
پولیو،نئی ویکسین اور ہداف
بدھ 28 اکتوبر 2015
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
ان نو بیماریوں میں پولیو بھی شامل ہے یہ بیماری انسان کی بے بسی سے شروع ہو کر زندگی بھر اس کی بے بسی میں اضافے کا سبب بننے کے ساتھ انسانی شرف کو بھی کھا جاتی ہے۔ دنیا نے اس بیماری پر نہ صرف قابو پالیا ہے بلکہ اس طرح کی کوئی اور بیماری پیدا نہ ہو پر ریسرچ کر رہے ہیں انسانی زندگی صرف ایک بار ملتی ہے جس کا احترام ان معاشروں میں اسقدر پایا جاتا ہے کہ انسان کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس کی ہر بات کا خیال رکھا جاتا ہے اور اس انسان کو اچھی تعلیم اور صحت مہیا کرنے پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا۔
ابھی حال ہی پولیو کی درجہ بندی کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے نائجیریا کو پولیو سے متاثرہ ممالک کی فہرست سے باہر نکال دیا ہے۔ اسے ایک ’تاریخی کامیابی‘ قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ ایک برس پہلے اسے اس ملک میں ریکارڈ کیسز سامنے آئے تھے۔اس بات کا اعلان امریکی شہر نیویارک میں دنیا بھر میں پولیو کے خاتمے کے سلسلے میں منعقد کیے جانے والے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ پولیو سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں اب صرف دو ممالک باقی بچے ہیں۔ ان میں سے ایک پاکستان ہے اور دوسرا افغانستان۔ براعظم افریقہ میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک نائجیریا کے بارے میں ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا، ”ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ نائجیریا میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ ملک اور خطہ اپنی منزل سے اس قدر قریب آ گیا ہے کہ یہ پولیو فری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی ملک میں ایک برس تک پولیو کا کوئی بھی کیس منظر عام پر نہ آئے تو اسے پولیو سے متاثرہ ممالک کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے جبکہ پولیو فری ملک کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لیے تین سال تک کوئی پولیو کیس سامنے نہیں آنا چاہیے۔
انسان کو معذور بنا دینے والے اس وائرس کی وجہ سے سب سے زیادہ پانچ برس سے کم عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت دنیا بھر سے اس مہلک وائرس کے خاتمے کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے لیکن ابھی بھی دنیا میں ایسے علاقے موجود ہیں، جہاں تک رسائی ممکن نہیں۔ رواں برس دنیا بھر میں پولیو کے اکتالیس کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں اور ان میں سے اڑتیس پاکستان میں سامنے آئے ہیں جبکہ باقی افغانستان میں۔
نائجیریا کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کو حملوں کا سامنا رہتا ہے جبکہ دور دراز کے علاقوں میں ایسی افواہیں بھی موجود ہیں کہ پولیو کے قطرے پینے سے بانجھ پن پیدا ہو جاتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں علماء کی مدد بھی حاصل کی جا رہی ہے تاکہ لوگ پولیو کے قطرے پلانے کی مخالفت نہ کریں۔
اسے عالمی دباو کہا جائے یا ہمارے حکمرانوں کی” رحم دلی“ کہ اس وقت حکومت اس بیماری کو ختم کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہے جس کے لئے مختلف طریقہ ہائے کار اختیار اور استعمال کئے جارے ہیں۔ پولیو کے تدارک کے لیے ملک گیر مہم میں پہلی بار ویکسین کو قطروں کے بجائے ٹیکے کی صورت میں بچوں کے جسم میں منتقل کیا جا رہا ہے۔پولیو کے خاتمے کے لیے ویکسین جسے انجیکٹیبل پولیو ویکسین یعنی آئی پی وی کہا جاتا ہے کو متعارف کروایا گیا۔بتایا گیا ہے کہ یہ ویکسین ملک کے 40 لاکھ سے زائد بچوں کو لگائی جائے گی۔
پاکستان دنیا کے ان تین ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو اب تک پولیو سے محفوظ قرار نہیں دیے جا سکے۔ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس اگست تک پاکستان میں پولیو کے 115 کیسز رجسٹرڈ ہو چکے تھے تاہم اس کے مقابلے میں رواں سال اب تک فقط 38 کیسز سامنے آئے ہیں۔وزیرِ مملکت برائے صحت سائرہ افضل تاڑر کاکہنا ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ سنہ 2016 تک پاکستان سے پولیو وائرس کامکمل خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ انجیکشن کی صورت میں دی جانے والی اس ویکسین کی قیمت بھی زیادہ ہے اور اس لگانے کے لیے ایک تربیت یافتہ نرس کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم قطروں کے برعکس اس ویکسین کا یہ فائدہ ہے کہ پولیو وائرس کے حلاف مدافعت کے لیے اس کی ایک خوراک ہی کافی ہوتی ہے۔
اس ضمن میں پنجاب حکومت نے دیگر صوبوں سے بازی لیتے ہوئے پولیو کے خاتمے کی غرض سے آئندہ سال اپریل سے پولیو کی نئی ویکسین بی او وی پی متعارف کرانے کا فیصلہ کر لیا، صوبہ میں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام آئی پی وی کے تحت روٹین ایمونائزیشن کی شرح صرف ایک سال کے دوران 50 فیصد سے بڑھ کر 70 فیصد سے زائد ہوگئی، حکومت پنجاب نے بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام میں پہلی مرتبہ پولیو ویکسین کا انجکشن شامل کر کے پورے ملک میں سبقت حاصل کر لی، رواں سال اب تک پورے ملک میں رپورٹ ہونے والے 38 پولیو کیس میں سے ایک کا تعلق پنجاب سے ہے۔
حکومتی کوششوں سے محسوس تو یہ ہورہا ہے کہ وہ اس بیماری کے خاتمے کا عزم کئے ہوئے ہے جس کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جارہا ہے لیکن یہاں ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت زار کا مشاہدہ نیک دل اور انسان دوست افسران سے کرائے تا کہ حقیقت حال کا علم ہو سکے کہ عوام کی صحت اور تعلیم کی کیا صورت حال ہے؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.