کرونا عالمی سازش، چشم کشا خفیہ رپورٹ‎

بدھ 8 اپریل 2020

Habib Rizwan

حبیب رضوان

 دنیا جہاں کورونا وائرس سے لڑ رہی ہے وہاں عالمی سطح  اس بات پر بھی غور ہورہا ہے کہ یہ معاملہ ہے کیا؟ کیا کورونا کوئی وبا ہے؟  کسی ان دیکھی طاقتوں کا حملہ ہے؟  کورونا وائرس قدرتی ہے یا انسانی کارستانی ؟ کوئی حتمی بات سامنے نہیں آرہی تھی اتبدائی معلومات کے مطابق چین جہاں اس وائرس کا ظہور ہوا وہاں بھی سائنسدان اس کا  ابتدائی سرا تلاش کررہے ہیں۔

لیکن اب  این ڈی ایس کی رپورٹ سے  یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ کورونا وائرس  بہت بڑی سازش ہے۔ ہم تو ایک سو اسی سال سے دنیا کو چیخ چیخ کر اس سازش سے خبردار کررہے تھے لیکن نقارخانے میں توتے کی آواز کون سنتا ہے۔ اب اس رپورٹ کے بعد تو دنیا کی آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ دنیا کی انتہائی تیز اور بااثر خفیہ ایجنسی این ڈی ایس نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس یا کووڈ 19 کی سازش کی تانے بانے آج سے ایک سو دس سال پہلے بنے گئے تھے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق سازش میں کارفرما  یہود اور ہنود کی عالمی طاقتیں یہ بات جانتی تھی کہ اگر دنیا میں خوف کی فضا قائم نہیں کی گئی تو ان کا ایجنڈا مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ اس سازش کی ابتدا تل ابیب کے ایک تاریک غار سے ہوتی ہے جہاں اس وقت کے انتہائی بااثر سات کا ٹولہ اپنے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے سرجوڑے بیٹھے تھے مختلف تجاویز تھیں جن پر غور کیا گیا اور پھر اس غور و فکر کے بعد دنیا پر حملے کے لیے سائنس کو استعمال کرنے کا فیصلہ گیا گیا۔

مختلف وائرسز میں کورونا کا انتخاب کیا گیا۔ اس اجلاس کے بعد یہ گروپ انتہائی خاموشی سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے خاطر سلیپنگ سیلز تیار کرنے میں لگ گیا اور دنیا کے مختلف ممالک میں سیکڑوں لوگ چنے گئے۔ پھر مختلف اوقات میں ان سلیپنگ سیلز کی ٹریننگ انتہائی خفیہ انداز میں کی گئی ۔ رپورٹ کے مطابق اس خفیہ گروپ کے سلیپنگ سیلز دنیا کے دوسو پچھتر سے زائد ممالک میں بنائے گئے۔

رپورٹ میں سنسکرت زبان میں لکھے کچھ صفحات کا حوالہ دے کر یہ بھی بتایا گیا کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی سازش نہیں اس سے پہلے بھی یہ گروپ متواتر دنیا پر مہلک وائرسوں سے حملوں کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ماضی میں  بھی دنیا کے مختلف ممالک میں طاعون سے لیکر سارس، ایبولا اور چکن گونیا تک مختلف وبائی امراض پھیلائے گئے۔ خفیہ رپورٹ میں کے مطابق ان کی حالیہ سازش انتہائی مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔

اس خفیہ گروپ نے پاکستان، افغانستان اور ایران سمیت دنیا کے تمام ممالک میں اس خفیہ طریقے سے سیپلنگ سیلز بنائے اور ٹریننگ دی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ رپورت پر برسوں سے کام کرنے والے ایک خفیہ اہلکار نے بتایا کہ دنیا پر اس حملے کےلیے درکار فنڈز کے حصول کے لیے کوششیں بہت پہلے سے شروع کردی گئی تھیں۔ تل ابیب میں بنائے گئے پلان میں انتہائی تفصیل سے فنڈنگ کے ذرائع  اور طریقہ کار پر غور کیا گیا تھا۔

اور پھر پلان کے مطابق ہی ماضی میں دنیا کے مختلف حصوں میں وائرس سے حملہ کیا گیا اور پھر ویکسین کے حصول کے لیے دنیا کو بلیک میل کیا گیا۔ مختلف اوقات میں ویکسینز یا ادویات کے نام پر بڑے بڑے فنڈز جمع کیے گئے۔ عالمی سطح پر مختلف تنظیمیں بنائی گئیں تاکہ یہ رقم ان کے اکاونٹس میں محفوظ کی جاسکے۔ رپورٹ میں خدشے ظاہر کیا گیا ہے کہ کہ خفیہ گروپ کے درکار فنڈنگ کا مرحلہ ایک صدی پہلے مکمل ہوچکا تھا۔

جس کےبعد ان سات بااثر افراد کی ایک انتہائی خفیہ میٹنگ کال کی گئی جس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ اب دنیا کو اس مہلک حملے کا نشانے بنانے کا وقت آگیا۔ جس کے بعد دنیا بھر کے ممالک میں موجود سلیپنگ سیلز کو متحرک کرنا شروع کیا گیا۔ خفیہ ایجنسی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا پر اس حملے کی اتبدا چین سے نہیں پاکستان ، ایران یا افغانستان سے ہی ہونی تھی لیکن پلاننگ کرنے والوں کو کسی طریقے سے معلوم ہوگیا تھا کہ ان کی خفیہ میٹنگز اور پلان کا کچھ حد تک دنیا کو پتا چل چکا ہے۔

این ڈی ایس کے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس خفیہ رپورٹ کے حصول کے دوران ان کا ایک ایجنٹ تاحال لاپتہ ہے اور شبہ ہے کہ اس ایجنٹ کے ذریعے ہی سازش کرنے والوں کو رپورٹ کے لیک ہونے کاشک ہوا ہے۔  اس شک کو بنیاد بنا کر حملے کی ابتدا چین میں ووہان سے کی گئی۔ حملے کے لیے وہاں موجود سلیپنگ سیلز کو انتہائی خفیہ طریقے سے متحرک کیا گیا۔ ان افراد کو خاص ٹریننگ دی گئی تھی کہ اگر یہ اپنے جسم میں یہ وائرس منتقل کریں گے تو بھی ان کو کچھ نہیں ہوگا یہ صرف ایک کیئریر کے طور پر استعمال ہوں گے۔

ووہان کے سلیپنگ سیلز کو رازداری کے ساتھ وائرس پہنچایا گیا اور پھر ان کے ذریعے یہ وائرس شہر میں پھیلنے لگا اور یہی  یہ اس حملے کی ابتدا  تھی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سازش بنانے والوں کو علم تھا کہ تمام افراد ان کیئریر کے ذریعے اس وائرس کا نشانہ  شاید نہ بن سکیں اس لیے اس کے ساتھ ہی  زہر سے آلودہ ماسک کا آپشن بھی زیر غور رکھا گیا۔

پلاننگ کرنے والوں کا واضح مقصد ہے کہ اگر ان سلیپنگ سیلز سے کوئی بچ جائے تو آلودہ ماسک کے ذریعے ان افراد کو آسانی سے نشانا بنایا جائے۔ رپورٹ میں دنیا کے لیے تشویشناک بات یہ بھی  ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ اس وقت پوری دنیا میں استعمال ہونے والے  الکوحل سے بنے سینیٹائزرز اور صابن کیا مکمل طور پر اس وائرس سے پاک ہیں؟ این ڈی ایس کی رپورٹ میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ اس حملے کے لیے خوف کی فضا پہلے سے تیار کرلی گئی تھی ۔

مختلف ٹی وی کمرشل میں جراثیموں کا ذکر ، فلموں میں مختلف کیمیائی ہتھیار اور اجسام ، ڈراموں اور کہانیوں میں عجیب و غریب مخلوقات کا ذکر کرکے دنیا بھر میں لوگوں کو خوف زدہ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق جہاں عام میڈیا پر خوف پھیلا کر راہ ہموار کی گئی وہاں سوشل میڈیا پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور اس کے لیے کروڑ افراد تیار کیے گئے  جو اس وقت  سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خوف انسانی ذہن میں منتقل کررہے ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسمارٹ فون بنانے اور دنیا میں عام کرنے کے پیچھے بھی اس سات کے ٹولے کی ذہنی کارستانی ہے ان کو علم تھا کہ اسمارٹ فون کے ذریعے خوف کو دنیا تک پہنچانا آسان تر ہوجائے گا اور اب اس سوچ کے تحت واٹس ایپ ، انسٹا گرام ، ٹویٹر، ٹک ٹاک سمیت مختلف سافٹ وائیرز کے ذریعے کورونا سے خوفزدہ کرنے کے لیے بنے بنائے گئے میسجز پھیلائے جارہے ہیں اور ان میسجز کے پھیلانے میں  موبائل فون کمپنیاں بھی برابر ان کی معاونت کررہی ہیں۔

اس خوف کے پھیلانے کا مقصد دنیا کے اربوں لوگوں کے ذہن میں ڈر پیدا کرکے انسانی کے اندرونی مدافعتی نظام کو متاثر کرنا تھا۔ یہ جانتے تھے کہ اگر اندرونی مدافعتی نظام کو کمزور کردیا جائے تو پھر خوف کا شکار انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے اور یہی ان کی کامیابی کا راستہ ہوگا۔ خفیہ ایجنسی کی لیک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انسان کو خوفزدہ کرنے کے لیے کہانیوں میں نا صرف کیمیائی ہتھیار متعارف کرائے گئے بلکہ ایٹمی دھماکوں کی تباہ کاریوں کے اعداد و شمار میں بھی مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا۔

رپورٹ میں امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم کے کورونا وائرس  سے خوفزدگی کی وجہ بھی اس پلان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ پر کام کرنے والے تجزیہ کاروں  کا ماننا ہے کہ  امریکی صدر نے پہلے پہل اس وائرس کو سنجیدہ نہیں لیا تھا جس سے دنیا میں خوف کم ہوا  اس سے  پلاننگ کرنے والو کو تشویش ہوئی۔ پاکستان میں برطانوی وزیراعظم کی موت کی جھوٹی اطلاع پھیلانے کا مقصد بھی اس خوف کو بڑھانا تھا۔

رپورٹ میں حالیہ چند ماہ میں دنیا بھر کے ممالک میں نشر ہونے والے ڈراموں اور فلموں کا جائزہ لیا گیا۔ دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کے ذریعے مکمل کیے گئے اس جائزے میں انکشاف ہوا ہے کہ جن مملک میں یہ وائرس پھیلانے کی سازش کی گئی تھی وہاں اس صدی میں جان بوجھ کر ایسے ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں جس میں اس وائرس کے شکار افراد کو مرتے دکھایا گیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان ڈراموں اور فلموں میں اس وائرس سے مرنے والے سین پر خصوصی توجہ دی گئی اس میں موت کی شدت اس حد تک بڑھائی گئی کہ دیکھنے والے کو انتہائی دردناک موت محسوس ہو اور اس طرح ذہن میں خوف سرائیت کرجائے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مہوش کے سابق شوہر دانش کی موت کا منظر بھی اس سازش کا ہی حصہ ہے۔ دانش کی موت کا منظر دنیا بھر کے ڈاکٹرز کو دکھایا گیا ماہرین کا ماننا ہے کہ جو تاثرات اور علامات دانش میں مرتے وقت پائی گئیں یہ دل کے دورے سے مرنے والے میں نہیں وائرس سے مرنے والے میں پائی جاتی ہیں ۔

اس مشاہدے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ دانش دروازے کی طرف منہ کرکے کہتا ہے کہ اسے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے جبکہ دروازے کے باہر کوئی ائرکنڈیشنر بھی نہیں ہوتا۔ اس سین میں صرف وائرس والی بات جان بوجھ کر ظاہر نہیں کی گئی دیکھنے والوں کو بتایا گیا کہ یہ موت دل کا دورہ پڑنے سے واقع ہوئی جب کہ دانش کی موت کی اصل وجہ  کرو  نا  ہی بنتی ہے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ڈرامے کے اس  سین میں جہاں گھر میں مہوش اکیلی تھی شہوار کے آنے کا بھی کوئی چانس نہ تھا اور مونٹی نے بھی فل پرائیسویسی  فراہم کردی تھی تو  پھر آخر دانش کو کیا موت پڑی تھی کہ مرگیا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :