مسلم لیگ(ن) کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی کھئیل داس کوہستانی نے شناختی کارڈ پر درج رہائشی پتہ کو مخفی کرنے کیلئے قرار داد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروا دی۔قرار داد کے متن میں کہا گیا ہے کہ قومی شناختی کارڈ کا نظام ریاستی خدمات کی ادائیگی میں اہمیت کا حامل ہے، نادرا کو ہدایت کی جائے کہ شناختی کارڈ کا نمونہ تبدیلی کیا جائے، شناختی کارڈ پر موجود رہائشی پتا سمیت اہم معلومات کو مخفی رکھا جائے، متعلقہ معلومات صرف اتھارٹی کے کارڈ میں ہو نہ کہ کارڈ پر آویزاں، بدقسمتی سے شرپسند عناصر تخریبی گروہ ان معلومات کا غلط استعمال کرتے ہیں، دور دراز علاقوں کے حالات دیکھیں تو پتا چلتا ہے کئی شہریوں کو اس وجہ جان گنگوانا پڑی، قرار داد میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 15 ہر شہری کو کسی بھی علاقہ میں سکونت اختیار کرنے کا حق دیتا ہے، شناختی کارڈز پر موجود پتا کئی جان لیوا حادثات کا باعث بنتا ہے۔
(جاری ہے)
آئین کے آرٹیکل 15 کا اصل مطلب کیا ہے یہ تو ”آئینی ماہرین“ ہی بتا سکتے ہیں تاہم ہم آپکو قومی شناختی کارڈ کی تاریخ کے بارے میں بتا تے ہیں،قومی شناختی کارڈ کسی بھی پاکستانی کی شہریت کی ضمانت اور پہچان کا ذریعہ ہے۔قیام پاکستان کے بعد ہی قومی شناختی کارڈ کی اہمیت کا تقاضا زور پکڑ گیا تھا۔ تاہم اس بارے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا پہلا باقاعدہ شناختی کارڈ 1973میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بنایا گیا تھا اور قیام پاکستان کے چھبیس سال تک پاکستان میں کسی قسم کا شناختی کارڈ نہیں جاری کیا جاتا تھا جبکہ یہ حقائق برمبنی نہیں بلکہ پاکستانیوں اور غیر پاکستانیوں کی شخصی شناخت کا نظام کار وضع کرنے کا حکم پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نے جاری کردیا تھا تاکہ پاکستانی و غیر پاکستانیوں کی تشخیص کی جاسکے۔
اسکا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کا سب سے پہلا پاسپورٹ قیام پاکستان کے فوری بعد بن گیا تھا جو سفری دستاویز کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اس پر شناختی کارڈ نمبر بھی درج ہوتا تھا۔ 1965 کے صدارتی الیکشن سے پہلے ہی پاکستان الیکشن کمیشن نے شناختی کارڈ کے ادارے میں اہم تبدیلی لانے کا فیصلہ کرلیاتھا تاکہ انتخابات میں شناختی کارڈ کو استعمال کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ 1965سے پہلے شناختی کارڈ کی طرح پاکستانیوں کے بیرونی سفر کے لئے پاسپورٹ جاری کرنے کے پیچھے ایک خاصی فکری ذہن کارفرما تھے جس کی وجہ سے آئین میں تبدیلیاں کرکے سب سے پہلے شناختی کارڈ میں پاکستانیوں کو ڈیٹا اکٹھا کرنے کا نظام وضع کیا گیا تھا۔1970تک اس ادارے میں واضع تبدیلیاں کردی گئیں تاہم 1971کی جنگ کے بعد شناختی کارڈ کے نظام میں مزید پیش رفت ہوئی اور پہلی بار 1973 میں ڈیٹا بیس کی بنیاد پر نظام کو استوار کردیا گیا اور پاکستانیوں کو ڈیٹا بیس شناختی کارڈ جاری کئے جانے لگے۔
اس نئے نظام کے تحت پہلا سادہ ڈیٹا بیس کارڈ وزیر اعظم بھٹو کا بنا تھا۔پاکستانی شناختی کارڈ میں 1996 میں امریکہ سے جدید آئی بی ایم لیا گیا جس کے تحت پہلی بار ملک میں بائیو میٹرک سسٹم استعمال کیا جانے لگا اور 2000ء میں جنرل پرویز مشرف کی ہدایات پر آئینی ترمیم کرکے نادرا جیسے ادارے کا قیام عمل میں لایا گیاتاکہ پاکستان میں غیر ملکیوں اور مہاجریں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو جدید ڈیٹا سسٹم میں منتقل کرکے ملک کی صورتحال پر نظر رکھی جاسکے۔
سادہ ڈیٹا بیس شناختی کارڈ سے سفر شروع کرنے والا یہ کارڈ اب ایک ڈیٹاچپ کی مدد سے کمپیوٹرائزڈ کارڈ میں منتقل ہوچکا ہے جس سے کسی بھی کارڈ ہولڈر کی مکمل خاندانی شناخت کرنا آسان ہوچکا ہے۔عہد موجود میں نادرا نے شناختی کارڈ کی تصدیق و تجدید کے نئے نظام کا اجرا کر رکھا ہے ،نئے نظام کی بدولت ہر پاکستانی تصدیق کر سکتا ہے کہ ان کے خاندان میں کوئی اجنبی یا غیرمتعلقہ فرد تو رجسٹرڈ نہیں ہے ”آپ کا خاندان محفوظ تو پاکستان محفوظ“ کے مرکزی پیغام کے تحت آگاہی مہم کا آغاز کر دیا گیا غیرقانونی طور پر پاکستان میں رہنے والے غیرملکیوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا وزیراعظم پاکستان عمران خان حکومت کے اس سلوگن کے ساتھ اگر ہم ”انفرادی “ طور پر ایسے سمجھ لیں تو ” ہم کہہ سکتے ہیں“ ”آپ محفوظ تو پاکستان محفوظ“ نادرا کے ڈیٹا بیس کو کسی بھی قسم کے غلط اندراج سے پاک بنانے کے لئے آرٹیفشل انٹیلی جنس جیسی جدت آمیز ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا اور جعلی شناختی کارڈ کا سراغ لگایا جائے گا۔
موجودہ چیئرمین نے نادرا کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انتہائی قلیل عرصے میں تصدیق و تجدید کے نظام کو تخلیق کیا اورعملدرآمد یقینی بنایا جس کی بدولت نادرا ڈیٹابیس میں موجود غیرملکیوں کی نشاندہی انتہائی آسان ہو گئی ہے۔ تصدیق و تجدید کے اس جدید ترین نظام کی بدولت تمام پاکستانی شہری اپنے خاندان کے افراد کی تفصیل ایس ایم ایس کے ذریعے اپنے موبائل فون پر حاصل کر سکتے ہیں اور ان کی تصدیق بھی کر سکتے ہیں۔
نادرا میں اپنے رجسٹرڈ موبائل نمبر سے 8009پر اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر بمعہ تاریخ اجرا ایس ایم ایس کریں۔ جواب میں میسج کرنے والے شخص کو اپنے خاندان کے افراد کی تفصیلات(فیملی ٹری)موصول ہوں گی۔ کوئی بھی معلومات اگر درست نہ ہوں یا خاندان میں کسی اجنبی یا غیرمتعلقہ فرد کا نام شامل ہو تو نادرا کو مطلع کرنے کے لئے جواب میں 1لکھ کر ایس ایم ایس کریں۔
نادرا کا نمائندہ اس متعلق آپ سے رابطہ کرے گا۔ تمام معلومات درست ہوں تو 2لکھ کر ایس ایم ایس کریں اور نادرا کو معلومات درست ہونے کی تصدیق کریں۔آپ آتے ہیں مسلم لیگ( ن) کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی کھئیل داس کوہستانی کی شناختی کارڈ پر درج رہائشی پتہ کو مخفی کرنے کیلئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروائی گئی قرارداد پر، ہمارے خیال میں یہ ایک ممکن کام ہے اور با آسانی عمل میں لایا جا سکتا ہے لیکن ”فراڈیے“ اور ملک و قوم کے دشمن کو ہر قانونی شق اور طریقہ کا ”دو نمبر“ حل نکا لیتے ہیں ، اب عام کاروباری آدمی کارڈ دیکھ کر ”دوسرے فرد کا“ شہر و علاقہ معلوم کر لیتا ہے اور کاروباری لین دین میں آسانی ہوتی ہے، بہت سارے افراد ایڈریس کو ہی بنیاد بنا کر تعلق بناتے ہیں اور جان پہچان کے ساتھ شخصی گارنٹی بھی اہمیت رکھتی ہے۔
کرایہ داری، جاب، رشتہ سب ہی تو ” مذکورہ ایڈریس“ سے منسلک ہے۔ اس پر اداروں کو کام کرنا چاہیے ۔ ہمارے خیال میں سب سے اہم کام تو یہ ہے کہ جس کے پاس بھی ویلڈ شناختی کارڈ ہو اُس کیلئے ”پورے پاکستان میں کوئی ممنوعہ علاقہ نہیں ہونا چاہئے نا ہم کوئی ٹریک، روک ٹوک والا، سیکیورٹی کے نام پر بلاوجہ ”جوتا اُتروائی، جامہ تلاشی“ کو بند کرنا سب سے پہلا کام ہونا چاہیے،یہ ہے اصل آرٹیکل پندرہ، شہری تحفظ اور عزت نفس کی بحالی، باقی کام بعد میں…!