
جنسی ہراسانی کا قانون: محافظ یا زہرِ قاتل؟
جمعہ 9 اکتوبر 2020

عاطف خالد بٹ
(جاری ہے)
اس خودکشی نما قتل کے لیے جو واقعہ محرک ثابت ہوا وہ کچھ یوں تھا کہ مذکورہ کالج میں پڑھنے والی ایک طالبہ نے 8 جولائی 2019ء کو افضل کے خلاف ایک درخواست دی کہ وہ اس کی ہم جماعت لڑکیوں کو گھورتا ہے اور ان کے لباس کی تعریف کرتا ہے۔ درخواست موصول ہونے پر پرنسپل نے معاملہ جنسی ہراسانی کے لیے بنائی گئی کالج کی کمیٹی کے سپرد کردیا۔ کمیٹی نے ایک ہفتے میں تمام چھان بین کر کے 13 جولائی کو اپنی رپورٹ پرنسپل کے سپرد کردی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جس لڑکی نے افضل کے خلاف درخواست دی ہے وہ اور اس کے ساتھی امتحان میں اپنے نمبر بڑھوانا چاہتے تھے، لیکن افضل نے ایسا نہیں کیا تو اس کے خلاف جنسی ہراسانی کی درخواست دیدی گئی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جھوٹی درخواست دینے والی طالبہ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کمیٹی کی رپورٹ موصول ہونے کے باوجود پرنسپل نے افضل کو تحریری طور پر اس کی بےگناہی سے آگاہ نہیں کیا۔ وہ تقریباً تین مہینے تک اپنی بےگناہی کا ثبوت مانگتا رہا۔ اس دوران وہ اپنے گھر اور کالج میں لوگوں کی باتوں اور نظروں کے تیر سہتے ہوئے مسلسل نفسیاتی دباؤ کا شکار رہا۔
اپنی خودکشی سے ایک دن پہلے کالج سے گھر کے لیے روانہ ہوتے ہوئے افضل نے کالج کی جنسی ہراسانی کمیٹی کی خاتون سربراہ کو ایک خط دیا جس میں لکھا تھا کہ میرے بار بار مطالبہ کرنے کے باوجود مجھے میری بےگناہی کا تحریری ثبوت نہیں دیا جارہا؛ کالج اور گھر میں مجھے ایک بدکردار شخص سمجھا جارہا ہے جس کی وجہ سے میں مسلسل تکلیف کا شکار رہتا ہوں۔ خط میں افضل نے لکھا تھا کہ اس کی بیوی اس وجہ سے گھر چھوڑ کر جاچکی ہے کہ اس کے شوہر پر بدکردار ہونے کا الزام لگا ہوا ہے۔ اسی خط میں یہ درخواست بھی کی گئی تھی کہ اگر میں مر گیا تو میری تنخواہ اور میری بےگناہی کا پروانہ میری ماں کو دیدیا جائے۔
افضل کے خودکشی نما قتل کا واقعہ جب منظر عام پر آیا تو اسے دبانے کی بہت کوشش کی گئی۔ مختلف افراد اور گروہ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اس واقعے کو چھپانے میں لگے رہے۔ افضل جس محکمے کا ملازم تھا اس کی توجہ اس خودکشی نما قتل کی جانب تب تک مبذول نہیں ہوئی جب تک ذرائع ابلاغ میں اچھا خاصا شور نہیں مچ گیا۔ اخبارات، ٹیلیویژن چینلز اور سوشل میڈیا پر شور مچنے کے بعد محکمۂ اعلیٰ تعلیم نے اس معاملے کی مکمل چھان بین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک جھوٹے مقدمے کی وجہ سے ایک استاد کی جان جانے کے واقعے کو بنیاد بنا کر قانون میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی کی جاتی ہے اور ایسے اقدامات کیے جاتے کہ آئندہ کوئی ایسا واقعہ پیش آنے کے امکانات معدوم ہو جاتے لیکن ہوا یہ کہ کمیٹی نے اپنا کام مکمل کر کے رپورٹ محکمے کے سپرد کی تو محکمے نے اس کے نتیجے میں محض پرنسپل کو ان کے عہدے سے ہٹانا کافی سمجھ لیا۔
اس اندوہ ناک واقعے کے بعد جو حقائق منظر عام پر آئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ افضل کے خلاف جنسی ہراسانی کی جو جھوٹی درخواست دی گئی تھی مبینہ طور پر وہ اس طالبہ نے خود نہیں لکھی تھی بلکہ ایک استاد نے اسے وہ درخواست لکھوائی تھی۔ محکمے کی تشکیل کردہ کمیٹی کی رپورٹ تک میری رسائی نہیں ہے اس لیے میں نہیں جانتا کہ جھوٹی درخواست لکھوانے والے اس استاد کے بارے میں اس رپورٹ میں کچھ کہا گیا ہے یا نہیں لیکن یہ ایک ایسا نکتہ ہے جو مستقبل میں بہت سے بےگناہوں کی جان بچانے کا وسیلہ بن سکتا تھا۔ جھوٹی درخواست لکھوانے کے پیچھے اس استاد کے مقاصد کیا تھے یہ تو کسی غیر جانبدارانہ تفتیش اور تحقیقات کے بعد ہی پتا چل سکتا تھا لیکن محکمے نے اس بات کو آگے بڑھانا مناسب ہی نہیں سمجھا اور یوں ایک بےگناہ استاد کی جان جانے کے باوجود اس کی ناگہانی موت کے لیے راستہ ہموار کرنے والوں کو کسی تعزیر اور سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
پاکستان میں جنسی ہراسانی کا قانون بنایا تو عورتوں کے تحفظ کے لیے گیا تھا لیکن یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ جب سے یہ قانون بنا ہے تب سے لے کر آج تک اس قانون کا غلط استعمال کسی بھی دوسرے قانون سے کہیں زیادہ ہوا ہے، اور مختلف اداروں، دفاتر اور محکموں میں لوگ ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے اس قانون کے ذریعے اپنے مخالفین، خود سے مختلف نظریات رکھنے والوں اور کمزوروں کا جینا حرام کردیتے ہیں۔ جنسی ہراسانی کا الزام ایک ایسا بےہودہ اور لغو الزام ہے جس کے دفاع میں آپ کچھ کہہ سکتے ہیں نہ کرسکتے ہیں۔ ایک تو کسی خاتون کا آپ پر محض الزام لگادینا ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کے بعد یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ٹھوس ثبوتوں اور شواہد کی مدد سے اس الزام کو غلط ثابت کریں۔ دوسرا، الزام کی نوعیت ایسی بھونڈی بھی ہوسکتی ہے کہ وہ آپ کے محض دیکھنے سے پریشان ہوگئی ہے۔ نظر اور پریشانی کو جانچنے اور ماپنے کا کوئی پیمانہ ہے ہی نہیں، لہٰذا آپ کبھی بھی اس بات کا تعین نہیں کرسکتے کہ واقعی کسی کی نظر کی وجہ سے کسی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے یا نہیں۔ حکومت اگر واقعی معاشرے کو مزید بگاڑ سے بچانا اور صنف کی تمیز کے بغیر عورتوں اور مردوں کے لیے مختلف جگہوں پر سازگار ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے تو اسے اس قانون پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے اس میں ایسی ترامیم کرنی چاہییں کہ کوئی بھی اس قانون کو غلط استعمال کر کے کسی بےگناہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عاطف خالد بٹ کے کالمز
-
کیا اردو کو بین الاقوامی درجہ مل گیا؟؟؟
پیر 11 جنوری 2021
-
کووِڈ، عشقِ رسولﷺ اور حکومتی کارروائیاں
منگل 15 دسمبر 2020
-
جنسی ہراسانی کا قانون: محافظ یا زہرِ قاتل؟
جمعہ 9 اکتوبر 2020
-
عصبیتوں اور درجے بندیوں سے آزاد ایک عام پاکستانی
منگل 18 نومبر 2014
-
فصلِ گل آئی کہ دیوانے کا موسم آیا
جمعرات 27 مارچ 2014
-
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارامہ کامل نہ بن جائے
ہفتہ 17 ستمبر 2011
-
نائن الیون کے مذاہب پر اثرات
بدھ 14 ستمبر 2011
-
سکوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
جمعہ 18 مارچ 2011
عاطف خالد بٹ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.