
عصبیتوں اور درجے بندیوں سے آزاد ایک عام پاکستانی
منگل 18 نومبر 2014

عاطف خالد بٹ
(جاری ہے)
میرے ملک میں جن طبقات کو سب سے زیادہ طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سے ایک طبقہ ان مذہبی حضرات کا ہے جو عبادت گاہوں میں عموماً قلیل معاوضے کے عوض مختلف مذہبی رسومات و عبادات کی انجام دہی کے فریضے کو اپنے ذمے لیے ہوئے ہیں۔
میرے وطن میں سب سے زیادہ رشک اور تحسین کی نگاہ سے جن طبقات کو دیکھا جاتا ہے ان میں سے ایک طبقہ ان سرکاری افسران کا ہے جن کی اکثریت چودہ جماعتیں پڑھنے کے بعد مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر ”عوامی خدمت“ کے لیے ملازمت کا آغاز کرتی ہے۔ اس ملازمت کے پہلے مرحلے میں ہی ان افسران کو جس تربیت گاہ میں ملک بھر سے اکٹھے کیا جاتا ہے وہاں ان کو ایسا طرزِ بود و باش سکھایا جاتا ہے جس سے انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آگے چل کر انہوں نے نہ تو عام آدمی کی طرح زندگی گزارنی ہے اور نہ ہی عام آدمی سے تعلقات کی کوئی معقول سطح قائم کرنا ان کے لیے مفید اور سودمند ثابت ہوگا۔ تربیت کے مختلف مراحل سے گزرنے کے دوران ان مستقبل کے افسران کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح نقش ہوجاتی ہے کہ اس ملک کے عوام کی تقدیر کے وہ خالق ہیں اور ساتھ ہی ان میں وہ شانِ بے نیازی بھی پیدا ہوجاتی ہے جو خالقِ تقدیر کا الوہی و انفرادی وصف ہے۔ یہ نئے نویلے افسران جب ملازمت کی باقاعدہ شروعات کرتے ہیں تو اس شانِ بے نیازی کی حفاظت کے لیے انہیں کچھ پاسداران بھی مہیا کردیئے جاتے ہیں اور ان پاسدارانِ بے نیازی کی تعداد عہدوں میں ترقی کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اب یہ افسران نہ تو عام معاشرے کا حصہ رہتے ہیں اور نہ ہی انہیں معاشرے میں بسنے والے عام لوگوں کے حالات کے بارے میں کوئی خبر ہونے پاتی ہے۔ اس سب کے باوجود میں یہ خوش کن خیال اپنے دل میں پالے رکھتا ہوں کہ یہ افسران عوامی خدمت کی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دیں اور عام آدمی کے لیے معاشی ناہمواریوں اور دیگر مختلف النوع وجوہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا مستحکم اور مستقل حل فراہم کریں۔ علاوہ ازیں، میں بھی چاہتا ہوں کہ ان میں سے ہر شخص خود کو افسر سمجھ کر شاہانہ زندگی گزارنے کی بجائے اپنے آپ کو عوام کا خادم خیال کرتے ہوئے عام آدمیوں کی طرح جیے۔
نظریاتی عصبیتوں اور معاشرتی درجے بندیوں کی قید میں گرفتار مذکورہ دونوں طبقات سے توقعات کا ایک جہان وابستہ کرنے والا میں خود ان دونوں طبقات میں سے کسی سے بھی تعلق نہیں رکھتا کیونکہ میں تو ایک عام پاکستانی ہوں جو عصبیتوں اور درجے بندیوں سے ہٹ کر زندگی کو دیکھنے اور جانچنے کا ایک منفرد اور یگانہ نہیں تو کم از کم معتدل نظریہ ضرور رکھتا ہے۔ اپنے اسی معتدل نظریے کے ساتھ میں نے 9 نومبر کو قومی جوش و جذبے سے سرشار ہو کر علامہ اقبال کا یومِ ولادت بہت دھوم دھام سے منایا اور اقبال کے خواب کے نتیجے میں شکل پذیر ہونے والے اس خطہٴ ارض کے استحکام کے لیے دل سے دعا بھی مانگی کیونکہ اس دیس میں نہ تو میرے مذہبی نظریے کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی مجھ پر کوئی غیر حکمرانی کررہا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عاطف خالد بٹ کے کالمز
-
کیا اردو کو بین الاقوامی درجہ مل گیا؟؟؟
پیر 11 جنوری 2021
-
کووِڈ، عشقِ رسولﷺ اور حکومتی کارروائیاں
منگل 15 دسمبر 2020
-
جنسی ہراسانی کا قانون: محافظ یا زہرِ قاتل؟
جمعہ 9 اکتوبر 2020
-
عصبیتوں اور درجے بندیوں سے آزاد ایک عام پاکستانی
منگل 18 نومبر 2014
-
فصلِ گل آئی کہ دیوانے کا موسم آیا
جمعرات 27 مارچ 2014
-
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارامہ کامل نہ بن جائے
ہفتہ 17 ستمبر 2011
-
نائن الیون کے مذاہب پر اثرات
بدھ 14 ستمبر 2011
-
سکوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
جمعہ 18 مارچ 2011
عاطف خالد بٹ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.