تعلیم : حالات، نظریات اور طریق کار

جمعہ 24 ستمبر 2021

Fardeen Ahmad Khan Rizvi

فردین احمد خان رضوی

تمہید:
اللہ تبارک وتعالی نے نوع انسانیت کے اندر  علم و ارتقا کی ایسی صلاحیت ودیعت فرمائی ہے  کہ وہ حیرت انگیز  رفتار سے نئی باتیں سیکھ اور یاد رکھ سکتا ہے__ اس کے اندر علم کے حصول، اس پر تدبّر اور اسے آگے منتقل کرنے کی غیر معمولی طاقتیں موجود ہیں__ ایک نو مولود بچے کی مثال لیں، جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اسے فقط ایک یا دو چہرے یاد ہوتے ہیں جن کی آغوش میں وہ خود کو محفوظ مانتا ہے__ پھر ذرا بڑا ہوتا ہے تو اشاروں اور ہنسے- رونے  کے ذریعہ اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے__ کچھ اور بڑا ہوتا ہے تو تین چار الفاظ بولنے کی مشق کرتا ہے  اور اسی طرح آگے بڑھتے -بڑھتے شعور و آگاہی کی منزلوں کو طے کرتا ہے__ اس مثال سے ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ انسان کے اندر اگرچہ سیکھنے کی ایک غیر  معمولی قوت موجود ہے ، مگر یہ تعلیم  تدریجی و ارتقائی ہے  نہ کہ یک بارگی  حاصل ہونا__
    جس طرح ایک کتاب، چند حرفوں کے میل سے بنے دو تین الفاظ سے شروع ہوتی ہے ، چند چھوٹے -چھوٹے فقرے آپس میں بغل گیر ہو کر جملوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور یہی  جملے محو معانقہ ہو کر سطور کی بنیاد رکھتے ہیں، اور یہی سطور بڑھتے -بڑھتے ایک پوری کتاب کا روپ دھار لیتی ہیں؛  یا یوں  کہیں کہ جیسے ایک نظریہ پہلے چند مسلمہ اصولوں سے شروع ہوتا ہے، غور و فکر کی منزلوں کو طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے، اصولوں پر مبنی دو تین فقرے  کب ایک مبسوط فکر  بن جاتے ہیں اور کب معلوم کی دنیا سے نکل کر مجہول کا پردہ اٹھ جاتا ہے  مفکر کو خبر تک نہیں ہوتی ؛ اسی طرح تعلیم کی راہ بھی تدریجی ہے ، اس میں بھی پہلے  آسان ابتدائی مراحل ہوتے ہیں جو آگے چل کر پیچیدہ افکار و  دقیق نکات کے قالب میں نظر آتے ہیں__ ابتدا سے انتہا کا سفر  ایک ارتقائی کیفیت کا ہوتا ہے، آسان سے مشکل کی طرف، معلوم سے مجہول کی طرف،  کم سے زیادہ کی طرف، قدیم سے جدید کی طرف اور تعمیم سے تخصیص کی طرف__
پھر اگر تعلیم کے اغراض و مقاصد پر غور کیا جاے تو وہ کافی پیچیدہ ہیں، انسان کو بنیادی تعلیم اس  کے گہوارے میں ملتی ہے جہاں وہ چیزوں کو برتنے کا سلیقہ ، بات کرنے کے آداب  اور حسن معاملہ کے ضوابط   سیکھتا اور سمجھتا ہے؛ تو اس بنیادی تعلیم کا مقصد اس کے کردار کی تشکیل ہوا کرتا ہے__  اس کے بعد ابتدائی لکھنے پڑھنے کی تعلیم اسے دی جاتی ہے تاکہ اپنی بنیادی ضرورت  -یعنی اپنے خیالات کا اظہار – کو پورا کر سکے، اس مرحلے پر اسے کسی ایک زبان کی تعلیم دی جاتی ہے اور یہ عموماً اس خطے کی  عام بول چال کی زبان ہوا کرتی ہے__ یہاں تک تعلیم کا اصل ہدف ہوتا ہے انسان کے کردار  کو ایک مضبوط  بنیاد فراہم کرنا جس پر اس کی مستقبل کی   شخصیت تعمیر ہو گی__
آگے کی تعلیم و تربیت انسان کی تعمیر میں پہلی منزل ہوتی ہے، یہاں سے  یوں سمجھ لیں کہ بنیاد کے ارد گرد دیواریں اٹھائی جاتی ہیں، وہ اصول و ضوابط جو انسان نے سیکھے ہوتے ہیں ان کی مزید شرح و توضیح کی جاتی ہے،  اور اسے دقیق مسائل کی تمہید باور کرائی جاتی ہے __ اسی تمہیدی علم سے اس کی فکر و نظر کی قویٰ بیدار ہوتی ہیں،  اور سمجھ بوجھ پہلی انگڑائی لیتی ہے__ یہاں اسے وہ طرق اور ضابطے بتاے جاتے ہیں جنہیں مستقبل میں وہ استعمال کر کے دقیق سے دقیق مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو گا__
    پہلے مرحلے کو ہم پرائمری ، دوسرے کو   جونئیر   کہہ سکتے ہیں__ ان دونوں مراحل کے بعد جو تعلیم کا دور آتا ہے اسے سینیئر   یا ثانوی مرحلہ کہہ سکتے ہیں__ یہ تعلیم کا وہ دور ہوتا ہے جہاں انسان کی زندگی بھر کی تعلیم کے ثمرات نظر آنے لگتے ہیں__ اس کی شخصیت کسی حد تک تعمیر ہو چکی ہوتی ہے ، اس کے اندر تحریر و تقریر، کتابت و بیان کی صلاحیتیں ، نکات  کی افہام و تفہیم  کی استعداد، تعلیم و تعلم کی اچھی خاصی سمجھ بوجھ   ودیعت ہو جاتی  ہے__ اسی دور میں اسے دشوار گزار امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے اور انہیں پار کر کے ہی وہ تعلیم یافتہ کہلا سکتا ہے__
    اس کے آگے کی تعلیم  ویسی ہمہ جہت نہیں ہوتی جیسی پہلے کی تھی، اور عمومی طور پر اس تعلیم کے لیے الگ سے ادارے ، یونیورسٹیاں ، قائم کی جاتی ہیں__ اس منزل پر آ کر انسان اپنے مستقبل کا  شغل   منتخب کرتا ہے ، یہ انتخاب اس کی دلچسپی، صلاحیت اور شخصیت کے مطابق ہوا کرتا ہے__ جس انسان کو جو بھی شعبہ زندگی پسند آتا ہے وہ اسے منتخب کر اپنی راہ متعین کر لیتا ہے __ اس تعلیم کا محور و مرکز صرف وہ شعبہ زندگی ہوتا ہے جسے طالب نے منتخب کیا ہوتا ہے __ یہاں ہمہ جہت تعلیم فراہم نہیں کی جاتی چوں کہ یہاں اصل مقصد اس کی  تشخیصی تعمیر نہیں بلکہ اسے ایک مخصوص شعبہ زندگی میں بہترین کارکردگی انجام دینے اور خود کو وہاں ایک بہترین جز و  کے طور پر ثابت کرنے کے لیے تیار کرنا   ہوتا ہے__ مثلاً، ڈاکٹر ی پڑھنے والے کو ایک اچھا ڈاکٹر بنانا، انجنیئر کو اس کے فن کا ماہر،  ادیب کو بہترین نوا سنج ،  وغیرہ   غرض یہ کہ ہر شخص کو اس کے شعبے کی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرا جاتا ہے__
حالات :
مگر دور حاضر کے تعلیمی نظریے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ چوں کہ دنیا پر   منفعت پرست سرمایہ دار   نظام کا  غلبہ ہو چکا ہے ، تعلیمی طرق بھی اسی کے مطابق تبدیل کر  دیے گئے ، اب تعلیم قدیم دور کی طرح بہترین و عمدہ  افراد پیدا کرنے پر نہیں بلکہ نفع بخش  اور سود ساز افراد پیدا کرنے پر مرکوز ہے__ بلا شبہ   جس شخص کو بھی تعلیم دی جاتی ہے  ، تکمیل پر اس سے سواے اس کے کوئی اور توقع نہیں ہوتی کہ وہ ایک مخصوص ملک ، ادارے یا شخص کو منافع پہونچاے __ جب نظام میں تبدل آیا ، لوگوں کی ذہنیت بھی ویسے ہی تبدیل ہو گئی ، اب وہ اپنی اور اپنے بچوں کی تعلیم کو  نفع رسانی اور معاشی میزان پر تولنے لگے،  یا یوں کہیں کہ تعلیم یافتہ ہونے کی علامت  سرمایہ دار ی  بن گئی__ اس قاعدے سے ، اگر آپ نے بہت اعلی تعلیم حاصل کی ہے مگر اس تعلیم سے آپ ایک اچھا خاصا سرمایہ پیدا نہیں کر رہے ہیں تو وہ تعلیم اعلی نہیں بلکہ عبث ہے !
اسی نظریے کے سبب ہمارے وقت میں فنون لطیفہ کا وہ حال ہوا جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

(جاری ہے)

  زبان، فلسفہ، سیاسیات ، عمرانیات ،  تعلیمیات  و ادبیات کے اتنے طالب علم شاید آپ کو نہ نظر آئیں جتنے ڈاکٹری، انجینری، اقتصادیات و معاشیات کے ملیں گے؛ وجہ صاف ہے، ان شعبہ جات میں اتنا سرمایہ نہیں جتنا باقی تمام میں ہے__ ایک اور نقص دور جدید کے نظام تعلیم  میں یہ بھی واقع ہوا کہ   سرمایہ داری کی سوچ نے تعلیم کی عمدگی سے مکمل قطع نظر کر لیا اور سارا زور اس بات پر دیا کہ اس کے نتیجے میں کتنا سرمایہ پیدا ہو رہا ہے__ اسی بنا پر تعلیم کا معیار بد سے بدتر ہو چلا ، کالج اور یونیورسٹیوں کی تعداد روز افزوں ہوئی مگر وہاں کا معیار تعلیم گرتا چلا گیا__ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تعلیم یافتہ حضرات  کی قلت ہے مگر ڈگری یافتہ لوگوں کی نہیں__ نظام ھذا ہی کی دین ہے کہ دنیا میں بے روز گاری آسمان چھو رہی ہے جب کہ ہر سال کالج ، یونیورسٹیوں سے کروڑوں کی تعداد میں افراد سند یافتہ  فارغ ہو رہے ہیں__
ہمارے تعلیمی نظام کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہاں یہ تو پڑھایا جاتا ہے کہ ڈاکٹری کیسے کی جاتی ہے  ٹیچر کیسے بنتے ہیں، مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ کیا میرے لیے ٹیچر بننا بہتر ہے یا ڈاکٹر؟ میری مخصوص صلاحیتیں کیا ہیں؟ میں کن چیزوں میں اچھا ہوں؟  زندگی کے حقائق ، فنون لطیفہ اور ان کی اہمیت ، حیات دنیاوی میں مذہب کا مقام، باہمی تعاون کس طرح کریں؟ تنازعات کو کیسے رفع کریں، معاشرہ میں ہمارا مقام کیا ہے ، ذمہ داریاں کیا ہیں؟   حقوق نسواں، باہمی بھائی چارہ، ملکی مفاد و ترقی میں ہمارا کردار ، منفی  افکار سے پرہیز، تشدد و انتہا پسندی سے دوری، وغیرہ   ہزاروں چیزیں ہیں جو ہماری زندگی کے لیے اہم ہیں مگر ہمیں وہ نہیں پڑھائی جاتیں__ اکثر ادارے تو اس طرف توجہ دینا ہی گوارا نہیں کرتے اور جن کے نصاب میں یہ چیزیں شامل بھی ہیں تو وہ محض نام بھر کی ہیں ،  یا واہ واہی لوٹنے کی غرض سے شامل کر لی گئی ہیں کہ ادارہ نفسیات اطفال کا خیال رکھنے کا بلند بانگ دعوی ٰ کر سکے__
اس طرز عمل کے منفی اثرات بھی دنیا کے سامنے آنے لگے ہیں ، پہلے جہاں صرف  جہلا اور بد معاش قسم کے افراد ہی افعال بد انجام دیا کرتے تھے، آج کی دنیا میں نام نہاد تعلیم یافتہ حضرات  وہی کام کر رہے ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ جاہل  اپنی جہالت کے سبب وہی کام چھوٹے پیمانے پر کر پاتا ہے جب کہ اس کا تعلیم یافتہ ہم زاد اسی فعل بد کو ایک وسیع پیمانے پر انجام دیتا ہے ، پہلے جہاں چند ایک افراد ہی کسی برے کام سے متاثر ہوا کرتے تھے  آج کے وقت میں تعلیم یافتہ لوگوں کے جرائم ہزاروں  بلکہ لاکھوں افراد کو متاثر کرتے ہیں__ پہلے ایک بینک میں کہیں چوری  ڈکیتی کی واردات سامنے آتی تھی اب ہزاروں افراد کے بینک ایکاؤنٹ سے پیسے اڑا لیے جاتے ہیں، پہلے جہاں کوئی ایک بچی  کسی حیوان صفت کی ہوس کا شکار ہوتی تھی، آج ہزاروں بچیوں کو اغوا کر کے بازار میں اتارا جاتا ہے اور باقاعدہ جسم  فروش ریکٹ چلاے جاتے ہیں والعیاذ باللہ تعالی__
ایک اور نہایت افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اگر چہ  عصری و  دینی تعلیمی اداروں میں بڑے پر مغز اور نکتہ بین حضرات کے مرتب و مدون کردہ نصاب  موجود ہیں؛ مگر ایک سے دوسرے تک جانے کا کوئی ترتیب شدہ کامیاب نصاب موجود یا کم از کم مشہور نہیں__ یعنی اچھا سائنس دان یا اچھا مولانا بننے کے لیے تو بہترین تعلیمی نصاب موجود  ہیں ، لیکن اگر کوئی سائنس دان اپنا  تشخص و زبان چھوڑے بغیر مدارس کے علوم حاصل کرنا چاہے تو اسے خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے__ عین اسی طرح جب کوئی مدرسہ سے فارغ شدہ شخص عصری علوم کی طرف پیش قدمی کرتا ہے تو اسے لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں__ وجہ اس کی وہی ہے کہ ہمارے  دانش وروں اور فضلا نے اس طرف یا تو توجہ مبذول نہیں فرمائی یا ابھی تک اس شعبہ نے ترقی کے وہ مراحل طے نہیں کیے تو باقی مروجہ شعبہ جات کے لیے رہ یک گام ہیں__ اس بات سے اشارہ یہ ہے کہ اسکول -کالج کی دنیا اور مدرسہ و مکتب کی دنیا دونوں ہی میں علم کے بیش بہا لعل و گہر موجود ہیں  ، مگر اب تک  ان دونوں کے درمیانی  فاصلے کو ختم تو کجا ، کم کرنے میں بھی ہمیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے__
بے چارے دونوں ہی طرف کے لوگ جب ایک دوسرے کی دنیا میں کچھ عمل دخل کی کوشش کرتے ہیں تو بڑی مشکلات اٹھاتے ہیں__ مدارس کے طلبہ جب انگریزی کا مکمل علم حاصل کیے بغیر تحاریر پڑھتے ہیں  کبھی مترادفات تو کبھی  مشترک آواز والے مختلف فی المعنی الفاظ میں الجھ کر رہ  جاتے ہیں، اور جو کہیں محفل میں کچھ کہنے کی جرات کر بھی لیں تو انہیں ہدف تنقید اور بازیچہ اطفال بنا لیا جاتا ہے__ یوں ہی جب اسکول -کالج والے بغیر عربی کا وافر علم حاصل کیے کچھ اپنی سمجھ سے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا فہم اکثر ٹھوکریں کھاتا ہے، کہیں  ایک لفظ کے متعدد معنی کے انبار میں عبارت کا صحیح مفہوم سمجھ نہیں آتا تو کہیں الفاظ کا آسان فہم ترجمہ میسر نہیں ہوتا ، اور اسی پر اگر اچھی نیت ہی سے سہی ، کچھ کہہ دیں تو ان کے خلاف تلواریں نکال لی جاتی ہیں کہ اس نے ایسے کیسے کہہ دیا، پھر وہ اپنی جان کی آمان کے لیے خوف زدہ پھرتا ہے__
یعنی دونوں ہی کے درمیان ایک اچھا خاصا خلا ہے جسے عبور  کرنے  والوں کی تعداد کم اور مشکلات زیادہ ہیں__  تاہم میں نے خود یہ مشاہدہ کیا کہ عصری علوم سے آراستہ لوگ کئی مرتبہ آیتوں ، حدیثوں کے مفاہیم کو سمجھنے میں خطا کر جا تے ہیں   کیوں کہ انہیں اصول و ضوابط اور مسلمات کا علم نہیں ہوتا __ کسی علم کا ابجد نہ معلوم ہو اور اس پر کتاب لکھنے چلیں تو ایسا ہی ہوتا ہے __ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی اسی خلا کی پاداش ہے__
یہاں تک تو ہم نے تعلیم کے حالات کی چھان پھٹک کی  اور موجودہ تعلیمی  نظام پر اپنے خیالات پیش کیے ، اس کے آگے ہم تعلیم کے طریق کار پر گفتگو کریں گے __
طریق کار:
دنیا کے کسی بھی خطے میں جب تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے طالب کو تعلیم کی زبان سے آشنا کرایا جاتا ہے__ کیوں کہ زبان ہی  قفول ِ علوُ م  و حِکَم کی کلید ہے ، بغیر اس کے کوئی شخص کسی بھی تصور کی عکاسی نہیں کر سکتا__ اور عکاسی نہ ہونے پر اس کی تفہیم، اس پر تدبر  اور اس کا ابلاغ قریب محال ہے__ لہذا تعلیم کا بہترین طریقہ  تعلیم زبان سے شروع ہوتا ہے__  جس سے طالبان علم کو یہ نکتہ بھی اخذ کرنا چاہیے کہ اگر زبان پر درک حاصل نہیں ہو گا تو  کبھی کامرانی کا تاج نہیں مل سکتا__  تعلیمی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ زبان کی تعلیم پر خوب زور دیں، کسی بھی درجے پر پہنچ کر زبان کی تعلیم بند نہیں ہونی چاہیے__ بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر ہر ادارے سے فارغ افراد اپنے متعینہ فنون میں مہارت تو  رکھتے  ہی ہوں مگر  زبان کے بھی نکتہ رس شناور ہوں__ ایسا معاشرہ ضرور علم و ادب کا گہوارہ بن جاے گا جہاں  کے افراد ماہرین فنون بھی ہوں اور اہل زبان بھی__
پھر تعلیم کے طریقہ کا دوسرا سب سے بڑا عنصر ہے تصورات کی تفہیم، کتنی ہی مرتبہ دیکھا گیا کہ تعلیمی اداروں میں مختلف وجوہات کی بنا پر طلبہ  کو تصورات سمجھانے کی بجاے انہیں نکات رٹاے جاتے ہیں__ اس طرح کی تعلیم سواے  امتحانات میں چند نمبر دلانے اور کس کام آ سکتی ہے؟  اگر تصور کو سمجھا ہی نہیں تو گویا اس کا ادراک نہیں کیا اور جب ادراک ہی نہیں کیا تو اس کا علم کیوں کہ حاصل ہو گیا؟ یہی وجہ ہے کہ ایسے اداروں سے فارغ ہونے والے افراد   کو اپنی زندگی کا ایک بہتر حصہ ذریعہ معاش سے  فراغت میں ہی بتانا پڑتا ہے__ کہیں  نا اہل  اساتذہ کے سبب کہیں  کسل زدہ طلبہ کی وجہ سے ، یہ واقعات دیکھنے میں آتے ہیں__ افسوس کی بات ہے کہ طلبہ کا بھی یہ ذہن بن چکا ہے کہ فلاں موضوع صرف پاس ہونے کے لیے پڑھنا ہے ، فلاں موضوع کے تصورات سمجھ نہیں آ رہے اس لیے انہیں رٹ لیتا ہوں اور یاد داشت سے امتحانات میں لکھ آؤں گا __ یہ سوچ طلبہ کے لیے بہت مضر ہے کیوں کہ اس سے شاہین نہیں بلکہ طوطے پیدا ہوتے ہیں ، اللہ سمجھ عطا  فرماے__
زبان و تفہیم کے بعد اگلا ضروری پہلو ہے تدریج ، کسی بھی طرح کا ادارہ ہو، عصری ہو یا دینی ، تعلیم میں تدریج کے کلیدی کردار کی نفی کوئی نہیں کر سکتا__ ہر  محکمہ تعلیم میں طلبہ کے کیے حسب عمر درجہ بندی موجود ہے__ تدریج کی اہمیت اس مثال سے خوب واشگاف ہو جاے گی، اگر آپ چاہتے ہیں کہ فلاں ابن فلاں  ایک اچھا  ادیب بنے، تو پہلے آپ اسے زبان کے ابجد کا علم دیں گے، پھر جب کچھ بڑا ہو گا اسے حروف سے الفاظ، ان سے جملے ،ان سے سطور ، ان سے مضامین  اور مضامین سے کتاب  اس طرح بہ تدریج لے جائیں گے، نہ یوں کہ جیسے ہی اسے ابجد آ جاے اسے فوراً  -کتاب لکھنے پر آمادہ کریں__  یہ اس لیے بھی ہے کہ جیسا کہ ہم تمہیدی گفتگو میں ذکر کر چکے کہ ہمارا دماغ  یک بارگی دقیق مسائل  کو سمجھنے سے قاصر ہے، پہلے ہمیں سہل اور چھوٹے مسلم  اصول کو حاصل کرنا ہو گا پھر پیچیدہ اصولوں کو پھر ہم ان کی ترکیب و ترتیب سے دقیق مسائل کے افہام و تفہیم میں کامیاب ہو سکتے ہیں__
    تعلیم کی درجہ بندی طالب علم کی دماغی   ارتقا کو مد نظر رکھ کر ترتیب دی جاے، جس سے تعلیمی مراحل اس کے لیے آسان اور دلچسپ ہوں، کئی ادارے اس اصول کو فراموش کر دیتے ہیں جس کا خمیازہ ان کے طلبہ کو اٹھانا پڑتا ہے ، پڑھائی سے دل  اکتا جاتا ہے اور اکتاہٹ کے سمندر میں فکر و نظر کی توانائیاں  غرقاب ہو جاتی ہیں__
پھر دور حاضر میں صرف کتابی تعلیم ہی نہیں بلکہ عملی تعلیم کا بھی اہتمام از حد ضروری ہے ، جیسے کئی علوم و فنون میں مشق درکار ہوتی ہے ویسے ہی بہت سے موضوعات جن کا تعلق عملی دنیا سے ہے  ان کے لیے عملی (پریکٹیکل ) تعلیم ضروری ہے __ عملی موضوعات میں صرف کتابی تعلیم حاصل کرنے اور پریکٹیکل  مشق سے صرف نظر کرنے کا ہی خمیازہ ہے کہ ہمارے وقت میں کئی ایسے سند یافتہ افراد ہیں جنہیں ملازمت نصیب نہیں ہوتی، وجہ اس کی یہی ہے کہ انہیں تصورات کا علم تو ہے مگر انہیں  تعمیلی جامہ پہنانے کے ہنر سے عاری ہیں__
عمدہ تعلیم کا ایک لازمی عنصر تربیت بھی ہے ، اخلاقی اقدار کو سنوارنا  ، مکارم اخلاق کی تعلیم دینا اور ایک اچھا انسان ، ایک پابند قوانین شہری،  اور معاشرے کا ایک عمدہ فرد تیار کرنا __  استاد و  معلم کی ذمہ داری یہ بھی بنتی ہے کہ وہ اپنے ما تحت مستقبل کے طلوع ہوتے شموس (مفرد: شمس)کی خوب سے خوب تر تربیت کا اہتمام  کرے__  ہمارے معاشرے سے تعلیم کا یہ ضروری عنصر بہت تیزی سے مفقود ہوتا جا رہا ہے ، جس کی چند امثال ہم نے گزشتہ صفحات میں ذکر کیں__ انسانی ضروریات میں سے اخلاقی  تعمیر کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے ، کیوں کہ  اس کا تعلق عائلی اور اجتماعی زندگی سے ہے ، اور اس کے اثرات صرف کسی ایک فرد پر نہیں بلکہ پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں__
یہ تمام عناصر و اجزا جو میں نے ذکر کیے ، تعلیم  کو بہترین و عمدہ بنانے کے لیے بے حد ضروری ہیں کہ ان کی پاس داری کر کے ہم تعلیم کے اصل اغراض و مقاصد کی تکمیل میں کسی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں__
اب میں ضروری سمجھتا ہوں کہ تعلیم کے بنیادی اور حتمی مقصد کی نشاندہی کرنے کی کوشش کروں،  چوں کہ گزشتہ صفحات میں آپ نے تعلیم  کے احوال و کوائف ،  اطوار و طرق   ملاحظہ فرماے  آگے آپ کے سامنے تعلیم کے مقاصد و اغراض کو واضح کیا جاتا ہے __
نظریات:
تعلیم کا بنیادی مقصد ہے انسان کے اندر صلاحیتوں کو پیدا کرنا اور اسے اس لائق بنانا کہ وہ خود  شناس و خود کفیل  بن سکے__ اسے بنیادی طور پر تعلیم اس لیے بھی  دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی ضروریات کو بغیر کسی دوسرے انسان کا محتاج بنے پوری کر سکے__ پرائمری تعلیم یافتہ اپنے خیالات و جذبات و تصورات و تجربات کو بہ حسن و خوبی  ظاہر کر سکتا ہے، لوگوں کو ان سے باور کرا سکتا ہے اور کسی بھی تصور کی تفہیم، اس پر تدبر اور اس کے ابلاغ کو یقینی بنا سکتا ہے__ لیکن اسی پر بس نہیں ہے ، کیوں کہ تعلیم و تعلم کا نظریہ   اس سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے ،  میری نظر میں تعلیم کا حتمی و منتہی مقصد ہے انسان کا عروج ، یعنی اس کی تمام تر توانائیوں ، صلاحیتوں کو فقط بیدار کرنا ہی نہیں بلکہ انہیں سنوارنا اور درجہ کمال تک لے جانا،  اس کے اخلاق کو  انسانی شہوات سے پاک کر کے خوب صورت و باکمال  بنانا، اور اسے زندگی کو بہترین انداز میں گزارنے کا راستہ بتانا__
 ظاہر ہے  کہ ایسی تعلیم انسان  کو اس کا مذہب ہی دیتا اور دے سکتا ہے ، مذاہب عالم میں بھی کوئی اس درجہ دانائی و بینائی تک نہیں پہنچتا جہاں مذہب اسلام ہے__ اسلام میں آدمی کو اس کے مقصد اصلی کی تعلیم دی جاتی ہے ، اسے شریعت مطہرہ  کا پابند کر کے لا ابالی  طرز حیات کی قید سے رہا کر دیا جاتا ہے__   اسلامی نظریہ تعلیم کا مرکز انسان کو خود شناس بنانا بھی ہے اور خدا شناس بھی، یہاں تو خود خلاق عالم عز و جل فرماتا ہے کہ اس نے انسان و جن کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، جس کی تفسیر معتبر مفسرین نے عبادت سے معرفت و عرفان کو مراد لیا ہے __  یعنی رب العالمین نے انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا کہ  وہ اپنے رب کو جانیں ، علوم دینیہ حاصل کریں، معرفت و علم کے جام نوش کریں  اور ابدی فلاح حاصل کریں__ اسلام کی مقدس کتاب قرآن مجید فرقان حمید کی پہلی آیت ہی کئی مفسرین کے نزدیک -اقرا- ہے یعنی- پڑھو-،  اسلام کے سب سے افضل و آخری پیغمبر حضور رحمت عالم جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو اللہ جل شانہ نے معلم کائنات بنا کر بھیجا  کہ وہ تمام لوگوں کو کتاب و حکمت کا علم سکھائیں اور ان کے قلوب کا تزکیہ فرمائیں، دلوں سے نفرتوں اور خصائل  رذیلہ کو دور فرما دیں اور انہیں تجلیات  قدسی کا مرکز بنا دیں__
پھر جیسا کہ ذکر کیا گیا  تعلیم کا حتمی مقصد عروج انسانی ہے ، عین یہی منشا اسلامی تعلیمی پروگرام سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں مقصد کسی ملک، ادارے یا شخص کا نفع نہیں بلکہ جمیع انسانیت کی فلاح و بہبود کا سامان   فراہم کرنا  ہے__ جمع سرمایہ   یہاں مرکز توجہ نہیں بلکہ ساری قوت  اصلاح انسانی پر صرف کی گئی ہے__ اسلامی تعلیمی نظریات میں وہ آفاقی وسعت دیکھنے کو ملتی ہے جو کسی اور نظریہ یا نظام میں نظر نہیں آتی ،  اس تعلیم کے اہداف انسانی ضروریات، مادی  کفائف، نفسیاتی  حقائق ، طبی تجربات ،   نظام طبعیات ، فلسفہ و الٰہیات  ،  اجتماعی مفادات اور آفاقی و ارضی  حالات سبھی کو محیط ہے__ ایسی ہمہ جہت و عالم گیر طرز فکر  کہ انسان کو  دنیا میں مظاہر قدرت پر غور کرنے کی بھی دعوت دیتی ہے اور خود اپنی تخلیق اور  اپنے نفس کا مشاہدہ و محاسبہ  کرنے کا بھی حکم دیتی ہے ، کہ انسان  داخلی و بیرونی ہر لحاظ سے ذی علم بنے__ تعلیم و تعلم کی طرف اس سے بڑھ کر اور کیا تحریک ہو گی کہ خود اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنا  خوف و خشیت  -جو کہ  تقویٰ و پرہیز گاری کی کنجی ہے - کے درجہ کمال کو  اہل علم کے ساتھ  مشروط و مربوط کر دیا  ہے!
اس سب کے باوجود ، دنیا کا ایک نام نہاد پڑھا لکھا طبقہ بغیر علم و آگاہی اور مکمل تحقیق کے، اسلام پر بربریت و جہالت کے الزام لگاتا ہے ، یقیناً اس میں ذرہ برابر سچائی نہیں ،کہ اسلام میں تعلیم کی اہمیت  ہم اوپر بیان کر چکے ، جس مذہب میں تعلیم کو اس قدر اہمیت دی گئی ہو، جہاں تعلیم کا ایسا ہمہ جہت نظریہ موجود ہو  ، اسی کو جہالت کو فروغ دینے والا مذہب گرداننا کسی پیشگی منفی تاثر کی پاداش تو ہو سکتا ہے مگر حقیقت پسندی نہیں__ پھر دیکھا یہ بھی گیا ہے چند افراد تعلیم کے نام پر  اپنے ذاتی پروپگنڈوں کو ہوا دیتے ہیں، مثلاً، ملحد پروفیسر صاحبان  اپنے طلبہ کے ما بین- اگر چہ وہ ان کا موضوع نہ ہو- پھر بھی مذہب و فلسفہ کی بحث چھیڑتے ہیں اور مذہبی روایات کو تختہ مشق بناتے  ہیں تاکہ سادہ لوح طلبہ مرعوب ہو کر اپنی ثقافت سے رو گردانی کریں اور اپنے اساتذہ کی  لا دینی دعوت کو قبول کریں__ اس طرح کے پروفیسر س تعلیمی شعبہ جات کے لیے ایک ناسور سے کم نہیں کیوں کہ وہ تعلیم پر اپنی فکر کا رنگ چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں؛  ہماری قوم کو ایسے افراد سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے__
تعلیم انسانی زندگی کی  ایک ایسی نا گزیر حاجت ہے کہ جس سے تہی دامنی یا چشم پوشی کرنا ممکن نہیں اور یہ ہر انسان کو میسر ہونی چاہیے کہ اس کے بغیر انسان خود کو ہی نہیں جان سکتا تو باقی کس حقیقت کا تعاقب کرے گا__ دنیا کے شرق و غرب  میں  ہر ملک کا آئین حقوق براے تعلیم کا آئینہ دار ہونے کا دعوی کرتا ہے ، پھر بھی یہ افسوس ناک حقیقت  انسانی تمدن پر بد نما داغ بنی ہوئی ہے کہ دنیا کا  ایک بڑا طبقہ آج بھی تعلیم سے محروم ہے__ کاش کہ یوں ہوتا کہ دنیا میں جس طرح فیشن اور مادیت پرستی کے جراثیم عام کیے گیے ویسے ہی تعلیم کو بھی کچھ توجہ کا محور بنایا جاتا ، شاید کہ دنیا کی تصویر آج سے مختلف ہوتی__ پس اؔقبال کے اسی شعر پر اپنی گفتگو ختم کرنا چاہوں گا کہ؎
اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا
ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر
اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو علم  و عمل کی دولت سے نوازے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :