
پاکستان میں خواتین پر تشدد کا عالمی دن
اتوار 29 نومبر 2015
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
اس کے ساتھ انسانی اذہان کو بدلنے والی جدید تعلیم کونصاب کا حصہ بنائے بغیر کسی بھی اچھے خواب کو تعبیر نہیں مل سکتی اور نہ ہی بینر آویزاں کرنے سے خاطر خواہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں خواتیں اور بچے اس معاشرے کا آسان شکار ہیں جنہیں جب جہاں چاہا ظلم و زیادتی کا شکار بنا ڈالا، فروخت کردیا ،مذموم خواہش پوری نہ ہوئی تو تیزاب پھینک کر انسانی شرف کی مٹی پلید کر دی اور نہ ان رپورٹوں کی اشاعت کوروکاجا سکتا ہے جن میں خواتیں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کے حقائق پیش کر کے حکومت کو زچ کیا جاتا ہے۔
پچیس نومبر خواتین پر تشدد کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی دن منایا جا تا ہے۔ پاکستانی سول سوسائٹی کی جانب سے اس برس بھی موٴثر قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔25 نومبر سے اگلے 16 روز تک اس دن کو منانے کا مقصد، عورتوں پر ہر طرح کے تشدد کے خاتمے اور صنفی بنیادوں پر نشانہ بنائی جانے والی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور اْنہیں اْن کے حقوق دلانے کی کوششوں میں تیزی لانے پر زور دینا ہے۔پاکستان میں صورتحال کو دیکھا جائے تو سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار اس جانب واضح اشارہ کرتے ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
پارلیمنٹ میں وزارت قانون اور انسانی حقوق کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ، پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات کی صرف ایک جھلک پیش کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2009 ء تا 2014ء یعنی صرف پانچ سال کے عرصے میں خواتین سے صرف زیادتی کے ہی 14,583 کیسز درج ہوئے ( پولیس اور معاشرے میں بدنامی کے خوف سے جو درج نہیں ہوتے ان کی تعداد بھی کم نہیں ) ۔ دوسری جانب خواتین سے متعلق مسائل پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم، عورت فاوٴنڈیشن کے مطابق اصل واقعات کی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔عورت فاوٴنڈیشن کی جانب سے اخبارات اور میڈیا پر آنے والی خبروں پر مبنی جو رپورٹ مرتب کی گئی ہے، اس کے مطابق 2014 ء کے دوران صرف صوبہ پنجاب میں, جہاں خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے، خواتین پر تشدد کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد سات ہزار سے زائد ہے۔
عورت فائنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر مہناز رحمان کے مطابق 2014 ء میں خواتین کو اغوا کرنے کے ایک ہزار سات سو سات کیسز جبکہ ریپ اور گینگ ریپ کے ایک ہزار چار سو آٹھ کیسز رپورٹ ہوئے، ”صرف یہ ہی نہیں بلکہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں عزت کے نام پر قتل کے سب سے زیادہ کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں جن کی تعداد 340 ہے۔ جبکہ پاکستان میں ہر روز چھ خواتین کو اغوا اور چھ کو قتل، چار خواتین کے ساتھ زیادتی اور خواتین کی خود کشی کے واقعات اکثر سامنے آتے ہیں۔“
مہناز رحمان کے مطابق سندھ کی بات کی جائے تو یہاں عزت کے نام پر قتل یعنی کاروکاری کے واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں، ”2014 ء میں سندھ میں عزت کے نام پر258 قتل کیے گئے۔ ان میں خواتین کی تعداد 197 رہی جبکہ 2015 ء کے ابتدائی مہینوں میں 25 خواتین کو قتل کیا گیا۔“
پاکستان میں سول سوسائٹی اور تحفظ نسواں کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کی جانب سے خواتین پر تشدد کے روک تھام کے لیے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کوشش میں قانون ساز ادارے بھی شامل ہوتے ہیں جو ان کے ساتھ مل کر قانون تو بنا لیتے ہیں، تاہم ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔
مہناز رحمان کے مطابق اس کی وجہ حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے، ”خواتین پر تشدد کے خلاف قانون تو بہت بنائے گئے ہیں، لیکن اس قانون پر عمل درآمد کا مرحلہ نہیں آتا۔ اس لیے کہ اسمبلی میں پاس ہونے کے بعد جو لازمی شرائط ہیں جن پر حکومت کو عمل کرنا چاہئے، حکومتیں ان کو پورا نہیں کرتی۔ مثلاً گھریلو تشدد کے خلاف بل سب سے پہلے سندھ میں بنا لیکن آج تک اس کے business of rulesنہیں بنے۔ ان کے تحت جو کمیٹیاں بننا تھیں وہ نہیں بنیں۔ یہ سب حکومتوں کی اور ان کے قانون ساز ادارے کی ذمہ داری ہے جسے پورا نہیں کیا جاتا۔“
حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے تحفظ کے لیے صرف حکومت ہی نہیں بلکہ معاشرے پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جسے ادا کرنے سے معاشرہ بھی اسی طرح قاصر ہے جس طرح حکومت۔ خواتین کے ساتھ ہوئے ظلم و جبر کے مندرجہ بالا اعداد و شمار پڑھنے سننے اور میڈیا میں آنے کے بعد لگتا نہیں کہ ہم کوئی مہذب اور اسلامی معاشرہ ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.