
ہمارا کورونا اور لوگوں کا رویہ - قسط نمبر 3
جمعرات 16 اپریل 2020

حبیب رضوان
(جاری ہے)
اب ہم وائی فائی کو مطلوب پوزیشن پر بیٹھے تو فون کے ساتھ ساتھ ہمارے بھی حالات بہتر ہوتے چلے گئے۔ ڈائریکٹر صاحب چہکتے لہجے پوچھ رہے تھے کہ ہاں پارٹنر یہ کیا کرکے آئے ہوآفس میں ؟ ان کے لہجے میں چھپی خوشی سے ہمیں لگا کہ شاید شہر میں کورونا تک پہنچنے کی سب سے پہلے سعادت ہمارے آفس کو ملی اور یہ کریڈٹ بھی ڈائریکٹرصاحب کی ہی کامیابیوں میں شمار کیا جائے گا۔
ہمیں لگا جیسے صاحب کو ہمارے کورونا زدہ ہونے سے خوشی ہوئی ہو۔ لیکن جناب ہم بھی اذلی غلامانہ ذہن رکھتے ہیں سو ایک روشنی کی کرن نکال ہی لی کہ صاحب ہمارا حوصلہ بڑھانے کے لیے شفقت اور دوستانہ لہجہ اپنائے ہوئے ہیں ، خیال اچھا تھا تو اثرات بھی اچھے پڑے اور ہم نے افسانہ وصال سنانا شروع کیا۔ نجانے کیوں ان کو اس وصال کے کامل ہونے پر شدید شبہ تھا۔ ان کی باتوں سے ایسا لگا کہ ہم اس قابل ہی نہیں کہ کورونا ہمیں شرف ملاقات بخشے۔ ہمیں لگاجیسے ہم کورونا سے ملاقات کی نہیں کترینہ سے ملاقات کا افسانہ سنا رہے ہوں۔ اختتام پر صاحب نے دعویٰ کیا کہ لکھ کر رکھ لو تم سب دنیا والے مغالطے میں ہو اپنی جان پر ظلم کرنے والو غور کیوں نہیں کرتے۔ فون سے کافی حوصلہ ملا ہم نے ٹی وی آن کیا اور کجھور والے چینل سے پھر ہمسائے کے چینل پر آگئے جہاں کترینہ بھی ہمیں کورونا سے ڈرا رہی تھی یہ الگ بات کہ اب ہماری توجہ کترینہ کے الفاظ پر کم اور ہونٹوں پر زیادہ تھی۔ کیا یہ کم عجیب بات ہے کہ ہمیں صرف خوف اور مشکل میں خدا یاد آتا ہے اور باقی وقت ہم خود خدا بن جاتے ہیں ۔ انسان یاد دہانی کے لیے آئے مشکل اور خوف سے سبق کیوں نہیں سیکھتا۔ بجائے اپنی اصلاح کے ہم ہمارے اپنے ہاتھوں سے کمائے مشکلات اور خوف بھی خدا کے کھاتے میں ڈال کر اس سے پھر مٹانے کی فریاد کرتے ہیں ہر باراور بار بارکرتے ہیں۔ ایک بار اپنی اصلاح کرکے بھی دیکھ لیں اگر کامیابی نہ بھی ملی تو خدا موجود ہے۔ تو بھائیوں ہم کورونا اور کورونا ہماری سنگت میں ہنسی خوشی وقت گزار رہے تھے اب تک تو تعلقات دوستانہ تھے ۔ کورونا سے ہمارا کچھ بگڑا یا نہیں لیکن ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اب ہم کچھ بھی کرتے رہیں کوئی مائی کا لعل ہاتھ لگا کردکھائے۔ اب ہمیں کوئی یہ دھمکی بھی نہیں دے سکتا کہ ہاتھ لگا کر دکھاؤ کیونکہ اگر ہم نے لگا کر دکھا دیا تو پھر منہ چھپاتے پھرو گے صاحب۔ توہم کورونا کی مستی میں جھوم رہے تھے ، اپنی مرضی سے سو رہے تھے اور اپنی مرضی سے جاگ رہے تھے گھر میں نہ کوئی ہم سے موبائل فون چھین رہا تھا نہ ٹی وی کا ریموٹ آج کافی سالوں بعد مکمل آزادی کا احساس ہوا۔ اب ساری رات اور سارا دن موبائل فون صرف ہمارا تھا اور ہمیں یقین ہے کہ جب تک ہم کورونا کے ہیں یہ ہمارا ہی رہے گا۔ تو اب ہم کیوں خود کو روکے رکھیں ہم جی بھر کر ہر پوچھنے والے کو ضمیر اختر نقوی فارورڈ کرتے رہیں گے وصول کرنے والوں کا دل جلے یا کچھ اور، سانوں کی؟ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان میں سے بیشتر کو ہماری فکر نہیں اپنا خوف لاحق ہے اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کے لیے ہمارا کورونا خوشخبری ہو۔ کورونا کی سنگت میں اب تک کی اچھی بات یہ تھی کہ اب ہمارا اعتماد اس دوستی پر بڑھ چکا تھا ہمیں اب وہ معمول کی چھینک بھی نہیں آرہی تھی جو دن میں ایک دو بار آہی جاتی ہے نا وہ کھانسی آرہی تھی جو کبھی کبھار جان بوجھ کر بھی ہم کھانس لیتے تھے۔ سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق چل رہا تھا کہ ہمارے ایک دفتری بزرگ کا فون آیا یہ صاحب ہمیں دو وجوہات کی وجہ سے بھی عزیز ہیں ایک تو ہماری غلطیوں پر پانی پھیر دیتے ہیں اوردوسری وجہ ان کے ساتھ سیلفی بنا کر ہم لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں کہ ہماری مشاہد حسین سید سے دوستی ہے اور لوگ یقین بھی کرلیتے ہیں۔ تو جناب ہمارے ذاتی مشاہد حسین سید نے فون پر ہمیں حوصلہ دیا کہ ابے عجیب آدمی ہو ڈر کر گھر بھاگ گئے ذرا سا کورونا تم جیسے پٹھان کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ ان کی بات سن کر ہمارا خون بننا شروع ہی ہوا تھا کہ دوسرے جملے میں ہی تمام اعتماد کا خون خون کردیا کہنے لگے لیکن یار پاکستان میں تو کورونا سے پہلی شہادت ہی مردان کے ایک پٹھان کی ہوئی ہے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی بندہ یا تو حوصلہ بڑھائے یا جان سے ماردے لیکن اتنا ظلم کہ نہ مرنے دے اور نہ جینے۔ ہم تب سے ان کی باتوں سے کنفیوز بیٹھے فیصلہ نہیں کرپا رہے ہیں کہ پہلی بات پر اپنا خون بڑھایا جائے یا دوسری بات پر جلایا جائے۔ کافی سوچ و بچار کے بعد ہم اس نیتجے پر پہنچے کہ پہلی بات تو مفروضہ تھی اور دوسری بات مستند خبر تو ہم اپنا خون جلانے بیٹھ گئے۔ ابھی ہم خون جلا ہی رہے تھے کہ کورونا کے متلاشیوں کا پیغام آیا کہ یا تو ہمیں اپنے قرنطینہ آنے دیں یا آپ قرنطینہ پھلانگ کر ذرا باہر تشریف لائیں تاکہ ہم آپ کے کورونا کی نسل اور مسلک معلوم کرسکیں۔ اب ہم ان کا کورونا کیوں اپنے گھرلانے دیتے ہمارا لیے ہمارا اپنا کورونا کافی تھا۔ سو ہم کمرے سے نکل کر صحن تک آئے گھر والے بھاگ کر کمروں میں چھپ گئے اور اس چھپن چھپائی کے بعد ہم گھر سے باہر آئے اور ایک بار بھر معاشرے کو اس کا دیا ہوا لوٹانے لگے۔ ہرجگہ جہاں تین چار لوگ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے نظر آئے ان کے قریب جان بوجھ کر خوب کپڑے جھاڑے اور جھاڑتے جھاڑتے ہم ان اجنبیوں تک پہنچے۔ وہ جس حلیہ میں تھے شاید عام حالات میں ہم انہیں موبائل فون چھیننے والے سمجھ کر بھاگ جاتے لیکن اب تو ہمارے ساتھ ساتھ ہمارا موبائل فون بھی کورونا زدہ تھا تو محفوظ تھا تو اب گوری تجھے پھر ڈر کس کا۔ اتبدائی تبادلہ خیال کے بعد اپنی بدصورتی پر شرمندہ شخص نے بیگ سے کچھ آلات نکالے ہمارا خیال تھا کہ یہ ٹیسٹ جسم سے زرا خون نکال کر یا ناک میں ہلکے سے روئی پھیر کر کیا جائے گا جس میں زیادہ سے زیادہ ہمیں چھینک آئے گی اور بس ۔ لیکن نہیں جناب یہ اتنا بھی سہل نہیں تھا جتنا ہم نے جانا تھا۔ اس صاحب نے جب مطلوبہ آلات منتخب کیے تو اس میں سرفہرست کم سے کم ایک بارہ انچ کی سلاخ نما کوئی چیز تھی جس کے ایک سرے پر روئی لپیٹی گئی تھی۔ اب یہ دیکھ کر تو ماتھا ٹھنکا کہ ہمارے اعتماد نے مروا ہی دیا لیکن اب کیا کرتے پٹھان کی ایک زبان سو ہم نے اپنی ناک رضاکارانہ طور پر پیش کردی۔ اب جو چاہے اس کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ اس ظالم نے بھی نجانے کیوں ہمیں اپنی ازلی دشمن جانا اور سلاخ ناک کے راستے حلق تک پہنچا کر ہی دم لیا۔ بھائیوں بارہ انچ کی سلاخ ناک تک جاتے ہوئے تو ہم نے دیکھ لی تھی اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔ جاری ہے۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حبیب رضوان کے کالمز
-
کورونا اور اس کا آسان علاج ۔ آخری قسط
اتوار 19 اپریل 2020
-
ہمارا کورونا اور لوگوں کا رویہ - قسط نمبر 3
جمعرات 16 اپریل 2020
-
کورونا کے ساتھ ہماری زندگی کی پہلی رات۔ قسط 2
منگل 14 اپریل 2020
-
ہمیں کورونا کیوں اور کیسے ہوا؟ قسط ۔ 1
پیر 13 اپریل 2020
-
کرونا عالمی سازش، چشم کشا خفیہ رپورٹ
بدھ 8 اپریل 2020
-
دنیا کے بعد کورونا کیسا ہوگا؟
پیر 6 اپریل 2020
-
بھائیو! کورونا سے لڑنا نہیں ،ڈرنا ہے !
اتوار 5 اپریل 2020
حبیب رضوان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.