لیجیے ایک اوربریکنگ نیوز

ہفتہ 9 مارچ 2019

Asma Tariq

اسماء طارق

آج کل جس طرح کے حالات چل رہے ہیں ایسے میں تو یہی لگتا ہے کہ مسکرانا منع ہے جس طرف دیکھو بری خبریں ہی سنائی دیتی ہیں ایسے میں بندے کی گھبراہٹ ہی نہیں جاتی اس زمر میں میڈیا خاص اہمیت کا حامل ہے جنہوں نے ہر وقت سنسنی پھیلا ئے رکھنے کا عہد کر لیا اور اب تو یہ ٹرینڈ بن گیا ہے۔ایک چھوٹی سی بات کو اس طرح سنسنی خیز بنا دیا جاتا ہے کہ کیا کہیے۔
نیوز چینلز کی بات ہی مت کیجئے آپ خود ہی دیکھے کہ جب بھی ٹی وی آن کریں اور نیوز چینل پر کریں تو کسی نہ کسی حادثے یا سانحے کی خبر ہی ملتی ہے ،معجزہ۔

ہی ہوجاتا جب کوئی اچھی خبر سننے کو ملے۔
اب تو میڈیا ہر وقت بری خبروں کے تعاقب میں رہتا ہے اور ایسے میں اچھی خبر سامنے بھی ہو تو کوئی نہیں بتاتا کوئی نہیں سناتا نہ ہی اسے اپریشیڈ کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

مگر اگر کہیں کوئی حادثہ یا سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو ایک ایک لمحے کی کوریج کی جاتی ہے اور وہ بھی دکھایا جاتا ہے جو نہیں دکھانا چاہیے۔ہم مانتے ہیں اس معاشرے میں بہت خرابیاں ہونگی مگر اچھائیاں بھی تو ہیں، ان کی طرف کسی کی نظر کیونکر نہیں جاتی اور نہ ہی ان پر کوئی بریکنگ نیوز بنائی جاتی ہے۔

روز جہاں ہزاروں حادثے ہوتے ہیں وہیں ہزاروں اچھے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جن کی مگر نہ خبر بنتی اور نہ کوریج ہوتی ہے۔ بری خبر کیلئے تو جگہ جگہ چوری چھپے بھی کیمرے لگائے جاتے مگر اچھی خبر کی ایک ہیڈ لائن تک بھی نہیں بنتی۔
اوپر سے ٹاک شوز جس میں اس طرح سیاسی فریقین گتھم گتھا ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے گلی کے ناسمجھ لڑکوں کی لڑائی ہورہی ہے۔

ویسے آجکل تو وہ بھی ایسے نہیں لڑتے مگر یہ سیاست دان تو ان سے بھی گئے گزرے ہیں اور اسی طرح گفتگو میں سب ایک دوسرے کی عزتوں کو نیلام کر رہے ہوتے ہیں اور ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ سن کر آپ کو بھی شرم آ جاتی ہے مگر انہیں تو فرق نہیں پڑتا ۔
اسی طرح خبریں اس قدر سنسنی سے بھرپور کہ ہر طرف ان کی ہی سنسناہٹ سنائی دیتی ہے۔ ایک چھوٹی سی خبر کو بھی اس طرح سنسنی خیز بنا دیا جاتا ہے کہ بندہ حیران و پریشان ہو جاتا ہے جبکہ اندر کوئی معمولی سی خبر ہوتی ہے جو شاید اہمیت کی حامل ہی نہیں ہے۔

بریکنگ نیوز آجکل کا ٹرینڈ بن گیا ہے اور اس کی وجہ سے حقائق مسخ ہو رہے ہیں۔ اوپر سے جو الرٹ پروگرام ہیں جنہیں دیکھ کر بندہ سچ مچ گھبرا جاتا ہے کہ حالات اتنے خراب ہیں اور سوچنے لگ جاتا ہے کہ وہ سانسیں کیسے لے رہا ہے۔ ایسے ایسے واقعات دکھائے جاتے ہیں کہ بندہ ڈپریشن کا شکار ہو کر ذہنی مریض بن جاتا ہے۔
 بدقسمتی سے ہم جیسے ممالک جہاں گھر سے باہر زیادہ سرگرمیاں نہیں ہیں وہاں زیادہ تر خواتین کو بھی گھر میں ہی رہنا پڑتا ہے اور بچوں کے لئے بھی پارکز اور فن لینڈز کی کمی ہے۔

ان سب میں ٹی وی ہماری زندگیوں کا اہم ترین حصہ بن گیا ہے اور یہ ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو کنٹرول کر رہا ہے ایسے میں بہت ضروری ہے کہ ہم جو مواد دیکھ ہیں وہ درست اور صحیح ہو اور تصدیق شدہ ہو کیونکہ اس سے ہماری زندگیوں پر بہت اثر پڑتا ہے وہ ڈرامے ہوں، کارٹون ہوں یا خبریں، آجکل تو ڈرامے بھی ایسے آ رہے ہیں جن میں کہانی کم اور سنسنی زیادہ ہے۔

ہر طرف سازشیں ہی سازشیں دکھائی جارہی ہیں جنہیں دیکھ کر اچھا خاصا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے عورتیں تو باقاعدہ وہمی ہو جاتی ہیں اور شوہروں کی شامت آ جاتی ہے۔ بیشک ہمارے اس معاشرے میں آگاہی کا ایک اہم ذریعہ میڈیا ہے جو معاشرے کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اسی سے ہمیں حقائق کا پتا چلتا ہے مگر یہ جو سنسنی اور بریکنگ نیوز کا سلسلہ ہے یہ حطرناک ہے پریشان کن ہے اس کے متعلق ہمیں سوچنا ہو گا اور اقدامات کرنا ہونگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :