ادھوری آیت‎‎

بدھ 14 جولائی 2021

Ayesha Ahmad

عائشہ احمد

"اور جب ہم آدمی پر احسان کرتے ہیں تو پیٹھ موڑ لیتا ہے اور اینٹھ  جاتا ہے اور جب اسے برائی پہنچے تو ناامید ہوجاتا ہے۔" (١٧:٨٣)
اِس آیت کو پہلی دفعہ پڑھتے ہوئے میں نے باقی تمام لوگوں کی طرح سب سے پہلے خود کو جسٹیفائی ہی کیا تھا کہ میں تو بالکل ناشکری نہیں کرتی ہوں ہمیشہ شکر الحمد للہ کہتی ہوں۔ اور باقی کا دوسرا حصّہ یعنی رہ جانے والی باقی آیت پوری کی پوری اپنے اوپر لے لی یا یوں کہوں کہ سمجھ لی یا مان لی کہ ہاں مصیبت آنے پر پریشان ضرور ہو جاتی ہوں جس سے عام زبان میں anxious ہونا کہتے ہیں ۔


قرآن کو جب لیا جاتا ہے یا جب اس پر ایمان لایا جاتا ہے تو پورے کا پورا لایا جاتا ہے، آدھا ادھورا نہیں ۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ اگر یہ پہاڑ پر نازل ہوتا تو وہ اس کے بوجھ تلے ریزہ ریزہ ہو جاتا، یہ کیونکہ وہ اسے پورے کا پورا لیتا۔

(جاری ہے)

یہ بات قرآن کی ہر آیت پر ایک سی ہے کہ جب کوئی آیت سمجھو تو اُسے پورے کا پورا سمجھو۔ جب لگے کی کوئی آیت تم سے محو گفتگو ہے تو وہ پوری کی پوری تم سے کچھ کہہ رہی ہوگی۔

آدھا علم ہمیشہ غلط ہوتا ہے، ادھورا ہوتا ہے ۔اور قرآن کی کوئی بھی آیت نامکمل کلام نہیں کرتی۔
اس سے پہلے گزر جانے والی آیتوں میں سے میں نے ناجانے کتنی آیتیں آدھی ادھوری ہی سمجھی ہیں مگر اس آیت سے آگے میں بڑھ نہیں پائی ۔ ایسا نہیں تھا کہ میں بڑھنا نہیں چاہ رہی تھی (میری جلد بازی مجھے کم سمجھنے پر اُکسا رہی تھی)۔ مگر کمرے میں میرے چھوٹے بھائی کی موجودگی کی وجہ سے میں آیت پر غور نہیں کرپا رہی تھی۔

لفظ بار بار ذہن سے پھسل رہے تھے۔
اِس لیے اُسے ڈانٹ کر بھاگانے سے پہلے، چوتھی دفعہ پڑھنے پر مجھے احساس ہوا کہ میں بس زبردستی خود کو تسلی دے کر آگے بڑھنا چاہ رہی ہوں ۔اور یہ تحریر لکھتے وقت مجھے احساس ہوا کہ کبھی کبھی  hindrance/obstacle یعنی رکاوٹیں بھی کتنی ضروری ہوتی ہیں ۔ میرا بھائی کمرے میں شور نہ کر رہا ہوتا تو میں کب کی آگے بڑھ چکی ہوتی اور اللہ کے عطا کئے گئے علم سے غافل ہی رہتی۔


اِس آیت میں مجھے دو لفظ بڑے عجیب لگے تھے۔ ایک "اینٹھ جانا" اور دوسرا "پیٹھ موڑ لینا"، اور جو بات مجھے لکھنے پر مجبور کر گئی وہ یہ شعور آنا تھا کہ اینٹھ جانا اور پیٹھ موڑ لینے سے مراد صرف نعمت کو نعمت نہ سمجھنا نہیں ہے بلکہ نعمت کو بھول جانا بھی ہے۔ یا یوں کہیے کہ کسی نعمت کو مزید نعمت نہ سمجھنا بھی ہے۔اگر ہم ذرا غور کریں تو اس ہمیں اللّہ کا فضل نظر آئے گا کہ اس کی دی گئی کوئی بھی نعمت (چونکہ ہم دنیاوی چیزوں کو ہی نعمت سمجھتے ہیں اس لیے یہاں وہی مراد ہے) ہمیشہ کے لیے ہی ہوتی ہے جیسے کہ گاڑی، گھر، گھر میں لگا اے-سی یا پھر بڑا فریج۔

وہ ہم سے ناراض ہو کر یہ نعمتیں واپس لے لے تو لے لے ورنہ جب وہ دیتا ہے تو اپنا کرم ہی کرتا ہے۔ ایک بار ایک نعمت مل جانے کے بعد ہم اگلی نعمت کے لیے رونا شروع کردیتے ہیں اور حاصل ہوئی نعمت کو بھول جاتے ہیں ۔ یعنی اس سے "پیٹھ موڑ لیتے ہیں ۔ مجھے جب یہ آیت 'پوری' سمجھ آئی تو مجھے سمجھ آیا کہ یہ تو پوری کی پوری مجھ سے کچھ کہہ رہی ہے لیکن میں ہی کان لپیٹے بیٹھی تھی ۔


آیتوں کو پورا سمجھیں ۔ خود کو ہر الزام سے بَری نہ کریں ۔ ہم اتنے معصوم نہیں جتنا ہم خود کو سمجھ بیٹھے ہیں ۔ قرآن کی ہر آیت انسان کے لیے لکھی گئی ہے اور اسے یہی سوچ کر پڑھیں کہ ہر آیت میں اللہ کچھ کہہ رہا ہے ۔
آپ سے!
خاص کر آپ سے!
جی ہاں آپ سے!
اینٹھنا اور پیٹھ موڑنا چھوڑیں۔ وہ نوازتا ہے۔ وہ نواز دیگا۔ صبر رکھیں ہم انبیاء نہیں ہیں ۔

ہمارے اندر ان جیسی صفات نہیں ہیں ۔ہمیں معجزات سے نہیں نوازا گیا اور نہ ہی ہمارے سامنے معجزات ہوتے ہیں ۔ ہم عام انسان ہیں اور انسان کو ایک do's and dont's کی لسٹ کے ساتھ بھجا گیا ہے اور صبر و شکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ وہ اگر ہمارے سامنے اپنے کرامات و معجزات دیکھانے لگ جائے تو ہم اس 'انہونی' پر پریشان پریشان پھرینگے۔ وہ ہمیں ہم سے زیادہ جانتا ہے لیکن اس کی آیتیں بولتی ہیں ۔ انھیں سُنا کیجئے ۔ میرے
جیسی غلطی مت کیجئے ۔
پیٹھ موڑنا چھوڑئے۔ نعمت کے مل جانے پر ایک بار "شکر الحمدللہ" کہنا کافی نہیں ہوتا۔ نعمت کو نعمت سمجھتے رہنا چاہیے کیونکہ جو دینے پر قادر ہے وہ لینے پر بھی قادر ہے ۔
مصیبت میں بھی نعمتوں کو یاد رکھیں گے تو ہی خدا کو راضی کر پائیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :