سوشل میڈیا رولز 2021، نفسیاتی سائنس اور درپیش چیلنجز!!

بدھ 20 اکتوبر 2021

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

اچھی خبر وں میں سے ایک خبر کے مطابق ”وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن نے سوشل میڈیا رولز 2021 کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے“پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا ں نیوز ایجنسی میڈیا ڈور کی طرف سے سامنے آنے والی خبر کے مطابق ” ترمیم شدہ رولز کے تحت پاکستانی صارفین کو آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی مکمل آزادی ہوگی۔پاکستانی صارفین اور سوشل میڈیا اداروں کے مابین رابطوں کیلئے رولز اہم کردار ادا کریں گے“امین الحق نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن سے متعلقہ سوشل میڈیا رولز 2021کی روشنی میں مزید بتایا ہے کہبتایا کہ ”سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستانی قوانین اور سوشل میڈیا صارفین کے حقوق کی پاسداری کرنا ہوگی“ انتہا پسندی، دہشت گردی، نفرت انگیز، فحش اور پرتشدد مواد کی لائیو اسٹریمنگ پر پابندی ہوگی۔

(جاری ہے)

سوشل میڈیا ادارے پاکستان کے وقار و سلامتی کے خلاف مواد ہٹانے کے پابند ہوں گے۔اخلاق باختہ اور فحش مواد کی تشہیر بھی قابل گرفت جرم ہوگا۔سوشل میڈیا ادارے اور سروس پرووائیڈرز کمیونٹی گائیڈ لائنز تشکیل دیں گے اورگائیڈ لائنز میں صارفین کومواد اپ لوڈ کرنے سے متعلق آگاہی دی جائے گی۔انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ کسی بھی شخص سے متعلق منفی مواد اپ لوڈ نہیں کیا جائے گا اوردوسروں کی نجی زندگی سے متعلق مواد،پاکستان کے ثقافتی اور اخلاقی رجحانات کے مخالف مواد،بچوں کی ذہنی و جسمانی نشونما اور اخلاقیات تباہ کرنے سے متعلق مواد پر پابندی ہوگی۔

اس کے علاوہ یوٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک، ٹوئٹر، گوگل پلس سمیت تمام سوشل میڈیا ادارے رولز کے پابند ہوں گے۔ نوٹیفیکشن کے اجراء کے بعد سوشل میڈیا اداروں پر جلد از جلد پاکستان میں دفاتر قائم کرنا لازم ہوگا اورسوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کیلئے اپنا مجاز افسرمقررکریں گی۔قارئین محترم، ایک بین القوامی ادارے گلوبل انوویشن انڈیکس کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں اب تک دنیا کی سب سے کم سائنسی ایجادات و تخلیقات کی گئیں اس فہرست میں پاکستان سے نیچے صرف تنازعوں اور خانہ جنگیوں کا شکار اور غیر ترقی یافتہ ممالک جیسے برکینا فاسو، نائیجریا اور یمن وغیرہ کا نام آتا ہے،2019 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر سامنے آنے والی اس فہرست میں پاکستان 105 ویں نمبر پر موجود ہے جبکہ سوئٹزر لینڈ کو دنیا کا سب سے زیادہ سائنسی تخلیقات کرنے والا ملک قرار دیا گیا ہے، دوسرے نمبر پر سوئیڈن، تیسرے پر امریکہ جبکہ چوتھے پر نیدرلینڈ موجود ہے، اس رپورٹ کے مطابق پاکستان پڑوسی ملک انڈیا اس فہرست میں 52 ویں نمبر پر موجود ہے، جب کہ ہمیں اس سے کئی گنا نیچے پسماندہ ممالک کا قرب حاصل ہے، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے ہاں سائنس اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادے اور اپنی آنے والی نسلوں کو سائنسی علوم سے روشناس کرانے کا آج تک کا کیا معیار رہا ہے،سائنس کی ترقی کا انحصار صرف مادی وسائل پر ہی نہیں ہوتا، اور نہ ہی یہ دنوں یا مہینوں پر محیط ہوتی ہے- اور یہ کوئی ایسی چیز بھی نہیں جو کہ بازار سے خرید لی جائے یا کسی دوسرے ملک سے درآمد کرلی جائے، بلکہ سائنس کی ترقی کیلئے سائنسی معاشرے کی تشکیل بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر ذی شعور سائنسی انداز میں سوچتا ہو اور جہاں روزمرہ کے مسائل اور درپیش مشکلات کے حل سائنسی بنیادوں پر ترتیب دیئے جاتے ہوں اور جہاں آئے روز اوپر سے لے کر نیچے ہر سطح تک نت نئے آئیڈیاز اور عمومی تخلیقات معرضِ وجود میں آ رہی ہوں۔اور یقیناً اس سب کا دارومدار اجتماعی سطح پر کسی بھی علاقے یا خطے کے معاشروں کی سماجی، تہذیبی اور سیاسی ترجیحات پر ہی ہوتا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی مضبوط معیشت، قوت ارادی اور بلند عزائم کے بغیر ناممکن ہے۔ انسانی فطرت میں سہولت کے حصول کی خاطر قوت ارادی اور بلند عزائم خود پیدا ہوجاتے ہیں، جبکہ مضبوط معیشت اس ارادہ اور عزم کا محصول ہوتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی انسانی سہولت میں اضافہ کرتے چلی جاتی ہے۔مغرب کی پے درپے سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کا راز بھی یہی عناصر ہیں۔

البتہ مغرب کی مضبوط معیشت میں و بینکاری خام وسائل سے بھرپور علاقوں پر فوجی دھونس و زبردستی، سیاسی غرور و تکبر، نسلی تعصب،خود غرضی بھی شامل ہے۔ہم ا یسے مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت پریشانی اور اضطراب کا اظہار کرتے ہیں،ہم مغرب کے رائج بنکاری سسٹم، کاروبار اور فوجی دھونس اور غرور و تعصب کی روش پر قائم ٹیکنالوجی سے مقابلہ بازی کاورسٹائل طریقہ اختیار کرنا چاہیے،”نقالی“ تباہی کی طرف لے جاتہ ہے جبکہ ’ہمت و کوشش‘ سے انسانی معاشرے نئی راہیں تلاش کرنتے ہیں۔

ہم سائنسی و سماجی علوم پر توجہ مرکوز کریں، نیچرل سائنسز پر حسب استطاعت خرچہ کریں، تہذیب اور ثقافت اور فنون لطیفہ کو فروغ دیں۔مضبوط عزائم، بلند ہمت اور تہذیب و تہذیب و اخلاق کے ذریعے دنیا کے عوام کے قلوب فتح کرنے کی کوشش کریں۔ ثقافتی و معاشرتی اقدار، عدل و عدالت، انصاف، مہربانی، رحم دلی، تواضح، محبت، انکساری اور دیگر صفات حسنہ جو کہ دین نے اپنانے کی نصیحت کی ہے ان کے ذریعے اپنی دنیا کو مسخر کریں” دنیا جو آخرت کی کھیتی ہے، خود بخود آباد ہوجائے گی۔

پسماندہ بنکاری کاروبار، رشوت، چوری، غبن سے دور رہتے ہوئے معاشی اخلاق اور تہذیب اپنانے سے تیسری دنیا بے سروپا علوم سے مستغنی ہوجائے گی اور سماج اپنے بہترین اخلاقی روایات پر فخر کرسکے گا۔ انسانی دنیا کے مسائل پر فوکس رہے گا ، مریخ و پلوٹو پر رسائی و تحقیقاتی مراکز کا قیام”نارمل“ پلاننگ کا حصہ ہونگے،انسانی نفسیاتی علوم کے رائج کرنے سے ” چھوٹی چھوٹی چندی چوریاں، دھوکے، فراڈ، غبن وغیرہ خود بخود ”پامال“ ہو جائیں گے، انسانی اقدار کو فراموش کرکے وسائل سے بھرپور علاقوں کی طرف ”پیش قدمی“ سے اجتناب فرمائیں، غرور و تکبر، خود غرضی،لالچ،تعصب و دہشت گردی سماجی برائیاں ہیں،علوم سائیکالوجی کی ترویج سے ان پر قابو پائیں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرکے مغرب سے مقابلے اور ” سائنس و ٹیکنالوجی“ میں پیش قدمی ”جمہ جمعہ ”آٹھ“ دن والے کسی فارمولہ سے نہیں آتی،گھڑسوار تیار کرنا دراصل ”معیشت کی مضبوطی“ کی طرف اشارہ ہے۔

یاد رکھیں سامراج کے دجالی چراغ کا”گل“ کرنا بھی ایک محاورہ ہے یعنی ”مورالٹی ان پرافٹ“ کے فارمولہ کے تحت معیثت کی ترقی کے زینے طے کرنا،”انسانوں کی دشمن“ طاقتوں کو خود کو انسان کہتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی کہ دنیا کی ترقی، ففتھ انڈسٹریل انقلاب، گلوبلائزیشن اور ہائی پروفائل ٹیکنالوجی کی تعریفیں سے نہیں دنیا کی 70 فیصد آبادی کے پاس صاف پانی، کھانا، کپڑا اور چھت تک نہیں ہے، اس تنزلی سے انسانوں کے چھٹکارے کے بعد ہی”انسان مہذب کہلانے کا حق دار ہوگا“قارئین محترم،موجودہ دور سائنسی دور کہلاتا ہے۔

سائنس کی ترقی نے جہاں ہمارے علم و شعور میں اضافہ کیا ہے، وہیں انسانی طرزِ زندگی میں بے پناہ انقلابی تبدیلیاں بھی آئی ہیں- قدیم زمانے کے غیر مہذب اور وحشی انسان کے لئے اس وسیع کائنات کی ہر چیز ہی پراسرار تھی، موسمیاتی تبدیلیاں، چاند سورج اور ستاروں کی گردش، زلزلے، آندھیاں، دریا، سمندر اور خونخوار جانور یہ سب چیزیں اس کی عقل اور فہم سے بالاتر تھیں، ان کو تنہا ان سب کا مقابلہ کرنا تھا، یقیناً وہ تنہا ہونے کے ساتھ ان سب سے کمزور بھی تھا، لیکن آج کا انسان دورِ قدیم کے انسان سے نہ صرف طاقت ور اور مضبوط ہے، بلکہ اس نے تسخیر کائنات کے بہت سے راز پا لئے ہیں۔

جب کہ آئے روز کی نت نئی ایجادات اور جِدّت طرازیوں نے بھی دنیا کو پہلے سے زیادہ خوب صورت اور انسانی زندگی کو پرکشش رنگوں سے مزین کر کے رکھ دیا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں سائنسی تعلیم کے رجحان کا شروع سے ہی فقدان رہا اور شائد یہ بھی ایک المیہ ہے کہ دنیا بھر میں سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں ہمارا نام سب سے آخر میں آتا ہے بحیثیت قوم ہمارے لئے یہ کوئی نیا المیہ نہیں، برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی پچھلے چند سالوں یا چند عشروں کی نہیں بلکہ کئی صدیوں کی تاریخ ہے کہ ہماری انفرای و اجتماعی سطح پر اولین ترجیحات میں ذہنی و جسمانی آسائش و تعیشات سے متعلقہ شعبہ زندگی کے علوم و فنون ہی رہے، یہاں تک کہ ہر دور کے ارباب اختیار و اقتدار نے فن تعمیر، راگ رنگ موسیقی اور ادبیت و رومانویت میں ہر طرح سے اپنا لوہا منوایا، لیکن شاید یہ بدقسمتی ہمارا مقدر ٹھہرنا تھی کہ گزشتہ کسی بھی دور میں ہم کائنات کی وسعتوں اور گہرائیوں کو تلاشنے، اور جدید سائنسی علوم میں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے قابل نہ ہو سکے- یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سترہویں صدی کے اوائل میں جب مغربی سلطنتیں جدید سائنسی طرز عمل اور اصلاحات میں انقلابی اقدامات و اصلاحات متعارف کرانے میں پیش پیش تھیں اور فرانسس بیکن، رینے ڈیکارٹ، اور نیوٹن جیسے فلاسفر اور سائنس دان دنیا کے سربستہ رازوں سے پردے اٹھانے کی تگ و دو میں ہر لمحہ ہلکان ہوئے جا رہے تھے تو دوسری طرف شاہ جہاں اور ممتاز محل کی لوو سٹوریوں اور جہانگیر اور نورجہاں کے عشق و معشوقی کی داستانوں سے” مخمور ی“ بھی اپنے سٹائل کا الگ ہی ”جہاں“ تھا،سائنسی علوم اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے آج بھی ہماری سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ کبھی تو ہم مذہب کو سائنس کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں، اور کبھی سائنس کو مذہب کی چاردیواری میں گھسیٹ کر لانے میں کوئی تامل یا پس و پیش نہیں کرتے- حالانکہ اس معاملے کو سمجھنے کے لئے بحیثیت ”انسان“ ایک بالکل سادہ سا کلیہ ہے کہ مذاہب نے جس علم کو ”گود سے گور“ تک حاصل کرنے کا صریح اور واضح لفظوں میں حکم دیا ہے، وہ علم ان تمام جدید اور ذیلی علوم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

اب اگر ہم ان جدید علوم سے استفادہ نہیں کریں گے اور کائنات کے اسرار و رموز سے نابلد و ناآشنا ہی رہیں گے تو ان علوم پر دسترس رکھنے والے اغیار یقیناً اپنے عقائد و نظریات کے مطابق ان کی اپنی من مانی تشریحات ہی تو کریں گے اور پھر شاید ہمیں اس معاملے میں مذہب کو چیخ چیخ کر اور پکار پکار کر سچا ثابت کرنے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا، کیونکہ مذہب کو سچا ثابت کرنے کے لئے صرف مذہبی جنون ہی کافی نہیں ہوتا اس کے لئے ضرور ہمیں ان علوم کی تہہ میں پہنچ کر صحیح اور خالص دلائل کی ضرورت ہے اور اس کے لئے بات گھوم پھر کر وہیں آتی ہے کہ ہمیں جدید دنیا کے جدید سائنسی علوم سے بہرہ مند ہونے کی اشد ضرورت ہے ،آج یقیناً اکیسویں صدی کی دہلیز پر کھڑی جدید دنیا سے ہم پلہ و ہمنوا رہنے کے لئے ہمیں اپنی روش کو بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنی ترجیحات کا تعین بھی کرنا ہو گا۔

اپنی معاشرتی اقدار کو جدید طرز معاشرت سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہمیشہ سے تھی، ہے، اور رہے گی، اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں انفرادی اجتماعی ہر سطح پر سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت کو سمجھنا پڑے گا، پھر اس کے بعد اپنی قدامت پسندانہ روایات اور فرسودگی پر مبنی اپنے عقائد و نظریات کے بت بھی پاش پاش کرنا پڑیں گے-،بس یہی وہ راستہ ہے جو امن و آشتی، خوشحالی اور رفعت و عظمت کا نشان منزل ہے اور جو ایک جدید سائینٹفک معاشرے کی تشکیل کے لئے از حد ضروری ہے، یاد رہے جس” دھرتی پر شاعر اور مجذوب نظر آئیں اُسے بھی” زرخیز“ ہی سمجھیں،کنارہ کشی اختیار نہ کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :