قوم ان کا استقبال کرتی ہے لیکن بدقستمی سے دوسرے شعبوں کی طرح پاکستان کھیلوں میں بھی بری طرح مار کھا رہا ہیں۔

پاکستان پہلی بار 1948ء میں اولمپکس میں شریک ہوا، اس وقت سے اب تک کے71 برس میں ہم مجموعی طور پر صرف10 میڈلز ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے، ان تمغوں میں بھی 8 ہاکی سے حاصل ہوئے جن میں سونے اور چاندی کے3، 3 اور کانسی کے2 میڈلز شامل ہیں۔ان کے علاوہ ہم نے دو میڈلز ریسلنگ اور باکسنگ میں جیتے، افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ 1992ء سے لے کر اب تک ہم اولمپک مقابلوں میں ایک بھی میڈل حاصل نہیں کر سکے، جبکہ ہمارے مقابلے میں امریکا اولمپکس مقابلوں کی تاریخ میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ2827 میڈلز حاصل کر چکا ہے۔

آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جو ملکی کھیلوں کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں تو جواب صاف اور سیدھا سادھا یہ ہے کہ ہمیشہ سے ملک بھر کی کھیلوں کی فیڈریشنز پر ایسے افراد کا قبضہ رہا ہے جن کا سرے سے سپورٹس سے تعلق ہی نہیں ہوتا۔ ان عہدیداروں کو کھیلوں میں کم باہر کے دوروں میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ بعض شخصیات ایسی بھی ہیں جو ایک سے زیادہ کھیلوں کی تنظیموں کی سیاہ و سفید کی مالک بنی بیٹھیں ہیں، وہ سپورٹس کو ترقی دینے کے نام پر لاکھوں اور کروڑوں روپے کے گھپلوں میں ملوث نظر آتی ہیں اور جب قومی ٹیمیں عالمی مقابلوں میں ناکامی اور مایوسی کی ایک نئی داستان رقم کرنے کے بعد وطن واپس آتی ہیں تویہ عیار اور چالاک عہدیدار انفراسٹرکچر اور فنڈز کی کمی کا رونا رو کر اپنا دامن صاف بچا لیتے ہیں۔

کھیلوں کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ کھیلوں کی ملکی تنظیموں اور فیڈریشنوں میں سیاسی تقرریاں ہیں، بااثر شخصیات اپنا حکومتی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے سپورٹس میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہی دیکھ لیں، نجم سیٹھی وزیر اعظم نواز شریف سے قریبی تعلق ہی کی بنا پر بورڈ کے اہم عہدے پر فائز ہوئے، بریگیڈیئر(ر) خالد سجاد کھوکھر کوسابق وزیر داخلہ احسن اقبال کے سمدھی ہونے کی بنا پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر کے اہم عہدے سے نوازا گیا۔

بریگیڈیئر(ر) صاحب نے مسلم لیگ ن کے راہنما سے قربت کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور پی ایچ ایف کے نام پر50 کروڑ کے قریب فنڈز حاصل کئے۔ڈبل ریٹائرڈاحسان مانی کو وزیر اعظم عمران خان کا”ساتھی“ ہونے کی بنا پر کرکٹ کا”بلا“ پکڑا دیا گیا ،وزیر اعظم عمران خان، رمیض راجہ کی شکل میں دوبارہ یہ غلطی کر سکتے ہیں تاہم اگر پاکستان کرکٹ بورڈ کا نیا چیئرمین رمیض راجہ کو بنایا گیا تو رمیض راجہ کو عمران خان ”ذہن“ سے نکال کر ”پاکستان“ کو دل و دماغ میں رکھنا ہوگا کیونکہ کھیلوں کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ کھیلوں کی ملکی تنظیموں اور فیڈریشنوں میں سیاسی تقرریاں ہیں، بااثر شخصیات اپنا حکومتی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے سپورٹس میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔

ملکی کھیلوں کے اعلیٰ عہدوں پر زیادہ تر بیوروکریٹس، سیاستدانوں، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کا قبضہ ہے، ان شخصیات کو اپنے کام سے اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ کھیلوں پر بھر پور توجہ دے سکیں تاہم جب انٹرنیشنل ایونٹس کے نام پر دنیا بھر میں سیر سپاٹوں کی بات آتی ہے تو یہی افراد سب سے آگے نظر آتے ہیں۔اسی طرح پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن اور تمام صوبائی اولمپک ایسوسی ایشنز پر بھی سالہا سال سے ایسی لوگوں کا قبضہ ہے جن کے طویل اقتدار کی وجہ سے ملکی کھیلیں تو زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہیں۔

اب ایک بار پھر ملکی بدلتے سیاسی حالات کے پیش نظر ہر کوئی شارٹ کٹ کے چکر میں ہے اور اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں قدم جمانے کا خواہشمند ہے۔ کرکٹ کی پیشہ وارانہ سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے، کرکٹ کے انتظامی معاملات کو سمجھنے والے یہ سمجھانے کی کوشش کر ہے ہیں کہ اب بھی وقت ہے مدثر نذر کو واپس لایا جائے، ذاکر خان اپنا کام بہت اچھے طریقے سے کر رہا ہے۔

مدثر نذر سے بہتر ڈیویلپمنٹ کا کام کوئی نہیں کر سکتا۔اب ہم آتے ہیں، بنیادی مسائل اور اُن کے حل کی طرف، کرکٹ کی پیشہ وارانہ سنجیدگی کو سمجھنے اور کرکٹ کے انتظامی معاملات کو سمجھنے والے سمجھا رہے ہیں کہ پاکستان میں سپورٹس پہ توجہ نہ ہونے کے برابر ہے جس کا عکس ہم قومی سطح پر کھیلوں کی مسلسل تنزلی اور مرکز کے زیر کنٹرول علاقوں خصوصاً آزاد کشمیر میں کھیلوں کی عدم سہولیات سے دیکھ سکتے ہیں۔

ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی بندش سے کھلاڑی معاشی مسائل کا شکار ہوگئے، 10 سال تک عالمی سطح پر نیک نامی کا ذریعہ بننے والے کھیلوں کو تباہ کر دیا گیا۔ موجودہ حکومت کے تین سالوں سمیت گزشتہ 10 برس میں کسی بھی حکومت نے ملک کے حقیقی سفیر کھلاڑیوں پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ایسی پالیسی بنائی گئی جس سے قومی اسپورٹس فیڈریشنز، صوبائی ایسوسی ایشنز کا ناقص کارکردگی پر احتساب ہوتا۔

تمام صوبوں اور وفاق میں کھیلوں کو کنٹرول کرنے والے اداروں میں کرپشن اور پرسنٹیج مافیا کا کنٹرول ہے۔ جن کھیلوں میں 10 سال تک عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن اور پرچم بلند ہوا، غلط منصوبہ بندی کے ذریعے انہیں تباہ کر دیا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کھیل اور کھلاڑیوں کو پوچھا نہیں جا رہا ،اسپورٹس منتظمین کے مطابق کھیلوں کو وزارت تعلیم کے ماتحت کیا جائے یا پھر علیحدہ وزارت تشکیل دی جائے۔

کھلاڑیوں کو میرٹ پر قومی ٹیموں میں شامل ہونے کا موقع ملے گا جبکہ اسپورٹس سے وابستہ حقیقی نمائندوں پر مبنی ٹیم مختلف پالیسیاں مرتب کرے گی۔ ون ڈے کرکٹ میں پہلی ہیٹ ٹرک کرنے والے فاسٹ بالر جلال الدین نے امید ظاہر کی کہ عمران خان اب ملکی کرکٹ میں بھی انصاف کریں گے۔ جلال الدین 12 مارچ 1959کوکراچی میں پیدا ہونے والے پاکستانی سابق کرکٹر نے 1982ء سے 1985ء تک 6 ٹیسٹ اور 8 ایک روزہ بین العقوامی کرکٹ میچز کھیلے۔

کھیلوں کے گراونڈز تو کسی نہ کسی طرح بن جائیں گے لیکن کرکٹ, والی بال اور دوسرے کھیلوں کے فروغ کے حوالے سے کچھ ٹھوس منصوبہ بندی بھی ناگزیرہے۔ گو کہ تقریبا ہر یونین کونسل میں کرکٹ کے بڑے بڑے ٹورنامنٹس ہو رہے ہیں لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ کرکٹ کے فروغ کے نام پر اسے تباہ کرنے کی منظم منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، ان ٹورنامنٹس کا انعقاد اور مقصد پاکستان خصوصا ً پنجاب اور کے پی کے سے کھلاڑیوں کو لا کر محض کپ جیتنے اور مخصوص کلبز کے نعرے لگانے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، ایسا بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ گیارہ کھلاڑیوں میں محض دو تین مقامی کھلاڑیوں کو بھی کھیلنے کا موقع میسر نہیں آتا، ایسے میں سیکھنے کا عمل بس تالیاں بجانا، نعرہ لگانا اور چھکے چوکے پہ انعام لے کر مہمان کھلاڑی تک پہنچانے کا نام ہے۔

مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹورنامنٹ کے اختتام پہ کپ جیتنے “کامیاب انعقاد” اور “کھیلوں کے فروغ” پہ مبارکبادوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے،بس کپ جیتنے والوں کی جگہ وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کا کام بس” اے بیل بیل” سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔اس سیزن میں ایک درجن کے قریب ٹورنامنٹس کا فائنل کھیلنے والی ٹیم شاہین کلب نڑ خطے کی سب سے اچھی ٹیم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ واحد ٹیم ہے جو لوکل یونٹ پہ کھیلتی ہے ورنہ باقی تمام ٹیمیں بڑے ٹورنامنٹس میں نوے فیصد کھلاڑی باہر سے لے کر آتی ہیں جس سے مقامی نوجوانوں کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع نہیں مل پاتا، اس کمرشلائزیشن کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ جو کلب سب سے زیادہ پیسہ پھینک کر باہر سے کھلاڑی لا کر کھلائے گا وہی کپ بھی جیتے گا۔

اس سارے پراسس میں بہت ساری کلچرل اور سماجی تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی ہیں جن کا ہماری روایات سے نہ کوی تعلق ہے اور نہ اس سے کوئی سماجی ترقی کی امید ہے. مثلا ہمارے ہاں یہ روائت کبھی بھی نہیں رہی کہ کھلاڑیوں کو ان کے نام بگاڑ بگاڑ کر پکارا جائے! علی موچی, ظہیر کالیا, نعیم ٹونڈا, رحیم سلاٹا, فہیم پراٹھا وغیرہ وغیرہ, اسی طرح اچھے بھلے ٹیلنٹڈ نوجوان کمنٹری کی بنیادی چیزیں سیکھنے کے بجائے مسلسل نقالی کا شکار ہو رہے ہیں.او مائی گارڈ او مائی گارڈ, چھ رنز ہیں چھ رنز ہیں چھ رنز ہیں کی رٹ لگانے سے نہ آپ کرکٹ کی اصطلاحات جان پاتے ہیں اور نہ ہی یہ کمنٹری کے بنیادی اصول ہیں۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ کھیلوں سے دلچسپی رکھنے والے اور کسی حد تک سرپرستی کرنے والے لوگوں کا تعلق شعبہ تعلیم سا ہے یا پھر اس “ایکس سپورٹسمین کمیونٹی” سے ہے جو کھیلوں کے فروغ اور ترویج کے لئے دردِ دل رکھتے ہیں۔ ضرورت صرف چیزوں کو سٹریم لائن اور آرگنائز کرنے کی ہے۔ اب یہ طے ہو جانا چاہیے کہ ہم نے واہ واہ اور دادِ تحسین کا انتخاب کرنا ہے یا پھر کھیلوں کے حقیقی فروغ کے لئے جدوجہد کرنی ہے۔

اولمپکس میں پاکستان کی حالت سب کے سامنے رہی، بری طرح پٹے، قومی کھیل ہاکی کا برا حال ہے شاید کھلاڑیوں کو بھی یاد نہ ہو کہ انہوں نے آخری بین الاقوامی میچ کب کھیلا ہے، شاید چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کو بھی تیس کھلاڑیوں کے نام یاد نہ ہوں۔ ہر کھیل میں ہر سطح پر صرف مایوسی ہی نظر آتی ہے، کھیلوں کی تنظیمیں اور سرکاری ادارے کھلاڑیوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں اب وہ اور بے رحمہو گئے ہیں۔

کھیلوں کی اہمیت کیا ہے یہ تو ہمارے وزیراعظم بہتر جانتے ہیں لیکن کھلاڑیوں کو اس بیان سے سخت دھچکا لگا ہے۔ دیگر مسائل کو اہمیت دینا اور اس دوران کھیلوں کو نظر انداز کرنا درحقیقت صحت مند معاشرے کی تشکیل کو نظر انداز کرنا ہے، پاکستان میں تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں کھیلیں ناصرف بہت بڑی تفریح ہیں بلکہ سپورٹس کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ دے کر ہم اپنی نوجوان نسل کو منفی سرگرمیوں سے بچا سکتے ہیں، کھلاڑی قوم کے سفیر ہوتے ہیں ہم سپورٹس پر توجہ نہ دے کر اپنے سفیروں کے لیے مواقع محدود کر رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کرکٹ میں افغانستان کی تعریف کرتیہیں تاہم وہاں جتنی بہتری آئی ہے کسی اور جگہ نہیں آئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان نے تو حالت جنگ میں بھی ترقی کی ہے، وہ حالت جنگ میں بھی کرکٹ کو نہیں بھولے اور ہم تو اچھے بھلے ہیں، ملک میں پاکستان سپر لیگ کے مقابلے ہو رہے ہیں، ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کھیلی جا رہی ہے، ڈیوس کپ کے مقابلے ہو رہے ہیں، اچھی سکواش بھی کھیلی جا رہی ہے پھر بھی ہم سپورٹس کے لیے وقت نہ نکال پائیں اور افغانستان کی تعریف کریں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں افغانستان سے بھی پیچھے ہیں یا ہمیں افغانستان سے سیکھنے کی ضرورت ہے؟؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :