کورونا کے ساتھ ہماری زندگی کی پہلی رات۔ قسط 2

منگل 14 اپریل 2020

Habib Rizwan

حبیب رضوان

صاحبو تاریخ بتاتی ہے کہ بیڈ کے سرہانے کا دھماکے دار بوسہ لینے  کے بعد کافی عرصے سرمبارک کا فیوز ڈی فیوز رہا۔ جب آنکھ کھلی تو اپنے ہی گھر اپنے ہی کمرے میں روز محشر کی سی نفسا نفسی دیکھی۔ بچے بڑے کھڑکی سے چمٹے عجیب سی نظروں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ ایک لمحے کو تو ایسا لگا جیسے ہماری خفیہ محبتوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج کسی نے سوشل میڈیا پر ڈال دی ہو پھر یاد آیا ہماری تمام قابل اعتراض محبتیں تو سی سی ٹی وی کی ایجاد سے پہلے کی تھیں اس کیمرے کی ایجاد کے بعد خدا کے فضل سے کچھ تو ہم بھی متقی ہوگئے تھے اور کچھ محبتیں بھی محتاط ہوچکی تھیں۔

آپ پتھر نیچھے رکھیں ہم اس کیمرے  کی ایجاد سے پہلے یا بعد کسی بھی  دور میں محبت کی اس معراج پر نہیں پہنچے جہاں ہم آپ کے اس فریضے کی بھینٹ چڑھ جائیں۔

(جاری ہے)

پتا نہیں کیوں ہم اپنے بڑے بڑے گناہ پر معافی اور دوسروں کے  چھوٹے چھوٹے گناہ پر بڑی  سزا سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔  تو بھائیوں میں بتارہا تھا کہ بچے بڑے جس کو جو گاؤن ، برقعہ، برساتی، بیڈ شیٹ ہاتھ لگی لپیٹ کر کھڑکی میں کھڑے ہمیں دیکھ رہے تھے۔

  یقین مانیں ہمارا  اپنا خون ، جان سے زیادہ عزیز تین سال کا بیٹا تو بیڈ شیٹ کے ساتھ ساتھ  اپنے مکمل سائز سے بھی بڑی ہیلمٹ کے اندر سے جھانک رہا تھا اب کسی اور سے کیا شکوہ کرتے۔ منظر یہ تھا کہ ہم بیڈ پر ، گھر کے افراد کھڑکی پر اور ایک خاتون سیاہ برقعے میں ہاتھ میں مچھر مار اسپرے والی کالی کین پکڑے کمرے کے دروازے پر کھڑی تھی۔یہ دھندلا منظر کچھ واضح ہوا تو اس برقع پوش کی آنکھوں سے ہم نے اس دشمن جان کو پہچان لیا۔

  اب ہم جیسے ہی سر اٹھاتے وہ ظالم عورت اسپرے کردیتی۔ ہم نے بہت منت سماجت کی۔ وعدے، قسمیں یاد دلائیں کہ تم تو کسی وقت کہتی تھی کہ ساتھ جئیں گے اور ساتھ مریں گے۔ اس نے کہا چپ کرکے لیٹے رہو، میں نے تمھارے ساتھ جینے مرنے کا وعدہ کیا تھا کورونا کے ساتھ نہیں، نجانے کہاں منہ کالا کرکے ساتھ لائے ہو یہ کورونا ہمیں مارنے کے لیے۔  بڑی مشکل سے یقین دلایا کہ کورونا سے مستفید ہونے کے لیے کسی متاثرہ کے منہ لگنا ضروری نہیں یہ کسی متاثر سے بھی لگ سکتا ہے اور بغیر چھوئے بھی۔

  اس لگنے نہ لگنے میں ہم سے زیادہ کورونا کی مرضی شامل ہوتی ہے۔ ہماری اتنی منت سماجت کے بعد بھی کسی کو یقین تو نہیں آیا لیکن کمرے میں قید کردیا گیا۔ ہم نے دیکھا تو نہیں لیکن کمرے کے باہر خاردار تار بھی بچھائی گئی ہوگی۔  ہرتین گھنٹے بعد وہ برقع پوش آتی اور مچھر مار اسپرے کرکے چلی جاتی۔ دوسری بار جب آئی تو ہاتھ میں سینیٹائزر تھا حکم ہوا اس سے ہاتھ صاف کرو چہرے پر بھی مل لو ۔

ہم نے کہا اللہ کی بندی اب تو ہمارا کورونا حلق سے اندر تک پہنچ چکا ہوگا اس سے کیا فرق پڑے گا؟ جو جواب آیا تو ہمارے تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے بلکہ کھڑے ہوکر اچھلنے لگے اس عورت نے کہا کہ ٹھیک ہے میں سینیٹائزر کا جوس بناکر لاتی ہوں یہ سننا تھا کہ ہم سینی ٹائزر کے جوس کے سوا تمام استعمالات پر دل و جان سے راضی ہوئے۔ برقع پوش اسپرے کرتے کمرے سے باہر گئی تو ہم نے سکون کا سانس لیا اوراپنا موبائل فون ڈھونڈنے لگے تاکہ معلوم کیا جائے ہمارے بعد اہل آفس پر کیا گزری۔

موبائل فون بیڈ پر تلاش کیا، ٹی وی کے قریب ڈھونڈا  نہ ملا ۔ سوچا کہ دشمن جان سے پوچھ لوں پھر خیال آیا کہ بڑی مشکل سے سینیٹائزر جوس سے  جان بچی تھی اب کیوں رسک لے رہا ہوں اس خوف سے آواز گلے میں ہی کہیں رہ گئی۔ سو ہم نے پھر کمرے میں موبائل فون کی تلاش شروع کردی جو آخر کار ہمیں میز پر پڑا مل گیا ہم نے موبائل فون اٹھایا نجانے کیوں وہ بار بار ہمارے ہاتھ سے پھسلتا رہا ہمیں لگا کہ شاید کورونا کی وجہ سے ہاتھ بے جان ہوا ہے لیکن کچھ غور کے بعد علم اضافہ ہوا کہ موبائل فون کو نجانے کتنی بار سینیٹائزر میں غوطے دیے گئے ہیں۔

  غسل سینیٹائزر کے بعد بھی فون کی اسکرین روشن ہوتے دیکھ کر ہم کچھ دیر کے لیے کورونا بھول گئے۔ ہم نے فون چیک کیا تو پتا چلا واٹس ایپ اور کالز کی تعداد مہوش حیات کی تصویر پر لائکس سے بھی زیادہ تھیں۔ ہر شخص کا ایک ہی  سوال  تھا کہ کورونا کیسا ہے؟ غضب خدا کا ایک نے بھی نہ پوچھا کہ میں کیسا ہوں۔ سو ہم تو آج سیلبرٹی تھے تو نہیں دیا جواب ۔

جان بوجھ کر تمام مسیج کا اسٹیٹس سین کیا اور آفس کال ملائی۔ یقین مانیں نمبر ڈائل ہونے  سے بھی پہلے فون ریسیو ہوا اور اٹھانے والے کی چلاتی آواز آئی  بھائی کیسا ہے تو ؟ بڑی خوشی ہوئی سن کر لگا یہ لوگ ہیں جنہیں میری فکر ہے۔ ہم نے بھی مروت میں جلدی سے ٹھیک ہوں کے ساتھ شکریہ کہا تو جواب آیا  کہ تو مرتا ہے تو مر کورونا سے ہمیں کیوں لگانے کے لیے آج آفس آیا تھا۔

سن کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔ خیر ہم نے اپنے آنسو چھپاکر آفس کے حالات پوچھے تو پتا چلا ہمارے آنے کے بعد تو خوب ادھم مچی تمام وہ شعبے بھی حرکت میں آئے جو شاید ہی کسی نے کبھی فعال دیکھے ہوں۔ آفس والے گواہ ہیں کہ دفتر کا کوئی کونا ، کوئی چیز دھوئے بغیر نہیں چھوڑی گئی اور کئی بار دھلائی کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پورا آفس چمکایا گیا برسوں بعد کچھ آنکھوں نے آفس اور یہاں کی چیزوں کو اصل رنگ میں دیکھا۔

اب ہم دفتر کے حالات مزے لے لے کر سن ہی رہے تھے کہ لگا جیسے فون پر کوئی دوسری کال بھی آرہی ہو چیک کیا تو پتا چلا ایچ آر آفیسر فون کررہے ہیں سو ہم نے پہلے کال منقطع کرکے دوسری کال ریسیو کی ہماری خوشی کی انتہا نہ  رہی جب دوسری طرف وہ صاحب تھے جو بھرتی کے بعد شاید ہمیں بھول ہی گئے تھے۔ بڑے ہی پیار سے طبعیت پوچھی جیسے ڈر ہو کہ میں کہیں غصے میں آکر فون پر ہی کورونا نہ ارسال کر دوں ۔

پھر پوچھا دفتر میں کون کون سی جگہ گندی کرکے آیا ہوں۔ ہم نے ایسی جگہوں کی بھی نشاندہی کی جہاں ہم گئے تو نہ تھے لیکن وہاں کی صفائی چاہتے تھے۔ احتیاطی تدابیر کے تحت یہ بھی کہا کہ ہمیں اتنا ہی یاد ہے۔ پھر پوچھا کس کس کو شرف ملاقات بخشی ہم نے چن چن کر نام لیے اور اب وہ سب بھی  اپنے  اپنے گھروں میں قید ہیں۔ یہ سب ہرتھوڑی دیر بعد ہم سے پوچھتے ہیں ٹیسٹ کا کیا ہوا اور ہم مزے سے جواب میں محترم ضمیر اختر نقوی کی ویڈیو دے مارتے ہیں۔

صرف ان کو کیا اب تو ہم  ہر آنے والے میسج پرپڑھے بغیر ہی ضمیراختر نقوی فارورڈ کردیتے ہیں۔ تین مرتبہ تو فون سروس والے کو فاروڈ کرچکے۔ ایک بار تو غلطی سے احساس پروگرام والی ثانیہ نشتر کو بھی فارورڈ کرچکے۔ ہر تھوڑی دیر بعد فون کی اسکرین جگمگاتی ہے اور ہم ضمیراختر نقوی فارورڈ کردیتے ہیں۔ کورونا کے میزبان کیا بنے کس کس کا میسج یا فون نہیں آیا اور تو اور ہمارے پیشہ وارانہ بچپن کے دوست  ڈیجٹل مولوی کا بھی میسج آیا جو اپنے ڈائریکٹر کزن کی وجہ سے ہمیں لفٹ نہیں کراتا تھا ہمارے میسج کا جواب نہیں دیتا تھا۔

اس موٹو کا بھی فون آیا جس کے ساتھ ہم اس دشت میں اترے تھے۔ پھر یہ صاحب اس دشت میں ون ویلنگ کرتے کرتے دوسرے طرف نکلے اور ایک دن کھڑی سوزوکی سے ٹکرا کر ٹانگ تڑوا  بیٹھے۔ موٹو نےہم سے بہانے بہانے سے کورونا کے متعلق یوں کریدا جیسے کورونا نہ ہو ہماری بچپن کی مشترکہ محبت ہو اور اس کو شک ہو کہ میرے ہاتھ لگ گئی۔ تو بھائیوں کورونا کے ساتھ ہمارا پہلا دن ہنسی خوشی محترم ضمیر اختر نقوی فارورڈ کرتے گزر رہا تھا ہم چن چن کر اپنے دوستوں سے بدلے لے رہے تھے کہ اچانک ہمارے آیچ آر سے فون آیا اور حکم ہوا کہ تیاری پکڑ لیں بہت انجوائے کرلیا اب کورونا کی تقریب رونمائی ضروری ہے سو ٹیسٹ ہوگا۔

لیکن اب ایسا کیسے جناب اب ہمارا کورونا ہماری مرضی  چلے گی۔  ہم نے صاف جواب دیا کہ آج رات تو بالکل نہیں کرائیں گے کل جمعے کا مبارک دن ہے کل کورونا کے متلاشی کو بھیجیں آج کی رات ہم اپنا کورونا  انجوائے کریں گے۔ کم سے کم آج تو ہم اپنے مرضی سے جیئں گے۔ یقین مانیں آج  پہلی بار ایچ آر کو اپنے سامنے مجبور دیکھ کر ہمیں کورونا کی طاقت کا اندازہ ہوا۔

ہم شام سے ہی اپنے کمرے میں اپنی مرضی سے جی رہے تھے جب دل چاہے بیڈ کے ایک سرے پر ،جب دل چاہے دوسرے سرے پر، تین چار بار تو بیڈ پر ہم جمع  ضرب کا نشان بھی بنا گئے۔ اپنی مرضی سے ٹی وی پر چینل بدل رہے ہیں اور ہر تھوڑی دیر بعد ہم اٹھتے بلب آف کرتے پھر اپنی مرضی سے آن کرتے ۔ آپ اندازے نہیں کرسکتے اس سب سے کتنی راحت مل رہی تھی۔ راحت سے یاد آیا ہمارے دوست شاہ صاحب کو نجانے کیوں اور کیسے علم ہوگیا کہ ہمیں کوئی کورونا نہیں ہم صرف آفس سے فرار کے لیے ڈرامہ کررہے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم سے پوچھا بھی کہ بخار اور کھانسی تو نہیں ہم نے بھی کورا جواب دیا میں نہیں بتاونگا اور فون کا گلہ دبا کر اپنی مرضی سے سوگئے۔

رات کسی پہر ہماری آنکھ کھلی چونکہ آج کی رات تو ہماری اپنی مرضی تھی سو آنکھ بھی بقلم خود  ہماری  ذاتی مرضی سے کھلی۔  دیکھا کہ سیل فون کی اسکرین جگمگا رہی ہے۔ ہمیں لگا کہ شاید کسی پرانی محبت کو رات کے اس پہر ہماری یاد آخر آ ہی گئی اور آج تو ہم کمرے میں اکیلے ہیں تو لمبی بات اور گندی بات کریں گے۔ ہم سیل فون کے طرف بڑھے۔ اسکرین پر جب نظروں کا فوکس اس قابل ہوا کہ  انگریزی حرف آر  سے شروع ہونے والے زنانہ اور مردانہ نام میں فرق کر سکیں تو ہمارے ہوش اڑ گئے اور ہم نے اس خوف سے فون ریسیو کرلیا کہ کہیں ہمارے ڈائریکٹر صاحب یہ نا دیکھ لیں کہ ہم ان کی کال دیکھنے کے بعد بھی وصول نہیں کررہے۔

یہ پہلا موقع تھا کہ کورونا کی صحبت بھی ابھی مکمل طور پر ہماری بے بسی ختم نہیں کرپائی۔ سو ہم نے فون کان سے لگایا اور جسم میں دستیاب تمام ترطاقت کے استعمال کے بعد بھی منہ سے جو ہیلو سر نکلا وہ تو ہمارے کانوں تک بھی نہیں پہنچ پایا۔ ہمیں اس لمحے ایسا  لگا جیسے کورونا اپنی اوقات پر آچکا اور وار پر وار کرنے لگا ہے۔ ہمارے ہونٹ تو ہل رہے تھے لیکن آواز غائب، گلہ خشک ہوکر کانٹا ہوگیا تھا ہمیں سانس آنا بند ہوئی۔ ہمیں اپنی آوازتک نہیں آرہی تھی اور دل کی دھک دھک اتنی زور سے ہونے لگی کہ فون کی دوسری طرف کی آواز بھی آنا بند ہوگئی تھی۔ ایسا لگنے لگا جس کچھ نادیدہ قوتیں ہمارے گرد جمع ہوں اور ہم نے تصور میں ہی کلمہ پڑھنا شروع کردیا۔جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :