سانحہ پشاور سولہ دسمبر کا انتخاب کیوں؟

جمعرات 18 دسمبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

سولہ دسمبر اکہتر سقوط ڈھاکہ، آج43سال بعدسولہ دسمبر 2014کو پشاور کو خون سے نہلایا دیا گیا ایسا المیہ ،ایسا سانحہ جس میں بچوں کی بڑی تعداد شہید ہوگئی، کیا اس دن یہ واقعہ کا ہونا اتفاق ہے؟دہشت گردی کے خلاف برسوں سے جاری جنگ جس میں سب سے زیادہ پختونوں نے نقصان اٹھایا اس جنگ کی اصل قیمت پختون قوم نے برداشت کی،جتنے زخم اس قوم نے اٹھائے خطے کی دیگر اقوام اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے،اور یہ زخم تو ایسا ہے کہ الفاظ میں بیان نہیں ہورہا کہ کیا لکھوں،پوری رات معصوم بچوں کی تصاویر اور لاشوں نے سونے نہیں دیا،پھولوں کا شہر پشاور بموں کا شہر بن چکا ہے، ہر وقت دھماکوں نے قوم کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔

آہا یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سایہ ترین دن اور بدترین واقعہ جسے شائد بھولنے میں کئی سال لگ جائیں مگر سوال کہ اس جنگ کا خاتمہ کب ہوگا؟ اور شدت سے سامنے آگیا ہے، اگر چہ وزیراعظم سمیت تمام رہنماوں نے اس واقعے کی مذمت کی اور اجلاس بھی بدھ کو ہوا مگر پاکستانی قوم کا سوال ایک ہے کہ کب تک؟
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع سکول پر طالبان شدت پسندوں کے حملے میں بچوں سمیت 141 افراد شہید ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

جن میں126 معصوم بچے ہیں۔ واقعہ منگل کی صبح ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول میں پیش آیا جب سات مسلح دہشت گردوں نے سکول کی عمارت میں داخل ہو کر فائرنگ کی۔منگل کی رات ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے پشاور میں فوج کے زیرانتظام چلنے والے آرمی پبلک سکول میں منگل کی صبح شدت پسندوں کے حملے اور اس کے بعد سکیورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی ار کے مطابق دہشت گردوں کے حملے میں 132 بچے اور سکول کے سٹاف کے نو ممبران شہیدہوئے جبکہ 121 افراد زخمی ہوئے ہیں جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور سی ایم ایچ پشاور میں زیر علاج ہیں۔فوج کے ترجمان کے مطابق سکول میں سٹاف سمیت تقریباً 1100 بچے رجسٹرڈ تھے جن میں سے 960 کو ریسکیو کیا گیا ہے اور آپریشن مکمل ہو گیا ہے ۔آرمی پبلک سکول پشاور کا نقشہ دکھاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ سکول کے کل چار بلاکس ہیں جن میں ایک آڈیٹوریم، ایک انتظامی بلاک، جبکہ دو تدریسی بلاکس ہیں۔

دہشت گرد سکول میں پیچھے سے داخل ہوئے ، سیڑھی کے ساتھ، اور سیدھے آڈیٹوریم میں آئے ، آڈیٹوریم میں بچوں کا اجتماع تھا، اور کچھ کاامتحان اور لیکچر تھا، جب انھوں نے فائرنگ کی تو بچے یہاں سے بھاگے ، باہر نکلنے کے دو دروازے تھے ، انھوں نے بچوں کو اجتماع میں مارا، بعد میں جب ہمارے لوگ ریسکیو کرنے گئے تو انھوں نے بتایا کہ بچے خون میں بھیگے گراؤنڈ میں ایک دوسرے کے اوپر پڑے ہوئے تھے،فوج کے ترجمان نے پریس بریفنگ کے اختتام پر کہا کہ دہشت گرد اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں جنھوں نے انھیں ملک میں کہیں بھی جگہ دے رکھی ہے ان کے پیچھے جایا جائے گا۔

اس قومی سانحے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے ۔تنظیم مرکزی ترجمان محمد عمر خراسانی نے کہا کہ ہمارے چھ حملہ آور سکول میں داخل ہوئے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے جواب میں ہے ۔انہوں نے اعتراف کیا کہ ضربِ عضب اور خیبر ون میں جاری فوجی آپریشنز میں 500 طالبان مارے گئے ہیں۔


ملک میں بلیک واٹر سمیت کئی ممالک کے ادارے سرگرم ہیں، استعماری عزائم رکھنے والی قوتیں پاکستان کو تباہی کے گھڑے میں دھکیلنے کے لئے ہر قسم کی سازشوں میں مصروف ہیں، ان کا مقابلہ اندرونی وبیرونی یکسوئی کیساتھ ہی ممکن ہے ۔ اس سازش کو نکام بنانے کیلئے تمام شعبوں کے افراد ، وعلماء کو اعتماد میں لینا ہوگا،پاکستان افغانستان،شام ،مصر،کشمیر میں جاری دہشت گردی،انتقام، فرقہ واریت ،لسانیات ہے یا کچھ اور ؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری پالیسی؟کسی کو یہ پرواہ نہیں کہ پاکستان کے حق میں کیا بہتر ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کو آج جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے یہ سب امریکہ کی پیداوار ہیں۔ اگر امریکہ نامی بلا ہمیں نہ چمٹی ہوتی تو آج پاکستان جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقت ہوتا۔ ہمارے حکمرانوں کوملکی وسائل بروئے کار لاکر ملک کی ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کا موقع ہی نہ دیا گیا ،اب جبکہ بہت کچھ برباد ہوگیا ہے تو پاکستانیوں میں یہ احساس فزوں تر ہوتا جارہا ہے کہ اگر ہم نے خود کو امریکی چنگل سے آزاد نہ کرایا تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ تباہی و بربادی کی اس فضا میں جو آواز شہباز شریف کی طرف سے بلند ہوئی ہے ‘ اس پر لبیک کہنا پاکستان کے ہر ادارے کا قومی فرض ہے۔ اس فرض سے اغماض برتا گیا تو پھر حکومت ‘ عوام ‘ افواج پاکستان ‘ عدلیہ اور میڈیا یہ سمجھ لیں کہ امریکہ ہمیں پوری طرح تباہ کرکے دم لے گا۔ پشاور کا قومی سانحہ صرف تین روز سوگ پر نہیں بھولایا جاسکتا ہے،فیصلے کرنے کا وقت ہے ،پوری قوم اس سانحے پر غم زدہ ہیں اور پشاور کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہی ہے جو اچھا ہے مگر سوال ایک ہی ہے کب تک؟صرف جنگ ہی مسائل کا حل ہے یا اس پراکسی وار کے خاتمے کے لئے خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی لانا ہوگئی کیونکہ ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ کئی گروپوں کو افغانستان و انڈیا سے چلایا جارہا ہے اور ان کی فنڈنگ ہورہی ہے اس لئے طویل مدتی فیصلے کرنے ہونگے صرف جنگ ہی مسئلے کا حل نہیں،یہ چومکھی جنگ ہے اس لئے ایک ہونا اورسب کو اعتماد میں لینا ہوگا ورنہ یہ قومی سانحہ بھی یہ شہادتیں ہم سے یہ سوال کرتی رہیں گیں کہ ہم تو قربان ہوگئے ملک پر تم کیا کرتے رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :