پیر سید زاہد صدیق شاہ بخاری ایک عہد ساز شخصیت

جمعہ 25 ستمبر 2020

Hafiz Abdul Sattar

حافظ عبدالستار

خدا کرے نہ ڈھلے دھوپ تیرے چہرہ کی
تمام عمر تری زندگی کی شام نہ ہو
دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو کامل طرز حیات رکھتی ہیں۔ جن کا رہن سہن، ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، بات چیت، لب و لہجہ، اخلاق حسنہ الغرض شخصیت کا ہر زاویہ کامل اور بے مثال ہوتا ہے۔ جن کے کردار سے محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خوشبو آتی ہو. جن کا اٹھنا بیٹھنا رب اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لئے ہو.
آج میں اس ہستی کا ذکرِ خیر کرنے جا رہا ہوں جس نے لاکھوں گم کردہ  راہوں کو ہدایت کا سامان کیا..
دلوں کے بنجر پن کو اپنے محبت بھرے الفاظ کیساتھ سر سبز و شاداب کیا، دل میں علم کی تشنگی رکھنے والوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اپنی زندگی کے 42 سال وقف کر دیے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے..
معاشرے میں بے حیائی اور بے شرمی کو روکنے کے لیے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے ایسے اداروں کی بنیاد رکھی جس کی مثال آپ تمام لوگوں کے سامنے ہے
میری مراد شیخ کامل، استادِ زمانہ سیدی و مرشدی سفیر ضیاءالامت پیر سید زاہد صدیق شاہ بخاری صاحب ہیں
آپ 25 ستمبر 1950ء کو بوکن شریف میں پیدا ہوئے
آپ کی ذات مبارکہ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے چمنستانِ حیات کو اپنی دیدہ وری سے منور کر رکھا ہے۔

(جاری ہے)

آپ کی شخصیت میں کوئی خام پہلو نظر نہیں آتا۔ آپ کہہ  سکتے ہیں کہ شاید میں یہ الفاظ آپ کا ایک روحانی  بیٹا یا ادارے کا طالب علم ہونے کے ناطے بیان کر رہا ہوں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر وہ شخص جس نے کچھ وقت، خواہ چند لمحے ہی قبلہ پیر صاحب کی معیت میں گزارے ہوں ان کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔
راقم الحروف 13 اپریل 2013ء کو دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بوکن شریف میں دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول کے لیے داخل ہوا ابتدائی طور پر سفیر ضیاءالامت پیر سید زاہد صدیق شاہ بخاری صاحب سے وابستہ نہیں تھا اور نہ ہی زندگی میں کبھی پہلے ان کا نام سنا تھا
لیکن پھر کتنے ہی کم وقت میں میں ان کے قریب ہو گیا دلی وابستگی بڑھتی گئی اس کا مجھے خود احساس تک نہیں ہوا.
میں اپنے ابتدائی تعلیمی سفر کا ایک یادگار واقعہ آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا. دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بوکن شریف میں ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ میرا دل وہاں نہ لگا اور میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں اس ادارے کو چھوڑ جاؤں گا، گھر آ کر بہت سوچا لیکن جب ایک طرف اپنے ارادے کو دیکھتا اور ایک طرف قبلہ پیر صاحب کی محبت اور وہ چند ماہ کے لمحات جو میں نے ان کی معیت میں گزارے تو مجھے صرف وہ محبت ہی نظر آتی تھی جو مجھ کو دوبارہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بوکن شریف میں کھینچ لائی اور الحمد للہ آج تک 7 سال گزر گئے میں اس ادارے میں زیر تعلیم ہوں اور یہ تعلیمی سفر اپنے اختتامی مراحل میں ہے.
سیدی و مرشدی سفیر ضیاءالامت کی محبت کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی طالبعلم سے یہ سوال کیا جائے کہ تمہارے ساتھ تمہارے ماں باپ زیادہ محبت کرتے ہیں یا قبلہ پیر صاحب تو ان کا یہی جواب ہوتا ہے کہ ان کی محبت و الفت میرے ساتھ میرے ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہے.
قبلہ پیر صاحب کے انداز تربیت اور آپ کی گفتگو سے ہمیشہ محبت چھلکتی ہوئی نظر آتی ہے لفظ لفظ موتی جو انسان کے دل کے اندر گھر کر جاتے ہیں...
البتہ آپ کی شخصیت کے جس جس پہلو کو بھی دیکھا جائے وہ بے مثال نظر آتا ہے
اللہ تعالیٰ کے حضور التجا ہے کہ اللہ تعالیٰ قبلہ پیر صاحب کو صحت و سلامتی والی زندگی عطا فرمائے اور آپ کے جو تمام منصوبہ جات ہیں ان کو پایہ تکمیل تک پہنچائے اور ہمیں آپ کا دست و بازو بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین...
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :