
جرائم میں اضافہ، اور سد باب؟
منگل 29 اپریل 2014
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 2300 ملیشیا نجی طور پر کام کر رہی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 256 کی خلاف ورزی دھڑلے سے کررہی ہیں لہٰذا ان کا وجود ہی غیرقانونی ہے لیکن کوئی انہیں پوچھنے ولا نہیں ویسے بھی اگر شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار حکومت ہے تو پھر نجی ملائشیا یا پرائیویٹ سیکورٹی کے اداروں کی ضرورت ہی کیا ہے؟
کوئی بھی ملک یا معاشرہ اس وقت تک ترقی اور امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا جب تک اس معاشرے کے افراد قانون کی حکمرانی کو تسلیم نہ کریں اور قانون کی حکمرانی کے لئے ضروری ہے کہ ریاست سب سے پہلے اس پر عمل کرے کیونکہ شہری ریاستی اہلکاروں کی قانون شکنی کے بعد خود بھی یہی عمل دہرانے لگتے ہیں یو ں معاشرہ بے امن ہو جاتا ہے۔
پاکستان بھر میں غیر قانونی اسلحے کے انبار ہیں اور جن ہاتھوں میں یہ اسلحہ ہے ان کے عزائم بھی کسی سے چپھے نہیں حکومت کو چاہے کہ وہ اگر ملک میں امن قائم اور جرائم پر قابو پانا چاہتی ہے تو اسے فوری طورپر ہتھیاروں کو واپس لینے کے لئے ایک کمیشن قائم کرنا چاہیے جو تمام آتشیں اسلحہ کے لائسنس منسوخ کردے اور انھیں باضابطہ بائیو میٹرکس کے ساتھ دوبارہ جاری کرے، اسی طرح پی ٹی اے کو چاہیئے کہ وہ فون سمز اور آئی ایم ای آئیز کو رجسٹر کرنے کی یقین دہانی کرائے جو اس کے لئے ممکن ہے بشرطیکہ وہ غنڈہ گردی کی طاقتوں کے دباو میں نہ آئے اور تجارتی مفادات کو پیش نظر نہ رکھے۔ جس طرح گاڑیوں کی رجسٹریشن کے معاملے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے جو ایک اچھا اقدام ہے ایسے ہی اسلحہ اور فون سمز کے معاملے میں بھی حکومت کو فوری اقدامات اٹھانے ہونگے۔
اس کے ساتھ ہی حکومت کو چاہیے کہ وہ پولیس کی اصلاح کرنے کے لئے پہلے مرحلے پر اسے غیر سیاسی کرئے اور ان کی ذہنی تطہیر کی جائے انہیں انسانی حقوق کی تعلیم دینے کے ساتھ پو لیس کو تمام شہریوں کی پولیس بنایا جائے، نہ کہ وہ چند گرہووں ،افراد یا صرف حکومت کے مفادات کی نگران ہو۔
افلاس، ناخواندگی اور بیروزگاری یقیناً اسکی وجہ سے بیچینی پیدا ہوتی ہے لیکن جرائم کی اصلی وجہ پولیس سسٹم کی ناکامی ہے جو مجرموں کو کھلی چھوٹ دیتا ہے یہ پولیس کے لئے ایک چیلنج ہے کہ وہ اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرَے ۔سنگین ترین جرائم دولتمند اور طاقتور افراد پولیس کے تعاون سے کرتے ہیں۔ مجرم سر سے پیر تک مسلح ہوتے ہیں جبکہ سول سوسائٹی کے متاثرہ حصوں کی جانب سے اس کی مزاحمت اسے ایک غیر مساوی جنگ میں تبدیل کردیتی ہے۔ پولیس کے جوان موٹر سائیکلوں پر اب تو گلی محلوں میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں ،راہ چلتے افراد کی جیبیں کھول کھول کر چیک کرتے ہیں ناکوں پر بھی ایسا ہی عمل دھرایا جا تا ہے جبکہ جرائم پیشہ عناصر ان کی پہنچ سے باہر ہیں اب تو وہ بھی گلی محلے کی راہ چلتی خواتین سے بھی لوٹ مار کرتے پائے جارہے ہیں لیکن گلی محلوں میں گھومنے والی پولیس کو نظر نہیں آتے ،کیوِں؟ اس سوال کا جواب پولیس کے سربراہ کو ڈھونڈنا چاہے کہ مراعات یافتہ پولیس شہریوں کو بے یار و مددگار کیوں چھوڑ چکی ہے ،حکومت کو بھی اس بات کا نوٹس لینا چاہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.