ہمیں کورونا کیوں اور کیسے ہوا؟ قسط ۔ 1

پیر 13 اپریل 2020

Habib Rizwan

حبیب رضوان

وہ جمعرات کا دن تھا ویسے ہی جیسے اس سے پچھلے جمعرات آتے رہے۔ ہم گھر سے آفس کے لیے نکلے ۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ آج بھی سڑک پر لاک  ڈاؤن کے باجود عوام کا ریلا دھیرے دھیرے سرک رہا تھا اس جم غفیر میں ہے اپنی چھوٹی سے موٹربائیک بچتے بچاتے نکلتے رہے اور پھر انہیں سڑکوں سے گزرتے جہاں سالوں کی ریاضت کے بعد ہمیں سڑک کا ہر اسپیڈ بریکر ہر گڑھا ازبر ہوچکا ہے آفس پہنچے۔

روز کی طرح ہم نے آفس کی پارکنگ میں انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنی موٹربائیک دیگر گاڑیوں سے زرا فاصلے پر پارک کی تاکہ کسی کورونا زدہ بائیک یا گاڑی  سے ہماری اکلوتی موٹرسائیکل متاثر نہ ہوجائے۔ اور پھر احتیاط کے ساتھ دبے پاؤں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں سے بچتے بچاتے ہم پارکنگ سے نکلے۔

(جاری ہے)

سب کچھ معمول کے مطابق تھا  اتنا معمول کے مطابق تھا کہ پارکنگ کے باہر آج بھی وہ کتا روز کی طرح موجود تھا جو پارکنگ سے آفس کے مرکزی دروازے تک روز ہمارا پیچھے کرتا ہے۔

وہ آج بھی ہمیں ان ہی کینہ پرور نظروں سے دیکھ رہا تھا اور ہمیں اسے۔ پتا نہیں کیوں اس کتے کے بچے کو لگتا ہے کہ ہم نے کھبی اس کی دم پر جان بوجھ کر گاڑی کا ٹائر گزارا تھا یہ تب سے ہمیں کاٹنے کا موقع ڈھونڈ رہا ہے سو آج بھی روز کی طرح کتے ہم پر اور ہم کتے پر نظریں جمائے آفس کے مرکزی دورازے پرپہنچے اور پھر روز کی طرح آج بھی  کتا ناکام اور ہم کامیاب ہوئے ۔

مرکزی دروازے پر ہی گائنی وارڈز کے عملے والا لباس پہنے شخص نے ہمارے ماتھے پر عجیب قسم کی پستول لگائی  معمول کے مطابق ہمارے ماتھے پر کورونا کی آمد سے متعلق آثار دیکھے  اور اعلان کیا کہ ابھی آمد باقی ہے۔ معمول کی طرح ہم لفٹ سے اپنے مطلوبہ فلور پہنچے اور ٹھیک چلر سسٹم کے نکاسی کے نیچے موجود اپنی نشست پر تشریف فرما ہوئے۔ ساتھ ہی ہمارے ہردلعزیز دوست بھی بھی گائنی وارڈ کی نرسوں والے حلیے میں موجود تھے روز کی طرح۔

بھائیوں اب ذرا دل تھام کر سنیے یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہماری درد ناک اور شرمناک کہانی شروع ہوتی ہے۔  ابھی ہم نے اپنی سیٹ پر سکون کے سو سے کچھ کم سانس لیے ہی ہوں گے کہ ہمیں لگا ہمارے سر مبارک میں درد ہورہا ہے اور یقین مانیں جب بھی ہمیں لگتا ہے کہ کندھوں کے درمیان موجود اس چیز میں درد ہورہا ہے تو واقعی ہوجاتا ہے۔ سو ہمیں لگتا ہے کہ ہم بہت ہی پہنچے ہوئے بزرگ بننے والے ہیں بہت جلد۔

تو جب ہمیں لگا کہ سرمبارک میں درد ہورہا ہے تو واقعی درد شروع ہوا پھر ہمیں لگا کہ ہمیں بخار بھی ہورہاہے تو ہونے لگا اور پھر ہمیں کورونا یاد آیا اور اس یاد سے جسم بے جان ہونے لگا۔ پہلے تو ایک بیہودہ خیال آیا کہ چپ چاپ آفس میں ہی پڑے رہیں اور، لیکن پھر سوچا ان بیچاروں کی تو تنخواہ بھی نہیں آرہی۔ تو ہم نے ساتھ والے میٹرنٹی وارڈ کی نرس بنی دوست سے کہا کہ ہم نیچے جاکر کورونا کی آمد چیک کراتے ہیں۔

اس نے عجیب سے نظروں سے ہمیں دیکھا اور پھر دیکھتارہا دیکھتا رہا تب تک دیکھتا رہا جب تک ہم آفس سے نکل نہ گئے یا شاید اس کے بعد بھی دیکھتا رہا لوگ بتاتے ہیں کہ کافی لمبا مراقبہ تھا۔ ہم پھر ریسیپشن پر پہہنچے اور روایات کے برخلاف  اس بار آفس سے واپسی پر بھی ہم نے عجیب سی پستول تھامے شخص کو اپنا ماتھا پیش کیا۔ اس نے ماتھے پر گن رکھی اورکچھ لمحوں بعد گن کی ٹیں ٹوں سے بھی پہلے  باآواز بلند اعلان فرمایا ٹیمپرچر زیادہ ہے۔

یقین مانیں اس اعلان کے ساتھ ہی وہاں ہرچیز ساکت ہوگئی۔ گھڑیوں کی سوئیاں رک گئیں، باہر پرندے اور اندر مکھیاں مچھر ہوا میں معلق ہوگئے، ریسپشن پر موجود افرادکی آنکھیں ، منہ اور نجانے کیا کچھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ کچھ لمحے وقت رکا رہا اور پھرمنظر میں دھیرے دھیرے حرکت آئی لوگ سرکنے لگے۔  ایک گارڈ نے تو حد ہی کردی جب کچھ نہ بن سکا تو آگ بجھانے کے لیے دیوار پر ٹنگا سلینڈر اتار لایا اور ڈس انفیکٹ کرنے کے لیے ہم پر اسپرے کردیا ظالم اس وقت تک کرتا رہا جب تک اس سلنڈر میں جان رہی ۔

اب جب دھواں ختم ہوا تو چشم فلک نے وہ منظربھی دیکھا جب ہم ایک ہاتھ اٹھائے درمیان میں کھڑے تھے اور چاروں طرف لوگ زمین پر لیٹے کن انکھیوں سے ہمارے طرف دیکھ رہے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے بھری مارکیٹ میں اچانک لوگوں کو خودکش حملہ آور کا پتا چل جائے ۔ یا پھر بھارتی فلموں میں جب لوگ دیوتا یا دیوی کا اوتار دیکھ کر زمین پر لیٹ جاتے ہیں۔ اب ہم اوتار بنے درمیان میں کھڑے تھے اور باقی لوگ زمین پر لیٹے چھپ چھپ کر رحم طلب نظروں سے ہمیں دیکھ رہا ہے اوران سب سمیت گیٹ کے باہر وہ کتا بھی۔

ہم کچھ لمحے تو اس سب سے لطف اندوز ہوتے رہے پھرکچھ افراد کے ہاتھوں میں ڈنڈے دیکھ کر ایک فاتح کی طرح ہم باہر تشریف لیجانے کے لیے مرکزی دروازے کی طرف بڑھے۔ ہم جیسے ہی دروازے سے باہر نکلے ہم نے اس کتے کی آنکھوں میں وہ خوف دیکھا کہ خدا کی پناہ۔ اس کتے نے ہمیں باہرآتا دیکھتے ہی دم دباکر دوڑ لگادی  جوروز ہمیں پارکنگ چھوڑ آتا تھا۔ پارکنگ کی طرف جاتے ہوئے ہمارے ذہن میں ایک شیطانی خیال آیا اور ہم نے اپنی دستیات تمام جیبوں سے چھوٹے چھوٹے نوٹ اکٹھے کیے۔

خوب اپنے ہاتھوں میں مسل کر اپنے پورے جسم پر پھیرے اور اسی پر ہی بس نہیں کیا ہم نے ان نوٹوں پر تھوک کی پچکاری بھی ماری ۔ پھر ہم نے یہ نوٹ راہ ملتے تمام بھکاریوں میں جا جا کر تقسیم کیے اور اس تقسیم کے دوران ہم کوشش کرتے رہے جہاں موقع ملے ان کے سرپر دست شفقت بھی پھیرتے جائیں۔ آپ کیوں اتنا حیران اور پریشان ہورہے ہیں وہی تو کررہا ہوں جو آپ کررہے ہیں۔

ویسے بھی سیانے کہتے ہیں کہ معاشرہ ہمیں وہی واپس دیتا ہے جو ہم اسے دیتے ہیں تو بھائی مجھے بھی تو یہ کورونا اس معاشرے نے ہی دیا تھا اپنے ساتھ ماں کے پیٹ سے تھوڑی لایا تھا۔ صاحبو میں تو اپنی سمت کا تعین کرچکا تھا اب مجھےاپنے منصوبے کے مطابق معاشرے کو بھرپور ادائیگی کرنا تھی۔  اس سے پہلے کہ ہمارے کورونا کی اطلاع شہر کو ہوتی ہم نے پارکنگ سے اپنی بائیک لی اور خلاف معمول مرکزی سڑک پر آنے کے ہم نے گلیوں کا رخ کیا۔

ان گلیوں میں موجود ہر شخص سے ٹائم کیا ہوا ہے بھائی کا سوال کرکے کندھے پر ہاتھ ضرور رکھا  ایک دو جگہ تو لڈو اور تاش کھیلنے والوں پر ہم جان بوجھ کر بھی گرے اور جو ہمارے گرنے پر بھی زد میں نہیں آئے  معافی مانگنے کی آڑ میں ان  تک پہنچے۔ معاشرے کو اس ادائیگی کے دوران ہم اہداف کی فہرست ذہن میں مرتب کرتے رہے۔ فہرست میں سب سے پہلا نام ہمارے دوست ملک صاحب کا تھا  گھر واپسی کے دوران  سوچ لیا تھا کہ ملک صاحب کو آج ہم گلے لگائیں گے ویسے تو روز چاہے رات ہو یا دن ہم چاہیں یا نہ چاہیں ملک صاحب ہمیں سڑک پرنظر آجاتے ہیں اور چھلانگ لگا کر ہم سڑک کے بیچوں بیچ روک کرزبردستی گلے لگاتے ہیں لیکن آج وہ نہیں تھے۔

باوجود تلاش کے ملک صاحب نہیں ملے۔اس تلاش کے دوران ہم  اپنے بچپن کے دوست بچوں کے شارخ خان کے گھر کے قریب پہنچے۔ اس پیدائیشی عاشق کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود بھی اس کو ہر بار ہر واقعے اور حادثے میں خاتون ہی مظلوم دکھتی ہے کیوں کہ وہ دکھتی ہے اور جب بھی دکھتی ہے آنکھوں کے راستے دل میں اتر جاتی ہے پھر منہ کے راستے آہوں میں نکل جاتی ہے اور پھر کوئی دوسری دکھ جاتی ہے ۔

بچپن کا یہ دوست مجھے بہت عزیز ہے اورمیں نہیں چاہتا کہ میرے بعد دنیا اسے ستائے لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ اس کا گھر تیسرے فلور پر تھا جہاں جانے کی ہماری ہمت نہیں تھی۔ ہم نے فون ملایا تو بند ملا ۔ ہم بلڈنگ کے نیچے چھپ کر کافی دیر کھڑے رہے انتظار کرتے رہے کہ یہ نیچے آئے اور ہم چمٹ جائیں۔ اس ناکامی کے بعد بھی ہم نے ہمت نہیں ہاری راستے بھر لوگوں رک رک کر ٹائم پوچھتے رہے اور اپنے محلے پہنچے جہاں  ہم ہر اس شخص سے حال احوال پوچھنے رکتے رہے جن سے کبھی ہم نے عید پر بھی بات نہیں کی تھی۔

محلے کی ہر دکان اور کیبن والے سے ہم نے انتہائی خوش اخلاقی سے حال احوال پوچھا اور ان کو حیران و پریشان چھوڑ کر آگے بڑھے تو دیکھا کہ گلی میں چند کلو گرام کا امیتابھ بچن زیگ زیگ بناتا جارہا ہے۔ دنیا سے ناراض اس شخص کی تمام ریسرچ اس پر ہے کہ دنیا میں ہرطرف صرف خامیاں ہی کیوں ہیں؟ اس کو سمندر میں مچھلیوں پربھی یہ اعتراض ہے کہ یہ مچھلیاں نہانے کے لیے زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں۔

  یہ دنیا میں کسی سے راضی نہیں اور اس کا والد راضی ہے سو اس کو دیکھ کر تو خوشی سے ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے اب ہم اس اینگری ینگ مین کو کیسے جانے دے سکتے تھے سو چپکے سے آنکھیں پونچھیں اور آواز دی اے میرے دوست  ذرا دیر کو رک جا ، اور یقین مانیں وہ رک بھی گیا بس پھر کیا ہم نے خوب دل کھول کر آخری ملاقات کرلی۔ وہ یہ گیان آگے پہنچانے چل پڑا اور ہم نے اپنے گھر کی راہ لی۔

گھر پہنچے بغیرکسی آواز کے بائیک  ٹھکانے لگائی اور دبے پاؤں اپنے کمرے کی جانب بڑھے چہرے پر مسکراہٹ سجائے  سیدھا دشمن جان سے بغلگیر ہوئے ابھی ہم فرنچ کس کے ارادے پر عمل کرنے ہی والے تھے کہ نجانے کیسے اس عورت کو ہمارے مذموم ارادوں کا الہام ہوا یا شاید ہمارا کورونا آنکھوں میں اترا دیکھا  ظالم عورت نے اتنے زور سے دھکا دیا کہ  ہمارا سر مبارک بیڈ کے سرہانے سے بوس و کنار ہوا اور اس زور سے ہوا کہ پھر نہ درد رہا نہ سر رہا بس روشنی مدہم مدہم ہوتے بجھ گئی۔ جاری ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :