مینٹل اسٹریس(ذہنی دباؤ)

جمعرات 2 جولائی 2020

Ayesha Ahmed

عائشہ احمد

الذین امنوا وتطمئن قلو بھم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب
تر جمہ: وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔
اس دنیا کا ہر انسان خواہ وہ کسی حال اور کسی شغل میں ذندگی گزار رہا ہو وہ روزانہ اپنے نفس اور اپنی جان کا سودا کرتا ہے، پھر یا تو وہ اس کو نجات دلانے والا ہے یا ہلاک کرنے والا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ انسان کی ذندگی ایک مسلسل تجارت اور سوداگری ہے اگر وہ اللہ کی بندگی اور رضا طلبی والی ذندگی گزار رہا ہے تو اپنی ذات کے لئے بڑی اچھی کمائی کر رہا ہے اور اس کی نجات کا سامان فراہم کر رہا ہے اور اس کے بر عکس وہ نفس پرستی اور خدافراموشی کی ذندگی گزار رہا ہے تو وہ اپنی تباہی اور بربادی کما رہا ہے اور اپنی دوزخ بنا رہا ہے۔

(جاری ہے)


آجکل پوری دنیاایک ایسی وبا کی لپیٹ میں ہے جو نہ تو نظر آتی ہے اور نہ ہی ابھی تک اس کا کوئی علاج سامنے آیا ہے احتیاط صرف لوگوں سیدوری اور تنہائی کو قرار دیا گیا ہے۔

بہت سے لوگ اس بیماری سے تو متاثر نہیں ہو رہے لیکن کیونکہ انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اور کام کرنے کی اتنی عادت ہو گئی ہے کہ یہ تنہائی اسے ایک نئی بیماری کی طرف دھکیل رہی ہے جسے ”ذہنی دباؤ“ یعنی ”مینٹل اسٹریس“کا نام دیا گیا ہے۔ ذہنی دباؤاس وقت اور زیادہ بڑھ جاتا ہے جب مختلف قسم کی منفی سوچیں آپکے دماغ میں گردش کرنے لگتی ہیں۔

دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں بہت سے لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں لوگ بہت سی ایسی مشکلات کا شکار ہیں جووہ لوگوں کے سامنے بیان بھی نہیں کر سکتے کیونکہ سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ کچھ لوگ مستقل گھروں میں بند ہیں لوگوں سے دورہ ہیں جس کی وجہ سے تنہائی بری طرح ان کے دماغ پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ کچھ لوگ اپنے دوستوں سے دور ہونے کے باعث پریشان ہیں۔

اللہ تعالی نے انسان کو انسان کاساتھی بنایا ہے چاہے وہ کسی بھی روپ میں ہو لیکن اگر ذندگی کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو جب اللہ بندے کو اپنے قریب لانا چاہتا ہے تو وہ اپنے قرب کے لئے اسے دنیاوی رنگ و تعلقات سے دور کر دیتا ہے۔
دیکھا جائے بظاہر تو یہ دوری ہوتی ہے لیکن اس میں ایک بہت بڑا راز اور بہت بڑی طاقت چھپی ہوئی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ نے خود فرما دیا کہ اطمینان صرف اسی کے ذکر میں ہے۔

بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی مرضی کیبغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ منفی سوچیں تب ہی ہمارے ذہین پر سوار ہوتی ہیں جب اس بات پر ہمارا یقین مضبوط نہ ہو۔ اللہ سے لو لگانے اور اس کے محبوب کیدربار میں اپنیمعاملات کو پیش کرنیکے بعد ہر طرح کے ذہنی دباؤ سے نکلا جا سکتا ہے کیونکہ وہی دربار ہے جہاں درباریوں کی فریادوں کو سنا جاتا ہے ان کو سلجھایا جاتا ہے۔

دنیاوی ذندگی اور اس کی ضروریات وقتی ہیں جن کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہم ذہنی دباؤکا شکار رہتے ہیں خود ہی اپنی ذندگی کو مشکل میں مبتلا کرتے ہیں۔ بالفرض ہم کسی پکنک پر جاتے ہیں تو اتنا ہی سامان لے کر جاتے ہیں جتنی ضرورت ہوتی ہے گھر کا سارا سامان نہیں لے کر جاتے یہی حساب دنیا کا بھی ہے اگر ہم اسے پکنک پوائنٹ سے تشبیہہ دیں تو غلط نہ ہو گا جتنے سامان کی ضرورت ہے اتنا ہی رکھیں گے تو سکون حاصل کریں گے اگر پورے گھر کا سامان لے کر چلنے کی کوشش کریں گے تو مشکلات کا شکار رہیں گے۔

اللہ سے لو لگائیں گے تو پر سکون ذندگی گزاریں گے اس سیدور ہو کر دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو جائیں گے تو ہمیشہ ذہنی دباؤ اور زیادہ سے زیادہ کی چاہ میں رہیں گے۔
اللہ تعالی کے حضور حاضر ہوں اس سے لو لگائیں تاکہ ہم وہ سوداگر اور تاجرکہلائے جائیں جو کہ جنت کی تجارت کرتا ہو ناکہ اپنے نفس اور جان پر ظلم کر کے دوزخ کی آگ کمائیں یہی ذہنی دباؤ سے نجات کا طریقہ ہے بقول شاعر:
حسن کردار سے نور مجسم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہو جائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :