حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے اہم کارنامے

پیر 10 جنوری 2022

Hafiz Abdul Sattar

حافظ عبدالستار

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس
کسی بھی ریاست کے وہ اہم امور جن پر اس کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں وہ اس کے لیے نہایت اہم حیثیت رکھتے ہیں اگر اس میں قوانین اور جدّت کے اعتبار سے تبدیلیاں نہ کی جائیں تو ریاست کی عمارت اور اس کے ستون گر جاتے ہیں ۔نظامِ حکومت کے بغیر کوئی بھی ریاست ایسے ہوتی ہے جیسے جسم بغیر روح کے اگر ہم اپنے جسم کا حساب لگائیں کہ کھانا، پینا سونا، جاگنا اگر اپنے مقررہ وقت پہ نہیں ہوگا تو ہماری زندگی کے روزمرہ کے معمولات خراب ہو جائیں گے دن بدن جسمانی حالت بگڑتی جائے گی بالکل اسی طرح ریاست کی عمارت کو جس چیز کی ضرورت ہوگی وہ اس کا ریاستی نظام اور قوانین ہیں اگر ان کو بروقت بروئے کار نہ لایا جائے تو ریاست کی عمارت مسمار ہو جاتی ہے۔

(جاری ہے)


عہدِ نبوی ﷺکا نظام حکومت ہو یا خلافت صدیقی کا دور ہو خلیفہ اوّل افضل البشر بعد الانبیاءسیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہر موقع پر پوری جانفشانی کیساتھ اپنے سارے معاملات اور ذمہ داریوں کو سر انجام دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ صرف مالی معاونت کی بلکہ ہر مشکل وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاون و مددگار رہے۔

ہجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے۔ تمام غزوات میں آپ شریک ہوئے ، اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیر اوّل بھی تھے۔
جب خلافت کی ذمہ داری حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے سپرد کی گئی تو ابتداءہی سے آپ کو کافی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا مسندِ خلافت آپ کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گئی اس کے باوجود آپ نے تدبر، عاقبت اندیشی اور استقلال سے ان مشکلات پر قابو پا لیا جو مشکلات آپ کو پیش آئیں ان میں سے چند ایک ذکر کیے دیتا ہوں۔

آپ رضی اللہ عنہ نے تقریباً دو سال سات ماہ مسند خلافت کو سنبھالا۔مختصر طور پر ان تمام کارناموں کو قلمبند کرنے کی کوشش کروں گا۔ حضور نبی رحمت ﷺ کے وصال کی خبر سن کر کافی قبیلوں نے سرکشی کر دی لوگ مرتد ہونا شروع ہو گئے ،بعض نے زکوٰة اور نماز ادا کرنے سے انکار کر دیا، ملک کے بیشتر حصوں سے مدعیانِ نبوت اٹھ کھڑے ہوئے جن میں طلیحہ بن خویلد، اسود عنسی، سجاح بنت حارثہ اور مسیلمہ کذّاب بہت مشہور ہیں انہوں نے اسلام کے خلاف لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اپنی جماعتیں بنانا شروع کر دیں حضرت ابوبکر صدیق ؓنے پہلے متعدد پیغامات بھجوائے کہ وہ اپنے اس غلط دعوے کو مسترد کر دیں لیکن جب انہوں نے آپکی بات کا انکار کیا تو آپ نے لشکر کیساتھ حملہ کیا اور ان کذّابوں کو نیست و نابود کر دیا۔

آپ ؓ نے اپنی دور اندیشی اور منصوبہ بندی کے تحت ان پر قابو پا لیا اور ملت اسلامیہ کو نہایت مستحکم بنیادوں پر استوار کیا، آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ایران اور روم کی دو عظیم سلطنتوں کو متعدد شکستیں دے کر ملت اسلامیہ کے وقار اور دبدبے کا ڈنکا بجا دیا۔
دین کی حفاظت:
آپ ؓکی خلافت کے آغاز سے ہی کافی قبیلوں نے سرکشی شروع کر دی تھی لوگ بغاوت کرنے لگ گئے تھے ملت اسلامیہ پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے روم و ایران کی سرحدیں غیر محفوظ ہو گئیں اسی اثنا میں آپ نے عزم اور بہادری کیساتھ تمام منکرین اور دعویداروں کو ان کی اوقات یاد دلا دی اور اسلام کی سرحدوں اور اسکی روایات کی حفاظت فرمائی اور باطل کے ایوانوں کو بتا دیا ہم حضور ﷺ کیساتھ بھی اس دین کا پہرا دیا کرتے تھے اور اب بھی ہمہ وقت اس کے دفاع کے لیے تیار ہیں ۔

دین اسلام کی طرف اٹھنے والی ہر آنکھ نکال دی جائے گی ۔
ملکی نظم و نسق:
حضرت ابوبکر صدیق ؓ تعلیماتِ نبویﷺکے مجسّم پیکر تھے آپ نے حضور نبی رحمت کے بنائے ہوئے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کی البتہ وقت اور حالات کے پیش نظر جس چیز کی ضرورت تھی اس میں اضافہ کیا لیکن وہ حضورﷺکی تعلیمات کے بالکل خلاف نہیں ہوتی تھیں آپ ؓنے ملت اسلامیہ کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے اس کو متعدد صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کر دیا اور ان تمام علاقہ جات پر گورنر مقرر کر دیئے آپؓ کا یہ عمل اس لیے تھا کہ ایک شخص ایک جگہ بیٹھ کر بآسانی سارے معاملات کو نہیں دیکھ سکتا تھا اس لئے اگر علیحدہ علیحدہ لوگ مقرر کیے جائیں گے تو لوگوں کے تمام تر معاملات کو توجہ کیساتھ دیکھا جائے گا، آپ نے علیحدہ علیحدہ قاضی مقرر کیے، سپہ سالار بنائے جو اپنی مقرر کردہ جگہ پر لگائی گئی ذمہ داریوں کو سر انجام دیتے تھے، کسی کو کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو ان کو عدل اور رواداری کیساتھ انصاف دیا جاتا کسی کو بھی کسی کا حق مارنے کی اجازت نہیں تھی چاہے وہ جتنا بڑا بھی عہدیدار ہو، رشوت کسی بھی معاملہ میں نہیں لی جاتی تھی کسی کو شکایت کرنے کے لئے کسی کی شفارش کی ضرورت نہیں ہوتی تھی وہ خود جا کر خلیفہ وقت سے سوال کر سکتا تھا لیکن افسوس! اس ملک کو ہمارے وزیر مشیر ریاست مدینہ تو کہتے ہیں لیکن ریاست مدینہ جیسی کوئی بات نہیں اگر یہ ریاست مدینہ ہوتی تو انصاف مانگنے والے کو انصاف ملتا یہاں انصاف مانگنے کے لئے لوگ کوٹ کچہریوں کے چکر لگا لگا کر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں جان بوجھ کر اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں جب تک اعلیٰ افسران میں سے کوئی کسی کی شفارش نہ لیکر آئے اور ان کی جیب کو گرم نہ کرے تب تک مسئلہ حل ہی نہیں ہوتا اگر اس کو ریاست مدینہ کہتے ہیں تو ریاست مدینہ والا نظام بھی لیکر آئیں نا پھر جب وہ نظام آئے گا تو کافی حد تک یہ مشکلات دور ہو جائیں گی ملک و قوم ترقی اور امن کی راہ پر گامزن ہوں گے۔


مالی نظام:
مالیات کا جو نظام عہد نبوی ﷺ سے چلا آ رہا تھاحضرت ابو بکر صدیقؓنے ابتداءسے تووہی نظام جاری رکھا رقم آتی تو اس کو عوامی بہبود و فلاح کے لئے خرچ کر دیا جاتا یا پھر تقسیم کر دیا جاتا لیکن بعد میں آپ نے بیت المال کے لئے ایک عمارت تعمیر کروائی جس ساری رقم کو رکھا جاتا تھا جب حضرت عمر رضی اللہ مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے بیت المال کی عمارت کا حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے ہمراہ دورہ کیا تو وہاں صرف ایک درہم برآمد ہوا پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں جو بھی رقم آتی تھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کو یا تو عوام کی فلاح کے لیے خرچ کر دیتے یا پھر تقسیم کر دیتے لیکن ہماری ریاست مدینہ میں معاملہ ہی الٹ ہے یہاں پہلے ہمارے حکمران خود کی جیبیں بھرتے ہیں اور جو باقی تھوڑی بہت رقم رہ جاتی ہے اس کو عوام الناس پر خرچ کر کے فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنے نام کی تختیاں لگواتے ہیں ۔


فوجی نظام:
صحابہ کرام پورے شوق اور جذبہ کیساتھ جہاد کیا کرتے تھے ہر وقت اس انتظار میں رہتے کہ ہمیں حکم ہو اور ہم اسلام کی سر بلندی کی خاطر جہاد کریں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے فوجی نظام میں سپہ سالار کے ایک عہدے کا اضافہ کیا اور حضرت خالد بن ولید ؓ کو پہلا سپہ سالار مقرر فرمایا جن کے تحت پوری فوج کا دستہ ہوتا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے آپ جنگ پر جانے سے پہلے فوج کی تربیت فرماتے اور وہی ارشاد فرماتے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں صحابہ کرام کو فرمایا کرتے تھے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ فوج کو ساز و سامان مہیا کرنے کا انتظام کیا اونٹوں اور گھوڑوں کے لیے ایک چراگاہ بنائی، مال غنیمت کا ایک حصہ فوجداری نظام کے لیے مقرر فرمایا جہاں کوئی کمی بیشی نظر آتی خود اصلاح فرماتے آپ کا قائم کردہ یہ فوجی نظام ملت اسلامیہ کے لیے بہت ہی کارآمد ثابت ہوا اور اسکی بدولت بہت سے اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دیا روم اور ایران جیسی بڑی سلطنتوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔


محکمہ افتاء:
دور صدیقی کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ مسائل کی تحقیق و تدوین کے لیے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس میں حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ کی ذمہ داری لگائی وہ وہاں لوگوں کے مسائل سنتے اور قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے فرماتے اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کے گھروں میں پیش آنے والے روزمرہ کے مسائل اور جھگڑے کم ہو گئے کسی کو کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو انصاف کیساتھ اس کے حق میں فیصلہ کیا جاتا کسی کے حق میں غیر منصفانہ فیصلہ نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ ان کے نزدیک کوئی بڑا ہو یا چھوٹا سبھی برابر ہوتے۔


قرآنِ مجید کو جمع کرنا:
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے دور خلافت کا سب سے اہم کارنامہ قرآنِ مجید کو جمع کرنا ہے جنگ یمامہ میں حفاظ کی کثیر تعداد شہید ہو گئی اس پر حضرت عمر فاروق ؓ نے خلیفہ وقت حضرت ابو بکر صدیق ؓ کوقرآن مجیدمحفوظ کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ صحابہ کرام کی شہادتیں جاری رہیں تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا اس لئے آپ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم جاری کریں تا کہ کتاب اللہ محفوظ رہے آپ کے اس مشورہ پر غور وفکر کے بعد آپ راضی ہو گئے اور حضرت زید بن حارث ؓکو قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دیا ۔

دور رسالت میں صحابہ کرام نازل کردہ آیات کو حضورﷺ کی نگرانی میں کھجور کے پتوں چمڑے وغیرہ پر لکھ لیتے اور جو ترتیب حضور نبی رحمت ﷺ بتاتے اس کا خیال رکھتے ۔حضر ت ابوبکر صدیق ؓ نے اعلان کروا دیا کسی کو بھی اگر قرآن کا کوئی حصہ یاد ہو یا کسی کے پاس موجودہو تووہ حضرت زید بن حارث ؓ کو اطلاع کرے چنانچہ ہڈیو ں ،پتھروں اور پتوں پر لکھی ہو ئی آیاتیں اور سورتیں جمع ہو گئیں حضرت زید بن حارث ؓ پہلے ان کی تحقیق فرماتے اور پھر ان آیات اور سورتوں کو شامل کرتے آخر ایک طویل وقت کی محنت شاقہ کے بعد یہ عظیم کارنامہ اس طرح پایہ تکمیل کو پہنچا کہ اس میں کسی قسم کی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔

بلا شک و شبہ مندرجہ بالا تمام کارناموں میں سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا یہ کارنامہ سب سے اہم ہے تاریخ کے اوراق رہتی دنیا تک آپ کے اس تاریخ ساز کارنامے کو یاد رکھیں گے اور یقینا حضور نبی رحمت ﷺ اور خود خدا کی ذات آ پ کو سلام پیش کرتے ہوں گے۔
تدوین حدیث :
سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تدوین احادیث میں نہایت احتیاط سے کام لیا اور یہ مجموعہ اپنی بیٹی کے سپرد کرتے ہوئے انھیں اچھے سے رکھنے کا حکم دیا۔

روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے احادیث کا نسخہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیا تو اس رات ان کے ہاں قیام فرمایا اور تمام رات اس خوف سے کروٹیں بدلتے رہے کہ کہیں کسی حدیث کے تحریر کرنے میں کوئی کوتاہی نہ رہ گئی ہو، ام المومنین سے جب آپ کے والد ماجد کی اس کیفیت کے مطابق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا مجھے اول معلوم ہوتا تھا کہ شاید والد صاحب سخت بیمار ہیں اور اس بے چینی میں کروٹیں بدل رہے ہیں۔


حضرت ابوبکر کی سیرت مبارکہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے اگر ہم اس کے چند اہم پہلو اپنی زندگی میں شامل کرلیں تو یقینا ہماری زندگی بہت خوبصورت ہو جائے گی،اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے اور ان کی سیرت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرمائے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :