ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے وابستہ ”اقتصادیات“

ہفتہ 31 جولائی 2021

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اقتصادی ترقی کے فروغ کی ایک اہم قوت میں ڈھل چکی ہے اور ایسے ممالک جنہیں ٹیکنالوجی میں عبور حاصل ہے یقیناً دوسرے ممالک سے کئی اعتبار سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ چند نئے مسائل نے بھی جنم لیا ہے جن میں ڈیٹا سیکیورٹی سرفہرست ہے۔ایسے میں عالمی ڈیجیٹل گورننس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

ماہرین کے نزدیک ڈیٹا سیکیورٹی سے متعلق معاملات کو جامع، بامعنیٰ،شفاف اور حقیقی بنیادوں پر حل کیا جائے اور بالادستی،دھونس اور عالمی قواعد و ضوابط سے منافی سرگرمیوں سے اجتناب کرتے ہوئے ہر ملک کی خودمختاری کا احترام کیا جائے۔سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں دس سے بارہ دسمبر کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام ایک کانفرنس میں عالمی رہنما اور ماہرین اس موضوع پر مشورہ کررہے ہیں کہ دور دراز علاقوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی کیسے ممکن بنائی جائے۔

(جاری ہے)

افریقہ کے بعض شہروں میں خواتین موبائل فون کے ذریعے بازار میں اشیاء کی قیمتیں معلوم کررہی ہیں، بنگلہ دیش میں طلباء انٹرنیٹ پر سائنسی مضامین پڑھ رہے ہیں، پاکستان کے شہروں میں بنیادی تعلیم ہو نہ ہو، کمپیوٹر کے تربیتی ادارے بڑی تعداد میں قائم کیے جارہے ہیں، وغیرہ۔ایک طرف جہاں ترقی یافتہ ملکوں میں کمپیوٹر، موبائل فون، پی ڈی اے اور انٹرنیٹ جیسی جدیدترین ٹیکنالوجی لوگوں کی زندگی کا حصہ بن گئی ہے، وہیں دوسری طرف لاکھوں گاؤں اور قصبے ایسے ہیں جہاں بجلی اور ٹیلیفون تک مہیا نہیں ہیں۔

آج بھی اربوں لوگ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے محروم ہیں۔ڈیجیٹل ڈیوائیڈیعنی ٹیکنالوجی کے اس خلاء کو کیسے پورا کیا جاسکتا ہے؟ کیا آپ بھی ٹیکنالیوجی کے اس انقلاب کو کامیاب بنانے کیلئے کچھ کررہے ہیں؟ آپ کے گاؤں اور قصبوں کے لوگ ٹیکنالوجی کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں؟ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے آپ کی زندگی کو کیسے متاثر کیا ہے؟پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی میڈیا ڈور کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے میں پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے افراد کے حصہ لیا اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سروے کے اظہار خیال سے پہلے آپ کو بتاتے چلیں کہ”چین کا شمار بھی دنیا کے ان سرفہرست ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں ٹیکنالوجی کی ترقی نے ملک کی اقتصادی سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور عوام کی زندگیوں میں بے پناہ سہولیات لائی گئی ہیں۔دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئیچین کی جانب سے حال ہی میں ڈیٹا سیکیورٹی کے لیے ایک ”گلوبل انیشیٹو “تجویز کیا گیا ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر ڈیجٹیل گورننس کو مزید مربوط بناتے ہوئے کثیر الجہتی کا فروغ، سیکیورٹی و ترقی میں توازن لانا، شفافیت اور منصفانہ نظام کو یقینی بنانا ہے۔

ایک بڑے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین کی خواہش ہے کہ دنیا میں ایک محفوظ ڈیجیٹل ماحول کو فروغ دیا جائے اور تمام عالمی فریقین کے درمیان تعاون کو آگے بڑھایا جائے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ عالمی برادری ہر ملک کی جغرافیائی سالمیت کے احترام پر تو متفق ہے لیکن ابھی تک ڈیجیٹل سالمیت کی مکمل تعریف یا وضاحت ہمارے سامنے نہیں آ سکی ہے۔

اس حوالے سے پائے جانے والے ابہام سے چند ممالک یا طاقتیں فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لہذا یہ لازمی ہو چکا ہے کہ دنیا بھر میں ڈیجیٹل گورننس کی سمت متعین کی جائے اور ایسی طاقتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو ڈیٹا سیکیورٹی،سائبر اسپیس جیسے امور کی آڑ میں دیگر ممالک کی ڈیجیٹل ترقی سے خائف ہیں۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اس وقت زندگی کا اتنا اہم جزو بن چکی ہے کہ کئی مرتبہ اس سے آراستہ اشیاء کے بغیر ایک قدم چلنا مشکل ہوجاتا ہے اس لئے اس کی افادیت اور اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ ہرچند ہمارے تمام بڑے شہر اب اس کے بغیر اپاہج ہوجاتے ہیں لیکن دور دراز علاقے ابھی تک اس کی رسائی میں نہیں آئے۔ اگرچہ سابق وفاقی وزیر اور موجودہ مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے سبب کچھ ترقی ہوئی ہے لیکن ابھی بھی اس دوڑ میں ہم بہت پیچھے ہیں۔

صرف چند سو تربیت گاہیں اور چند طلباء وطالبات کو وظائف دے کر سب کے ساتھ قدم ملا کر چلنا دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ بھارت نے اب گاؤں گاؤں اس کو پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ معلوم نہیں پاکستان کب خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر آنے والی نسلوں کیلئے اس ٹیکنالوجی کے راستے کھولے گا۔بدقسمتی سے امریکہ جیسا ملک جو خود کو سپر پاور کہلاتا ہے، وہ بھی ڈیجیٹل گورننس میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے اس وقت منفی حربوں پر عمل پیرا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چین کی کمپنیوں کو محدود کرنے کے لیے پابندیوں کا سہارا لیا جا رہا ہے اور ایک ”کلین نیٹ ورک“ کی آڑمیں چین کی عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔”دی انٹرنیٹ سوسائٹی“نے بھی امریکہ کے کلین نیٹ ورک پروگرام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسے انٹرنیٹ کی ترقی کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔

امریکی یکطرفہ اقدامات کسی بھی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے شایان شان نہیں ہیں جبکہ عالمی قواعد و ضوابط کے برعکس چینی کمپنیوں پر عائد کردہ الزامات میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔چین نے اس ضمن میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی حیثیت سے ایک ذمہ دار ملک کا کردار نبھاتے ہوئے عالمی ڈیجیٹل گورننس کے لیے قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں تاکہ باہمی احترام،کھلے پن،شفافیت کے اصولوں کے تحت مشاورت اور تعاون سے ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے جس میں ہر ملک کے لیے محفوظ ڈیجیٹل ماحول یقینی بنایا جا سکے۔

اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں موبائل انٹرنیٹ صارفین کی تعداد ساڑھے تین ارب ہو چکی ہے جبکہ ڈیجیٹل معیشت کا عالمی جی ڈی پی میں تناسب پندرہ فیصد سے زائد ہے۔ ایسے میں عالمی سطح پر ڈیٹا سیکیورٹی سے متعلق خطرات ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے مربوط ڈیجیٹل گورننس کی ضرورت ہے۔ڈیٹا سیکیورٹی کا تعلق براہ راست قومی سلامتی،عوامی مفادات،شہری حقوق سے جڑا ہوا ہے لہذا کوئی بھی ملک ان خطرات سے تنہا نہیں نمٹ سکتا ہے،اس لیے گلوبل ڈیجیٹل گورننس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔

چین نے واضح کیا ہے کہ ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قومی تقاضوں اور قوانین کے مطابق ڈیٹا سیکیورٹی کے لیے موئثر انتظامات کر سکے جبکہ دوسری جانب دیگر ممالک اور عالمی کمپنیوں پر بھی زور دیا ہے کہ ہر ملک کی خودمختاری، ملکی قوانین، ڈیٹا گورننس کا احترام کیا جائے اور ڈیٹا تک رسائی کے لیے غیر قانونی کارروائیوں سے گریز کیا جائے۔گلوبل انیشیٹو میں صارفین کی نجی نوعیت کی معلومات تک رسائی کی سختی سے حوصلہ شکنی کی گئی ہے جبکہ دیگر ممالک کی نگرانی یا جاسوسی کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کی شدید مخالفت کی گئی ہے۔

چین کی جانب سے ڈیٹا سیکیورٹی کے لیے بروقت پیش کردہ گلوبل انیشیٹو کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ تمام فریقین بشمول حکومتیں اور کاروباری ادارے، آج کے ڈیجیٹل دور میں اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں اور چین کے ساتھ مل کر گلوبل ڈیجیٹل گورننس کے فروغ سے مشترکہ ترقی کی جستجو کریں جس سے پوری انسانیت کا بھلا ہو سکے۔ ٹیکنالوجی کا اقتصادی ترقی سے تعلق ہے۔

غربت میں کمی اور اقتصادی ترقی سے اس خلا کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ میں نے جب تین سال قبل اپنا شہر چھوڑا تھا تو موبائل یا انٹرنیٹ کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی لیکن اب وہاں بھی بہت حد تک تبدیلی آگئی ہے۔ اگر چار سال پہلے یہ تبدیلی آجاتی تو مجھے اپنا شہر نہ چھوڑنا پڑتا۔ لوگ اس ٹیکنالوجی کا استعمال سب سے زیادہ رابطے اور معلومات کے لئے کر رہے ہیں۔

پاکستان میں اس کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ وہ تارکینِ وطن پاکستانی ہیں جو اپنے گھرانوں اور دوستوں سے رابطے میں رہنا چاہتے ہیں جو انہیں جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال پر مجبور کر رہا ہے۔آسان ترین طریقہ اس کی ضرورت پیدا کرنے کا ہے یعنی اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگہی پیدا کرنے سے لوگوں میں اس کی ضرورت پیدا ہوگی۔ تاہم اسے کم قیمت ہونا ہوگا کیونکہ ہمارے زیادہ تر لوگ غریب ہیں۔

ہمارے ہاں یہ بات عام ہورہی ہے کہ پاکستان میں جگہ جگہ کمپیوٹر مراکز کھل گئے ہیں اور یہ کہ ان میں سے اکثر ادارے غیرمعیاری ہوتے ہیں۔ لیکن ان اداروں کا بھی ایک فائدہ ہے۔ وہ یہ کہ یہ ادارے ایک رجحان پیدا کررہے ہیں اور لوگوں کا رجحان کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی طرف لاتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو کمپیوٹر کی الف ب تو سیکھا دیتے ہیں۔ میں پاکستان کے ایک چھوٹے شہر سے تعلق رکھتا ہوں لیکن آج ہمارے چھوٹے سے شہر کے بارے میں دو ویب سائٹ ہیں جو اس شہر کے نام کے ساتھ منصوب ہیں۔

اس کے علاوہ میرا ایک مشورہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام اسکولوں میں کمپیوٹر کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ انڈیا میں رکشہ والے اور گوالے انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال کررہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی آئی ٹی کلچر کو فروغ دیا جائے۔ اب وقت آگیا ہے ترقی پزیر ملکوں کے لوگوں کے لئے یہ فیصلہ کرنے کا کہ وہ اپنا بجٹ فوج پر زیادہ صرف کرنا چاہتے ہیں یا ٹیکنالوجی پر۔ فیصلہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر غریب اسی طرح سوتے رہے تو بہت دیر ہوجائے گی۔ آبادی کا صحیح استعمال جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ غریب ملکوں کو بہت آگے لے جاسکتی ہے۔ حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ فنڈ ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے مہیا کرنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :