
سفیر ضیاءالامت جہدِمسلسل کی عملی تصویر
جمعہ 24 ستمبر 2021

حافظ عبدالستار
(جاری ہے)
میں تو اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ چلتے گئے کارواں بنتا گیا
اس باغبان نے یہ سوچ رکھا تھا کہ لوگوں کو اس خواب کی ایسی تعبیر پیش کرنی ہے جس میں علم و آگہی کے چشمے جاری ہوں، حکمت کے موتیوں سے اس کے ستون کھڑے ہوں، صبر و تحمل کی مٹی میں نیم شبی کے اشکوں کا عرق ملا کر خلوص و محبت کا وہ گارا تیار کیا گیا ہو جس سے تیار ہونے والی ہر دیوار، ہر بنیاد محبت، اخوت، اور ایمان کی خوشبو فراہم کر سکے۔ اس باغبان نے اپنی بنجر زمین کو ہرابھرا کرنے کی ٹھان لی تھی اسکی آنکھیں اس خوف سے سونا نہیں چاہتی کہ ایسا نہ ہو نیند کا دورانیہ بڑھ جائے اور میرے خوابوں کا گلستاں مسمار ہوجائے بس ایک یہی تڑپ تھی جو اس کے حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیتی تھی۔
ایسا ہرگز نہیں کہ اس شخص کو اس سفر کے آغاز میں مشکلات در پیش نہیں تھیں، بالکل تھیں۔ مالی حوالے سے حالات بہت کمزور تھے مخلص احباب کی بھی کمی تھی لیکن اس نے صرف ان کے سہارے ہی نہیں خود کو بٹھا دیا کہ کوئی آئے اور میرا ہاتھ پکڑے اور پھر میں اپنے اس سفرکا آغاز کروں بلکہ اس باغبان نے علامہ اقبال ؒکا یہ شعراپنے پلو کیساتھ باندھ رکھا تھا۔
یقیں محکم، عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
انسان کو کوئی چیز اس وقت تک نہیں ہرا سکتی جب تک وہ خود ہار نہ مان لے منزل مقصود صرف ان لوگوں کا مقدر ٹھہرتی ہے جو وقتی ناکامیوں سے گھبرا کر نہیں بیٹھتے اور جدوجہد ترک نہیں کرتے مسلسل سیدھے چلنے والے اور در پیش مشکلات کو نظر انداز کرنے والے با لآخر منزل پر پہنچ ہی جاتے ہیں رفتار چاہے کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ بالآخر اس باغبان نے 1976ء میں ناقابل کاشت زمین پر علم و حکمت (گلستان)کے چشمے کی بنیاد رکھی یہ باغبان بے سرو سامانی کی حالت میں اتنا بڑا قدم یہ سوچ کر نہیں اٹھاتا کہ کسی کا حق مارنا پڑا تو مار لونگا، کوئی بھی راہ اختیار کرنا پڑی کر لوں گااور منزل پر پہنچ جاؤں گا۔نہیں، بالکل نہیں! بلکہ اس باغبان نے اپنے خالق حقیقی کے فضل واحسان اور شیخِ کامل کی نظر سے اس کام کا آغاز کیا۔خدا کی ذات نے شیخ کے مشن سے اس کی محبت اور وارفتگی دیکھ کر اس کو وہ ہمت اور حوصلہ عطا کیا جو اس کے لئے مددگار ثابت ہوا۔جب خدا اور اس کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺکے دین کیساتھ انسان مخلص ہو جائے تو ان کا کرم اور فضل شاملِ حال ہوجاتا ہے اور انسان کامیابی و کامرانی کیساتھ اپنی تمام ترمنازل بآسانی عبور کر لیتا ہے۔
معزز قارئین!
اس علم و آگہی کے سر چشمے پہ آکر دیکھیے تو سہی، پانچ وقت بلند ہونے والی آذان کی آواز، ہر لمحہ قرآن و حدیث پڑھنے کی آواز تمام طلباء و طالبات کے سروں پر عزت کی نشانیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ اس گلستان کی بنیاد رکھنے والے نے رات کے پچھلے پہر اٹھ کر ایک کونے میں جائے نماز بچھا کر، دامن طلب پھیلا کر، اشکوں کے نہ تھمنے والے سیلاب میں آنکھوں کو ڈبو کر پوری رقت سے اس کارسازِ حقیقی کی منت کی ہے، اسکی بارگاہ سے ایک ایک اینٹ مانگ کر، ایک ایک ذرے کے مستحکم ہونے کی دعا مانگ کر اس چمن کو سینچا ہے،سیراب کیاہے۔ علم و حکمت کا یہ شیدائی خود سے یہ وعدہ کرچکا ہے کہ ایک ایسا سر چشمہ قیام عمل میں لاؤں گا جس سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ سیراب ہونگے، لاکھوں علم کی طلب رکھنے والے اکتسابِ فیض کریں گے۔ تشنہ لبوں کو علم و حکمت کے جام ملیں گے۔وقت اپنی رفتار کے ساتھ چلتا رہتا ہے اللہ کے حکم اور اذن سے یہ سارا سلسلہ رواں دواں رہتا ہے اور ایک ایسا گلستاں وجود میں آتا ہے جس میں شب و روز کبھی قرآن پڑھا جا رہا ہے یا مصطفی کریمﷺ کے فرمان پڑھے جا رہے ہیں۔ذرا سوچیں! جس گلستان کو آباد کرنے والا خود کتنا پاکیزہ سوچ ہو اسکی پاکیزگی و طہارت کا زمانہ گواہ ہو اس کے ہاتھوں سے سینچے گئے گلستان کی کیا اہمیت ہوگی۔یہ وہ گلستان ہے جس کو دنیا ”دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بوکن شریف“کے نام سے جانتی ہے اس باغبان نے اس گلستان کی آبیاری اپنے خون پسینے سے کی جس سے آج تک ہزاروں بیٹے اور بیٹیاں اکتسابِ فیض حاصل کر کے جاچکے ہیں اور اس چمنستان کی خوشبو کو پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔
میرے مرشد کا یہ فیضان سلامت رکھ
منظر تو دیکھئے!رات کا وقت ہوتا ہے یہ باغبان اٹھتا ہے اپنے بچوں کے زیرِ استعمال واش رومز کی صفائی پوری لگن سے کرتا ہے، جوتے ترتیب سے رکھتا ہے، پھر وضو کرتا ہے اور اللہ سے اگلے دن کے لیے خیر مانگنے میں مشغول ہوجاتا ہے، المختصر وہ اپنے سارے سفر کا ہر لمحہ اس رب کائنات سے مدد لیکر طے کرتا ہے، جذبے، محبت اور علم سے عشق کا یہ عالم ہے کہ طالب علموں کی خدمت کرتا ہے چھوٹے بچوں کے بستر تک صاف کرتا ہے، کبھی ماں کا روپ دھار لیتا ہے کبھی باپ کی شکل میں ان بچوں کو اپنی آغوش میں لیے پھرتا ہے۔
کبھی خون بن گئے،کبھی آب، کبھی سائباں
سفر پوری آب و تاب سے جاری رہتا ہے اس مردِ مومن کے پائے استقلال میں رتی بھر بھی لغزش نہیں آتی بلکہ جذبہ، ہمت اور حوصلہ ہر روز بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ایک وقت آتا ہے کچھ لوگ اس علم و حکمت کے گلستان پر تشریف لاتے ہیں اور اس مردِ مومن سے سوال کرتے ہیں کہ آپ اپنے ادارے کے یتیم بچوں اور بچیوں کا نام لکھوائیے؟ہم عطیات دینا چاہتے ہیں وہ عزم و وفا کا پیکر بڑی جرأت سے جواب دیتا ہے کہ میرے ادارے میں کوئی بچہ یتیم نہیں ہے، سوال پھر کیا جاتا ہے وہ اسی حوصلے اور ہیبت سے کہتا ہے کہ میں نے کہا نا کہ یہاں کوئی بچہ یتیم نہیں ہے، سوال کرنے والا حیران و ششدراور پھر پوچھتے ہیں کیسے ممکن ہے کہ جہاں اتنے طلبا و طالبات زیرِ تعلیم ہوں وہاں کوئی بچہ یتیم نہ ہو؟ اس مرد مومن کا جرأت مندانہ جواب جو کہ تاریخ کے صفحات پہ یکتارہے گا کہ۔
”جب تک اس گلستان کا رکھوالا،چوکیددار موجود ہے اس ادارے میں پڑھنے والا کوئی بچہ یتیم نہیں ہو سکتا“۔
جی ہاں اُس دور کے باغبان کو دنیا اب ”سید زاہد صدیق بخاری“کے نام سے جانتی ہے اور اہل عشق و محبت کی زباں میں سفیر ضیاء الامت کہا جاتا ہے۔ ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات کے بارے میں علامہ محمد اقبال کہہ گئے ہیں۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہوون فیض ہزاراں تائیں ہر پکھا پھل کھاوے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
حافظ عبدالستار کے کالمز
-
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے اہم کارنامے
پیر 10 جنوری 2022
-
سفیر ضیاءالامت جہدِمسلسل کی عملی تصویر
جمعہ 24 ستمبر 2021
-
پیر سید زاہد صدیق شاہ بخاری ایک عہد ساز شخصیت
جمعہ 25 ستمبر 2020
-
لاک ڈاؤن اور ہم
پیر 13 اپریل 2020
-
اسلام،جدید سائنس،کرونا وائرس اور ہم
جمعرات 2 اپریل 2020
حافظ عبدالستار کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.