موازنہ

جمعہ 26 مارچ 2021

Aymen Laraib Shahid

ایمن لاریب شاہد

ہندو معاشرے اور مسلم معاشرے میں شاید ہی ایک دو چیزیں الگ ہو باقی سب چیزیں یکساں ہیں۔یہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ اونچی ذات اور مراعات یافتہ طبقے کے لوگ اپنے اسٹیٹس کیو کو برقرار رکھنے کے لیے معاشرے میں روایات،تہذیب اور مذہب کے نام پر درجہ بندیاں کرتے ہیں۔جسکا مقصد لوگوں سے یونیٹی کا خاتمہ اور اپنی موجودہ حالات اور مراعات کو قائم و دائم رکھنا ہوتا ہے۔

ہندوؤیزم اور اسلامیزم میں ساری چیزیں یکساں ہیں،ہندوؤں میں بگوان کی مورتیاں بنا کر خالق سمجھا جاتا ہے تو مسلمان میں غیبی خدا کو خالق سمجھا جاتا ہے،ہندوؤں میں عبادات مندورں میں پوجا کی صورت میں کیا جاتا ہے تو مسلمان مسجدوں میں سر خم کر کے سجدوں کی شکل میں ادا کرتے ہیں،ہندوؤیزم کی تعلیمات بھی انسانیت اور دیگر مخلوق سے ہمدردی اور محبت کی تعلیم دیتی ہے تو مسلمانوں میں بھی مذہب انہی چیزوں کی تعلیمات دیتی ہے۔

(جاری ہے)

اکثر جس چیز میں ہم الجھن کا شکار ہوتے ہیں وہ معاشرتی طبقات اور ناانصافیوں کو بھی مذہب کے سر پر ڈال دیتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب کسی ایک انسان کو دوسرے پر فوقیت نہیں دیتا،ایک انسان کو دوسرے پر حکومت کرنے کا حق نہیں دیتا۔بلکہ یہ معاشرتی روایات جو انسان کی تخلیق کردہ ہیں ان کی مرہون منت ہوتی ہے کہ ایک انسان دوسرے سے برتر ہے۔

یہ روایات ہمارے معاشروں میں اس قدر اپنی جڑیں مظبوط کر چکی ہیں کہ اس کا انخلاء اپ ممکن نہیں۔انسان اپنی ذات اور حالت برتری کو نسل در نسل قائم رکھنے کے انہی روایات کی دال بیل رکھ دیتا ہے جس سے معاشرے میں کئی طبقات نچلی لیول کی ذندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں،اور غلامی ان کا مقدر بن چکی ہے۔
اگر ہندؤ معاشرے کا مطالعہ کیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے اس معاشرے کے اونچی ذات اور مراعات یافتہ گروہ نے ایسے معاشرتی روایات جنم دیں ہیں جو انکی مراعات یافتہ ذندگی کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں،اور معاشرے میں مختلف طبقات کو جنم دے چکی ہیں اور دے رہی ہیں۔

اس کے علاوہ انہی لوگوں نے مذہب کو بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اور جیسے چاہا مذہب کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔مذہبی تعلیمات کو اتنا پیچدہ اور محدود کیا کہ جو نچلے طبقات تھے روز بہ روز نئے ہنر،مراعات اور بہتر ذندگی گزارنے سے محروم ہوگئے۔آپ کو علم ہوگا کہ ہندؤ معاشرے میں چار طبقات ہوتے ہیں برہمن،کشتری،شودر اور اچھوت۔ان طبقات میں سے ذیادہ قابل غور اور توجہ طلب سب سے نچلا طبقہ ہے اچھوت کا۔

دیگر طبقات اچھوت کو نجس یعنی اپنے پچھلے گناہوں کا سبب سمجھتےہیں۔اگر دیگر طبقات میں سے کسی نے یا اچھوت میں سے کسی بندے نے کسی چیز کو  چھو لیا تو بھی نجس ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی اچھوت کسی جگہ ہجرت کرتا ہے تو اعلانات کے زریعے لوگوں کو دور ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔ایسے معاشروں میں ان کے کام بھی مخصوص ہوتے ہیں جن میں اگر کوئی مرتا ہے تو مردہ جسم کو اٹھا کے لیے جانا اور جلانا،اگر کسی کو سزا دینی ہوتو انکے ذریعے مجرم کو سزا دینا،اگر کوئی جانور مرتا ہے تو اسکے مردہ جسم کو لے جا کر دفنانا،گندگی کو صاف کرنا اور دیگر محنت مزدوری کے کام وغیرہ۔

اب یہ ساری چیزیں اس طبقے کا مقدر بن چکی ہے،اور قانون ،مذہب اور دیگر روایات اور رسوم کے ذریعے انہیں اتنا مغلوب کیا گیا ہے کہ اپنی حالت ذندگی اور قسمت کو مقدر سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں مسلم معاشرے میں!!مسلم معاشروں میں جو طبقات وجود میں آۓ ہیں وہ مذہبی ہیں۔مذہب کے نام پر اتنے طبقات وجود میں آۓ ہیں کہ اصل اسلام کا وجود شاید ہی کہی ملتا ہو؟جس طرح ہندؤ معاشرے میں مذہب کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا گیا ویسے ہی مسلمانوں میں بھی مختلف گروہوں نے مذہب کی تعلیمات کو مسخ یا اونچ نیچ کر کے اپنے مفادات میں استعمال کیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ اسلام بھی گرہوں اور حصوں میں بٹتا چلا گیا۔اس وقت دنیا میں اسلام کے نام پر 72 فرقے وجود میں آگئے ہیں۔۔جیسے کہ اہلیسنت،شعیہ،دیوی بندی،احمدی،مہدوی وغیرہ۔جن کا رہنا سہنا،تہذیب و تمدن،قوانین اور ذندگی گزارنے کے طریقے اسلامی تو ہیں لیکن براۓ نام ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ انہی گروہوں میں اسلام کے نام پر اتنے متصادم ہوۓ کہ اپنے ایک دوسرے کو اسلام سے نکالنے یعنی "کافر" قرار دینے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔

دوسری چیز ان معاشرے میں انسان کی بنائی گئی روایات اور رسومات کو بھی اسلام میں شامل کیا گیا۔۔۔
اگر آج کے مسلم معاشرے اور ہندؤ معاشرے پر غور کیا جاۓ تو ایک چیز مشترکہ ہے۔۔!بلکہ مسلم معاشرے میں کچھ ذیادہ ہی ہے وہ یہ کہ ہندؤ معاشرے میں صرف ایک طبقے کو نجس سمجھا جاتا ہے لیکن مسلم معاشروں میں ایک فرقہ دیگر تمام فرقے کے لوگوں کو نجس سمجھتے ہیں۔

اگر کوئی شیعہ کسی چیز کو چھو لیتا ہے یا کھاتا ہے تو وہ دیگر فرقوں کے نزدیک نجس اور ناپاک ہو جاتی ہے۔یہی بات دیگر فرقوں میں بھی ہے اگر کوئی اہلیسنت کسی دیوی بندی کو گلاس میں پانی پیتا دیکھتا ہے تو وہ اسے کافر قرار دیکر نجس قرار دیتا ہے۔یہ صرف ایک دو فرقوں میں نہیں بلکہ اسلام کے نام پر بننے والے 72 فرقوں میں یکساں ہے۔لیکن کچھ روشن خیال لوگوں کی چند تعداد ہر فرقے میں موجود ہے جو ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرتے۔

اسکے علاوہ ایک فرقے کی بنائی ہوئی چیزیں دیگر فرقے کے لوگوں کے لیے ناپاک ہوجاتی ہے۔یہاں تک ایک دوسرے کے مساجد میں جاکر نماذ اور دیگر عبادات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔اب یہی روایات اور رسومات معاشرے میں اس قدر اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگئ ہیں کہ اس کا انخلاء اب ممکن نہیں بلکہ آے روز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔
اگر حقیقت پسندی اور غیر جانبداری سے غور کیا جاۓ تو اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ ایک خاص طبقہ جو اپنی مراعات یافتہ اسٹیٹس کیو کو برقرار رکھنے کے لیے معاشرے میں نئے روایات پیدا کرتا ہے اور مذہب کو اپنے لیے استعمال کرتا ہے،یعنی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اپنے اسٹیٹس کیو کو برقرار رکھنے کے لیے مذہب اور دیگر معاشرتی روایات ایک زرائع ہے۔

جس کی وجہ سے نچلے طبقے کے لوگوں سے یہ حق چھین لیا جاتا ہے کہ وہ بھی آگئے بڑھیں اور ایک معیاری ذندگی گزریں۔
ہر کسی کو یہ حق لاحاصل ہے کہ وہ بھی بہترین ذندگی گزارے،ایک آزاد ماحول میں اپنی ذندگی گزاریں جہاں نہ روایات اور مذہب کے نام پر پابندیاں ہو۔کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے انسانیت کی تزلیل کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :