فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت

اتوار 15 نومبر 2020

Faheem Zia

فہیم ضیاء

قول وفعل میں تضادکئی    زمانوں سے بند پڑے رسوائی کے کواڑ کھول دیتا ہے ۔ بلاشبہ انسان توقیر سے محروم ہو جاتا ہے اگر  اپنے کہی   ہوئی بات سے پھر جائے  ۔کسی گروہ کا رہنماہونا لاکھ باعث عزت سہی لیکن     ،ہنما بننے کے لیے  چند اوصاف حمیدہ کی بھی ضرروت  ہوتی تھی ،  اگر کوئی  شخص فہم و فراست ، دور اندیشی ، خود داری ، اخلاص ، سے عاری ہے تو پھر  وہ کسی بڑی سیاسی جماعت کی تو کیا چند افراد  کی قیاد ت کا  بھی  اہل نہیں  ہے ،رہنما ہونے اور رہنمابننے  میں  فرق ہے ، بدقسمتی سے  ہمارے ہاںسیاست  میں چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے  ، انہیں خاندانوں کے چشم و چراغ   کئی دہائیوں سے   مسلسل " منصب ِ رہنمائی "  پر  زبردستی فائض  ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ  ان میں   وہ " جوہر نایاب"  موجود  نہیں  ہے  جو کسی قومی رہنما میں ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

یہی وجہ  ہے کہ ملک میں ہمیشہ اچھے اور مخلص سیاست دانوں کا فقدان رہا    ہے ، نام و نسب ، مال ودولت   کی وجہ سے  یہ لوگ جن میں ذاتی  قابلیت نام کی کوئی شے  نہیں ہے، حتی کہ قومی زبان ڈھنگ سے بولنے کی بھی اہلیت نہیں ہے  20 کروڑ لوگوں پر حکمرانی  کا خواب  دیکھتے ہیں     بلکہ یوں کہیں کہ 20 کروڑ لوگوں پر حکمرانی کرنے پر اصرار کرتے ہیں ، مزید طرفہ تماشا یہ کہ ان لوگوں کو ایک بڑے جمع غفیر کی حمایت بھی حاصل ہے ۔

جو" کارکنوں " کے نام سے   جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ ان " کارکنوں "  کی آنکھوں پر  شخصیت پرستی کی  وہ عینک  لگی  ہے جو حقائق  پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ چاہے حقائق  کتنے  ہی جلی حروف میں فصیل شہر پر  کنداں ہوں۔  گذشہ  رو ز بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے مسلم لیگ  نون  کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ وہ فوج سے مذاکرات   کرنے کے لیے تیار ہے ، فو ج حکومت کو گھر بھیجے" یہ محترمہ اُسی    " مرد مجاہد" کی دختر نیک اختر ہیں جو چند روز قبل ایک جلسے  میں  فوج کے سپہ سالار   پر تنقید کے نشتر برساتے ہوئے  حساب مانگ رہا تھا  ،  یہ محترمہ اسی سیاسی جماعت کی نائب صدر  ہیں ،جس کا بیانیہ ہے کہ موجودہ نااہل حکومت فوج  کی لائی ہوئی ہے ۔

یہ  وہی محترمہ ہے جو کہتی  ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت بند کرے ، اب موصوفہ فوج سے ہی کہہ رہی ہیں  کہ مداخلت کرے اور جموری حکومت  کو گھر بھیجے ،  ووٹ کو عزت دو  جیسا جمہوری نعرہ لگانے والی موصوفہ غیر جمہوری  مطالبہ کر رہی ہیں ،  محترمہ کہ اس بیان سے جہاں ان کی سیاسی  بصیرت کی قلعی کھل گئی ہے وہاں ان کا  متضاد بیانیہ بھی عوام کے سامنے عیاں ہوگیا ہے،ہماری بدقسمتی ہے کہ   قول وفعل کا تضاد   ہمارے سیاسی رہنماوں کی عادت ثانیہ بن چکی  ہے  یہی وجہ  ہے عوامی سطح  پر ہمارے سیاست دان  حق ،سچ ، دیانت ، خلوص،  کی علامت بن کر کبھی  نہیں ابھرے  ، اس سے   بھی بڑی بدقسمتی یہ  ہے کہ ان لوگو ں  کے فالور  اپنے قائد کے متضاد بیانیہ  پر   احتجاج کرنا    تو درکنار   قول و فعل کے تضاد کو   دل سے بھی برا نہیں جانتے   جو  کہ  ایمان کا آخر درجہ ہے  ۔

ارض وطن میں جمہوریت کی بیل اس لیے بھی کبھی ٹھیک سے  منڈیر  نہیں   چڑھی  کہ  پارٹی  لیڈروں نے  کبھی متوسطہ طبقے کے نمائندہ سیاست دانوں  کے ہاتھوں  میں  پارٹی کی بھاگ دوڑ نہیں آنے  دی ،  پارٹی  لیڈوں  نے  ہمیشہ  ہی   اپنے خاندان کے افراد سیاسی پارٹیوں کے کلیدی عہدوں پر فائض کیے ۔    جمہوریت کا راگ آلاپنے والوں کی اپنی  پارٹیوں میں جمہوریت نام کی چیز نہیں ہے ، پارٹی کی قیادت  کئی دہائیو ں سے ایک ہی خاندان میں گردش کررہی ہے ۔

پار ٹی  میں کوئی  کتنی ہی سیاسی بصیرت  و سوجھ بوجھ  رکھتا ہو اس کا مقام و مرتبہ بانی جماعت کے نواسوں ، پوتوں، اور بیٹے بیٹیوں    سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا ہے ،سیاست  کے  دشت میں عمر عزیز گزانے والے اپنے بالوں کی سفید ی کی حرمت کو طاق میں رکھ کر نو عمر رہنماوں کے  ہاتھوں پر مجبوراََ بیعت کرلیتے ہیں  بد قسمتی سے یہی اس ملک کا سیاسی کلچر رہا ہے ، کچھ سیاسی جماعتوں نے اس مکروہ روش  کی پیروی نہیں کی جو ایک احسن اقدام ہے    ۔


جو  نو عمر  رہنماوء ں   کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں ،   نسل در نسل ا  اس کی مثال جاوید ہاشمی      محترمہ کے اس بیان پر حکومتی وزرا ءنے  سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ  ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دفن ہو گیا ہے ، ایک وزیر نے کہا کہ  ن لیگ کی ہوس اقتدار  کی بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے ، تمام اہل قلم ، ٹی ٹاک شوز میں مریم صاحبہ کا بیان زیر بحث ہے ، ق

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :