کووِڈ، عشقِ رسولﷺ اور حکومتی کارروائیاں

منگل 15 دسمبر 2020

Atif Khalid Butt

عاطف خالد بٹ

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس دردِ سر بنا ہوا ہے لیکن یہ دردِ سر صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اس وائرس سے پھیلنے والی وبا کی وجہ سے کسی بھی طرح متاثر ہوئے ہیں یا اسے واقعی ایک سنجیدہ مسئلہ سمجھتے ہیں؛ پاکستانی حکومت اور ایسے لوگوں کے لیے یہ وائرس ایک مذاق ہے جو اس کو مغرب کا جھوٹا پروپیگنڈا خیال کرتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ حکومت کو میں ایسے لوگوں کے ساتھ کیوں نتھی کررہا ہوں جو کووِڈ کو ایک حقیقی مسئلہ نہیں سمجھتے۔

اگر آپ نے گزشتہ ایک برس کے دوران وزیراعظم اور وزرا سمیت مختلف حکومتی عہدیداروں کے بیانات اور ان کے رویوں کا جائزہ لیا ہو تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں۔
کووِڈ کی پہلی لہر تو چلیے خیر جیسے تیسے گزر گئی اور اس میں ہمارا جو جانی اور مالی نقصان ہوا اور اس کے لیے حکومتی بزرجمہران نے جو کردار ادا کیا اسے ایک تو طرف رکھیے لیکن حالیہ لہر کے دوران بھی حکومتی عہدیداروں کا رویہ ایسا ہے جو کسی بھی طرح اس وبا سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی ظاہر نہیں کرتا۔

(جاری ہے)

ایک طرف حکومت کووِڈ کے پھیلاؤ کے لیے عوام کے غیر سنجیدہ رویوں اور حزبِ اختلاف کے جلسوں پر الزام دھرتی ہے تو دوسری جانب حکومت مختلف سطحات پر خود بھی ایسا بہت کچھ کررہی ہے جس سے اس وبا کے روک تھام کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے۔
ربیع الاول کے مہینے میں یعنی اب سے تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے وفاقی حکومت نے پاکستانی عوام کو مذہب سے اپنی وابستگی اور عشقِ رسول ﷺ کا ثبوت دینے اور فرانس میں منظر عام پر آنے والے توہین آمیز خاکوں کے خلاف احتجاج کے لیے ہفتۂ عشقِ رسولﷺ منانے کا اعلان کیا۔

اگر یہ حکومت اپنے اس عمل میں واقعی سنجیدہ ہوتی تو ہم تہ دل سے اس عمل کی تائید و حمایت کرتے لیکن حکومت کے عشقِ رسولﷺ میں مبتلا ہونے کے دعوے کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وزیراعظم کی ہدایت پر ہفتۂ عشقِ رسول ﷺ منانے کے اعلان سے  چند روز پہلے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ فرانس میں تعینات پاکستانی سفیر کو احتجاجاً واپس بلایا جائے۔

قرارداد پیش کرنے والوں میں ایک نام شاہ محمود قریشی کا بھی تھا جو خود وزیرِ خارجہ ہیں اور اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اس وقت تک فرانس میں پاکستان کے سفیر کی اسامی تین مہینے سے خالی پڑی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ قرارداد میں فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے نکالنے کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔
وفاقی حکومت کی دیکھا دیکھی پنجاب حکومت نے بھی ایک ہفتہ منانے کا اعلان کیا اور اسے ہفتۂ شانِ رحمۃللعالمینﷺ کا نام دیا۔

اس ایک ہفتے کے دوران پنجاب حکومت کے محکمۂ اعلیٰ تعلیم نے تعلیمی اداروں میں مختلف سطحوں پر تقریری مقابلوں کا انعقاد کروایا اور پھر الحمرا اوپن ایئر تھیئٹر میں ایک تقریب تقسیم انعامات بھی منعقد کی جس میں صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم راجہ یاسر ہمایوں اور وزیراعلیٰ کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے شرکت کی۔

اس تقریب میں اور اس سے قبل منعقد ہونے والے تقریری مقابلوں میں کووِڈ سے بچاؤ کی تدابیر پر کتنا عمل کیا گیا اس کے لیے انٹرنیٹ پر موجود تصویریں اور ویڈیوز دیکھی جاسکتی ہیں۔
جنابِ رسول مکرمﷺ وہ مبارک و محترم ہستی ہیں کہ جن کے نامِ نامی پر ہر مسلمان اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے اور یہی جذبہ ہمارے مسلمان ہونے کی ایک سند اور شہادت بھی فراہم کرتا ہے۔

فرانس میں جو کچھ ہوا اس پر ہماری حکومت کیا کچھ کرسکتی تھی اور اسلامی ممالک فرانس اور مغرب میں ایسی ہی گستاخیوں کو پروان چڑھانے والے دیگر ممالک کو کیسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ لیکن پاکستان سمیت زیادہ تر اسلامی ممالک کی حکومتیں بس زبانی جمع خرچ سے کام لیتی ہیں یا ایسے ہی اپنے معصوم عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کوئی نہ کوئی ظاہری کارروائی کردیتی ہیں تاکہ لوگوں کو ایسا محسوس ہو کہ ان کی حکومت واقعی عشقِ رسولﷺ میں مبتلا ہے۔


سر سید نے یکم رمضان 1292ھ کے 'تہذیب الاخلاق' میں لکھا تھا، "کوئی مسلمانی سلطنت اس وقت دنیا میں ایسی موجود نہیں ہے جس پر مہذب گورنمنٹ کا اطلاق ہو سکے، یا اس کا ملک اور اس کی رعایا ترقی یافتہ حالت میں ہو، یا وہاں کی رعایا کو اپنے تمام حقوقِ مالی و ذاتی حاصل ہوں، یا اپنے مال و ذات پر بالکلیہ امن رکھتی ہو، یا کمزور مستحق کو غیر مستحق زور آور کا اندیشہ نہ ہو۔

" اس اقتباس کو شائع ہوئے تقریباً ڈیڑھ صدی گزر چکی ہے اور مسلم ممالک اور ان کے عوام کی حالت اس اقتباس میں بیان کردہ صورتحال سے کتنی بہتر ہوئی ہے یہ ہر شخص جانتا ہی ہے۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عشقِ رسولﷺ کے دعوے کرنے والی مسلم ممالک کی حکومتیں جنابِ رسول مکرمﷺ کے امتیوں کو آج تک اگر عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دے سکیں تو پھر وہ اپنے اس دعوے کی صداقت کا ثبوت اور کیسے مہیا کرسکتی ہیں؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :