کورونا اور اس کا آسان علاج ۔ آخری قسط

اتوار 19 اپریل 2020

Habib Rizwan

حبیب رضوان

 صاحبو ! اگر آپ ہم سے پوچھیں  تو ہماری نظر میں کورونا بھگتنا آسان ہے لیکن اس کی آمد ،نسل اور مسلک معلوم کرنے کا شوق کافی مہنگا اور تکلیف دہ ہے۔ لوگوں کو کہتے سنا تھا کہ کچھ نہیں یار بس جیسے کان صاف کیے جاتے ہیں ایسی ہی چھوٹی سے سلاخ ناک میں گھوما کر کورونا کو روئی میں گھیر لیتے ہیں اور پھر لیب میں اس کا شجرہ نصب معلوم کیا جاتا ہے۔

لیکن یہ تمام باتیں شاید وہ کرتے ہیں جن کا ٹیسٹ ابھی ہوا ہی نہیں۔ بھائیوں کوئی چھوٹی سلاخ نہیں ہوتی کم سے کم بارہ انچ کی سلاخ نما کوئی چیز ہوتی ہے اور اس کے سرے پر ناک  کے سرنگ کی قطر سے بڑا روئی کا گولا ہوتا ہے جو ناک کے راستے کم سے کم حلق تک پہنچایا جاتا ہے۔ اور یہ کتنا تکلیف دے ہوتا ہے آپ اس سے اندازہ کریں کہ جب ہم نے اپنے دوست شمس عمران کو بتایا تو ان کا بے ساختہ تجزیہ یا تجربہ آشکار ہوا کہ حلق تک کوئی چیز پہنچانے کے اور بھی کئی راستے ہیں پھر ناک جیسی خطرناک اور درد ناک راہ کیوں اپنائی جائے۔

(جاری ہے)

  میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ  اس بات کی سزا ہے کہ بندے نے کورونا سے خفیہ طورپر منہ کالا کیوں کیا۔  اور اس درد کے بعد یاد رہے کہ کورونا سے لڑنا نہیں ڈرنا ہے۔ خیر تو صاحبو  جب یہ سلاخ روئی کے گولے سمیت ہماری ناک سے ہوتے ہوئے حلق تک پہنچی تو پھر چراغوں کی  روشنی نہیں رہی تو ہمیں نہیں پتا کہ جب یہ سلاخ  واپس باہر نکالی گئی تو کیا روئی کا گولا واپسی پر ساتھ تھا؟  یا اس روئی کے گولے میں کورونا بھی گھیرا جاچکا تھا یا نہیں؟  جب ہمارے چراغ روش ہوئے تو واردات مکمل ہوچکی تھی اور کرنے والوں نے ہمیں بائیں ہاتھ میں کورونا کی وصولی کی رسید تھما دی تھی۔

دائیں ہاتھ سے ہم اپنی ناک ڈھونڈ رہے تھے۔ تو ہم رسید اور اپنی ناک سنبھالے واپس قرنطینہ پہنچے بالکل ایسے ہی جیسے انڈوٕں پر بیٹھی مرغی کچھ وقت کے لیے اٹھ کر باہر آتی ہے اور پھر واپس چلی جاتی ہے۔ سوہم اپنی ریاست آچکے تھے اور ایک بار پھر ہمارا کورونا ہماری مرضی کا آئین ہمارے کمرے میں بحال ہوچکا تھا۔ کمرے پہنچنے پر ہم نے اپنی ریاست کا فضائی جائزہ لیا کہ کہیں ہماری غیرموجودگی میں بیرونی عناصر نے کوئی کارروائی نہ کردی ہو لیکن اطمینان ہوا کہ ابھی اس امت میں خوف کی فضا قائم ہے۔

اور ہمیں یقین ہے کہ یہ خوف کی فضا تب تک قائم رہے گی جب تک  ہمارا خوف اپنی سمت ٹھیک نہیں کرلیتا۔ کیا انسان کے لیے بہتر نہیں کہ وہ اس ذات سے خوف کھائے جس سے خوف کے بعد ہر خوف اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔ کیا ہر چیز سے خوف زدہ ہوکر بار بار مرنے سے بہتر نہیں کہ انسان اپنی اصل کی طرف پلٹ جائے اور زندگی پالے۔ کیا ہمیں یہ فکر ہے کہ اب اگر ہم پلٹیں گے تو وہ قبول نہیں کرے گا واپس بھیج دے گا۔

تو انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے کبھی کسی کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا کبھی کسی کو واپس نہیں بھیجا ۔ اگر اس نے واپس بھیجنا ہی ہے  تو کیا ہماری یہ امید منافقت نہیں کہ  ہم اس مشکل سے گزر جائیں گے۔ میرا ایمان ہے کہ وہ ہمارے پلٹنے کا ہماری واپسی کا انتظار کررہا ہے لیکن ہم اپنے حساب کتاب میں اتنا الجھ چکے ہیں کہ ہمیں آسان سے بات سمجھ نہیں آتی اور مشکل ہم سمجھنا نہیں چاہتے ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے اس کا انتظار بڑھتا ہی جاتا ہے۔

  انتظار کا کرب کیا ہوتا ہے مجھ سےیا میرے کولیگ سے زیادہ کون جانتا ہوگا جب سے وہ نقاب پوش میرا نوزائیدہ کورونا لے کر گئے ہیں ہم سب بیتابی سے انتظار کی سولی پر الٹے لٹکے ہوئے ہیں۔ مجھے تو اپنے کورونا کی نسل اور مسلک کا معلوم کرنا ہے صرف یہ خدشہ ہے کہ کم نسل یا مخالف مسلک کانہ ہو۔ لیکن میرے دوستوں اور مجھے سے بار بار پوچھنے والوں کا کرب تو مجھ سے بھی زیادہ ہے ان بیچاروں کو اس اندیشے کا بھی سامنے ہے کہ میرے بعد ان کی ناک کے راستے بھی سلاخ حلق تک جانے کا مرحلہ آسکتا ہے۔

کچھ تو یہ سوچ ویسے ہی تکلیف دہ ہے اور کچھ میں نے خوب مبالغہ آرائی کرکے درد کو سوا کردیا اور اس حد تک کردیا کہ ایک دو کو تو میں جانتا ہوں اگر ان پر یہ وقت آیا تو ناک کے سوا تمام راستے حلق تک پہنچنے کے لیے از خود کھول چکے ہوں گے۔  جب سے میرا مبینہ نومولود کورونا لیب پہنچا ہے ہر طرف سے بس ایک ہی بات پوچھی جارہی ہے کہ کیا نکلا۔ ارے بھائی میں حلفاً کہتا ہوں کہ سلاخ کی واپسی پر چراغ روشن  نہ تھے میں کچھ نہیں دیکھ سکا کہ کیا نکلا ، کس نسل اور کس سائز کا کورونا نکلا تھا۔

سب کی طرح میں بھی انتظار میں ہوٕں بس فرق صرف اتنا ہے کہ میں دوسروں پر یہ ظاہر کرنے میں کامیاب ہوچکا ہوں کہ جیسے میں کچھ جانتا ہوں اور ان کو نہیں بتارہا۔ اب لے دے کر ان پر ظلم کرنے کا اس کے سوا میرے پاس دوسرا کوئی ذریعہ نہیں تو بھائیوں تب تک برداشت کرنا ہوگا۔ کرتے رہیں فون اور میسج میرا جواب فقط وہی محترم ضمیر اخترنقوی کی زبانی۔ میں خود اتنی بار لیب والوں سے اپنے کورونا کا پوچھ چکا ہوں کہ اب اندیشہ ہے کہ اگر میں نے مزید ایک بار بھی ان سے پوچھا تو وہ بغیر کچھ بتائے میرے مبینہ کورونا کو جان سے ہی نہ مار دیں۔

ویسے ان بار بار پوچھنے والوں میں سب سے دلچسپ مکالمہ ہمارے بابا رحمتے کا ہوتا ہے فون کرکے پوچھتے ہیں ہاں بھائی کیا ہوا ؟ میں ضمیر اختر صاحب کی ریکارڈنگ چلا دیتاہوں پھر کہتے ہیں اچھا ٹھیک ہے جب کچھ ہو جائے تو تم خود بتا دینا بلکہ واٹس ایپ کردینا میں بار بار فون کرکے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا۔ میرے موبائل فون کا رکارڈ گواہ  ہے کورونا کے بعد سے اب تک یہ انتہائی سینئیر صاحب دس سے بارہ مرتبہ فون کرکے یہ بات کہ چکے ہیں۔

دوسرے ہمارے دوست شیخ صاحب جن کو خود دو ہفتوں سے کھانسی ہے بیچارے بہت ڈرے ہوئے ہیں کیونکہ ان کو اچھی طرح علم ہے کہ میرے بعد کسی کی ناک نشانہ بنے یا نہ بنے ان کے بچنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہم نے تو ان کو دھمکی بھی دی ہے کہ ہم دفتر انتظامیہ کو بتائیں گے کہ  شیخ صاحب سے آخری ملاقات کے بعد سے ہی ہماری طبعیت میں کچھ سستی سے آچکی تھی۔

تو صاحبو ہم نے کورونا کی آمد اور نسل کی معلومات ملنے کے بعد کا تمام پلان انہائی عرق ریزی سے ترتیب دے دیا تھا ۔ ہم فہرست بھی مرتب کرچکے تھے کہ کس کس کی ناک کھلوانی ہے۔ ابھی ہم اس فہرست پر نظر ثانی کر ہی رہے تھے کہ ہمارے اکلوتے سیل فون کی اسکرین دھیمے سے روشن ہوئی۔ چیک کیا تو لیب والوں کا خفیہ میسج تھا جس کے ذریعے ہم اپنے  کورونا کی دریافت یا نسل اور مسلک کی آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔

اب ہمارے دل کی دھڑکن اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ کسی بھی وقت رنگ پسٹن ساتھ چھوڑ دیں اور سیلنسر سے دھواں خارج ہو۔ ہم نے کانپتے ہاتھوں سے سیل فون اٹھایا انہتائی رازداری سے خفیہ پیغام پر عمل کرکے مطلوبہ مقام تک پہنچے۔ مختلف قسم کے کوڈ ڈالے بار بار ڈالے لیکن ناکام رہے ۔ یقین مانیں  انتہائی احتیاط کے باوجود کوڈ بار بار غلط ڈل رہے تھے وجہ ہمیں نہیں پتا لیکن ہم نمبر ایک دباتے اور اسکرین پر دوسرا نظر آتا سو کافی مرتبہ کی کوشش کے باوجود اس اطلاع تک رسائی ملتے ملتے رہ جاتی۔

پھر ہم نے سیل فون ایک طرف رکھا۔ چار مرتبہ آیتہ الکرسی پڑھی ایک لمبی سانس اندر کھینچی پھر خیال آیا کہ حلق میں کورونا ہے  اندر کہیں زیادہ دور نہ چلا جائے پھر کہاں ڈھونڈتے پھریں گے تو فوراً سانس واپس خارج کی اور ایک بار پھر خفیہ میسج کے مطابق آگے بڑھے اس بار کامیاب ہوئے اور اب ہم ہمارے اور کورونا کے وصال کی کہانی پڑھ رہے تھے بڑی مشکل سے آنکھیں ساتھ دے رہی تھی کہ اچانک ہم پر یہ راز کھلا کہ ہماری تمام پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی۔ ہماری تمام سازشیں ناکام ہوئیں۔ اب ہمیں پھر آفس جا کر مزدوری کرنا ہوگی اب پھر وہی صبح شام  باس کے مواصلاتی کوسنے ، اس سے تو بہتر تھا کورونا ہوجاتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :