
کیا تشدد ضروری ہے
منگل 20 اپریل 2021

اسماء طارق
(جاری ہے)
وہ مذہب جو مسجد میں لہسن اور پیاز کھا کر جانے سے منع کرتا ہے تا کہ اس کی بدبو سے دوسروں کی دل آزاری ہو گی ۔
چلو مان بھی لیتے ہیں احتجاج ہونا چاہیے تھا مگر اگر یہ پر امن طریقے سے ہوتا تو بہتر نا ہوتا ،اگر یہ توڑ پھوڑ کے بغیر ہوتا تو بہتر نا ہوتا ،اگر یہ غریب کا رزق چھینے بغیر ہوتا تو بہتر نا ہوتا ، اگر یہ غریب کا خیال رکھ کر کیا جاتا تو بہتر نا ہوتا ، اگر اپنے ملک کے حالات کا سوچ کر کیا جاتا تو بہتر نا ہوتا ۔اگر یہ سیاست چمکائے بغیر ہوتا تو بہتر نا ہوتا ، اگر یہ قانونی تقاضے پورے کرتا ہوتا تو بہتر نا ہوتا ۔
ان غریبوں کا کیا قصور تھا جنہوں نے ساری عمر لگا کر کوئی روزگار کا وسیلہ بنایا اور آپ نے ایک ہی پل میں اسے تباہ و برباد کر دیا ، اب اس کا نقصان کون پورا کرے گا. اس مزدور کا کیا قصور تھا جو زور ڈیھاڑیوں پر کام کرتا ہے اور اگر ایک دن کام نہ ملے تو اس کے گھر چولہا نہیں جلتا ۔ اس ماں کا کیا قصور تھا جس کا بیٹا اس تشدد کا شکار ہو جاتا ہے ،اس ملک کا کیا قصور تھا جس نے ہمیں اپنی گود میں پناہ دی ہوئی ہے ،ان رکشوں، ان بسوں ،ان موٹرسائیکلوں ،ان ٹائروں کا کیا قصور تھا جنہیں نذر آتش کیا جاتا ہے ۔
کیا اب بھی ہم نہیں مانتے کہ ہم حد سے زیادہ انتہاپسند نہیں ہیں ،کیا ہم میں سے کسی نے قانون کی بالادستی قائم رکھنے کی کوشش کی جس کا اسلام حکم دیتا ہے ۔کیا ہم نے کبھی یہ جاننے ہی کی کوشش کی کہ اللہ ہم سے کیا کہتا ہے اور اسے ماننے کی کوشش کی ۔ کیا ہم نے کبھی تفرقات سے نکل کر اسلام کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی.
دنیا کے ہر خطے میں مسلے مسائل ہوتے ہیں اور ان کے خلاف آواز بھی اٹھائی جاتی ہے مگر اس کا کیا یہ مطلب ہے کوئی بھی مسئلہ ہو آپ نے باہر نکل کر ملک کو ہی تباہ کرنا ہے ،غریب کو ہی لوٹنا ہے ، اپنے بھائیوں کو اذیت ہی دینی ہے ۔ ہر جگہ مظاہرے ہوتے ہیں مگر ہم کیوں ہر بات پر مشتعل ہو جاتے ہیں ، ہم کیوں ہر بات پر ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیتے ہیں، ہم کیوں دوسروں کو تکلیف دیئے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے ہیں ۔ ہم ایک غلط فیصلے کو صحیح کرنے کے لیے کئی غلط قدم اٹھاتے ہیں ،ہم کوئی بھی کام درست طریقے سے کیوں نہیں کر سکتے ہیں ، ہم کس سمت جا رہے ہیں ،ہم کس ڈگر پر چل پڑے ، کیا جن کو ماننے کے ہم دعوے کرتے ہیں ان کی مان بھی رہے ہیں یا بس زبان سے ہی دعوے کرتے ہیں ، کیا ہمیں اس پر تھوڑی دیر سوچنا نہیں چاہئے ۔ ہمارے مذہبی لیڈر ہوں یا سیاسی لیڈر سب کے پاس ایک ہی طریقہ ہے بات منانے کا اور وہ ہے توڑ پھوڑ کا اور اس میں نقصان صرف اور صرف غریب عوام کا ہوتا ہے یا ملک کا ۔۔ ہمیں سوچنا ہوگا کیا تشدد کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ۔ بس اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
اسماء طارق کے کالمز
-
ٹوٹا دل
منگل 21 ستمبر 2021
-
آزادی مبارک ہو
جمعہ 13 اگست 2021
-
مہذب انسان کی بنیادی اخلاقیات
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کیا تشدد ضروری ہے
منگل 20 اپریل 2021
-
مسکرایا کیجئے، اچھا لگتا ہے
بدھ 23 دسمبر 2020
-
بدلائو کی چڑیا
جمعرات 3 دسمبر 2020
-
امید کی کرن
جمعرات 19 نومبر 2020
-
انسان کو عزت دیں
منگل 8 ستمبر 2020
اسماء طارق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.