
کیا اردو کو بین الاقوامی درجہ مل گیا؟؟؟
پیر 11 جنوری 2021

عاطف خالد بٹ
دراصل، اس خوش یا غلط فہمی کی بنیاد بھارت سے شائع ہونے والے اردو اخبار 'سچ کی آواز' میں چھپنے والی ایک خبر ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 'اردو اب اقوام متحدہ کی سرکاری زبان بن گئی ہے۔
(جاری ہے)
تاریخ میں پہلی بار اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کا اردو زبان میں پیغام جاری کیا گیا ہے، یہ ایک خوش آئند خبر ہے۔' قارئین کو مزید گمراہ کرنے کے لیے خبر کو جنیوا کی 'ڈیٹ لائن' اور ایجنسیوں کی 'کریڈٹ لائن' کے ساتھ چھاپا گیا ہے۔
خبر میں آگے چل کر خبر نویس موصوف نے اپنی طرف سے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے رہنماؤں کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا شکریہ بھی ادا کروا دیا ہے۔پاکستان سے تعلق رکھنے والی دو ویب گاہوں، پرو پاکستانی اور نیٹ میگ، نے بغیر اس خبر کی تصدیق کیے انگریزی ترجمہ کر کے اسے چھاپ دیا ہے۔ ایک اخبار اور دو ویب گاہوں پر خبر پڑھنے کے بعد لوگوں کو اس بات پر یقین ہوگیا کہ واقعی اقوامِ متحدہ کی جانب سے اردو کو بین الاقوامی زبان کا درجہ مل گیا ہے۔ اس خبر کی صداقت پر یقین کر کے اسے آگے بڑھانے والوں میں عام اور اوسط درجے کے پڑھے لکھے لوگ ہی شامل نہیں ہیں بلکہ پی ایچ ڈی خواتین و حضرات بھی اس 'کارِ خیر' میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، اور یہی زیادہ تشویش اور افسوس کی بات ہے کیونکہ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں سنی سنائی باتوں کو بغیر تصدیق کیے آگے بڑھانے کا رواج کس حد تک راسخ ہوچکا ہے۔
خیر، حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ خبر اسے لکھنے والے کا حد سے بڑھا ہوا حسنِ ظن یا خوش فہمی ہے ورنہ اردو کو کوئی درجہ ورجہ نہیں ملا۔ دنیا کے 63 ممالک میں اقوام متحدہ کا ایک ذیلی دفتر United Nations Information Centre یا اقوام متحدہ مرکزِ اطلاعات کے نام سے قائم ہے۔ اس دفتر کی ذمہ داری ہے کہ یہ سیکرٹری جنرل کا ہر اہم پیغام یا اقوامِ متحدہ سے متعلق اہم خبریں وغیرہ متعلقہ ملک کی قومی زبان/زبانوں میں ترجمہ کر کے پیش کرے۔ پاکستان میں موجود مذکورہ دفتر نے سیکرٹری جنرل کا نئے سال کا تہنیتی پیغام اردو میں ترجمہ کر کے اپنے یوٹیوب چینل پر جاری کیا جسے خبر نویس نے اپنی مرضی کا رنگ دے لیا ۔ اقوام متحدہ کی چھے سرکاری زبانیں عربی، چینی، فرانسیسی، روسی، ہسپانوی اور انگریزی ہیں، اور اقوام متحدہ کے صدر دفتر سے سرکاری طور پر صرف ان چھے زبانوں میں ہی پیغامات جاری ہوتے ہیں۔
نامور ادیب، شاعر اور صحافی گوپال متّل اپنی کتاب 'لاہور کا جو ذکر کیا' میں 1930ء کی دہائی کی صحافت کا حال لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'پڑھنے والوں کا مذاق ایسا بن چکا تھا کہ چٹخارے کے بغیر کام نہیں چلتا تھا۔' اب آپ خود اندازہ لگا لیجیے کہ گزشتہ نو دہائیوں کے دوران پڑھنے والوں کے چٹخارے دار مذاق میں کس قدر اضافہ ہوچکا ہوگا! بس اسی مذاق کو سامنے رکھتے ہوئے خبر نویس نے ایک عام سی بات کو زیبِ داستاں کے لیے یوں بڑھا چڑھا لیا کہ یار لوگوں نے مبارک بادوں کے ڈونگرے برسانے شروع کردیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عاطف خالد بٹ کے کالمز
-
کیا اردو کو بین الاقوامی درجہ مل گیا؟؟؟
پیر 11 جنوری 2021
-
کووِڈ، عشقِ رسولﷺ اور حکومتی کارروائیاں
منگل 15 دسمبر 2020
-
جنسی ہراسانی کا قانون: محافظ یا زہرِ قاتل؟
جمعہ 9 اکتوبر 2020
-
عصبیتوں اور درجے بندیوں سے آزاد ایک عام پاکستانی
منگل 18 نومبر 2014
-
فصلِ گل آئی کہ دیوانے کا موسم آیا
جمعرات 27 مارچ 2014
-
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارامہ کامل نہ بن جائے
ہفتہ 17 ستمبر 2011
-
نائن الیون کے مذاہب پر اثرات
بدھ 14 ستمبر 2011
-
سکوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
جمعہ 18 مارچ 2011
عاطف خالد بٹ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.