محکمہ پولیس کے نیک نام لوگوں کا کچھ ذکر

بدھ 27 جون 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بطور تحقیقاتی صحافی اور کرمنالوجی کے طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میرا پولیس کے محکمے سے رابطہ رہتا ہے ۔ کس صوبے کے کس ریجن اور اس کے کس شہر میں پولیس کیا کارکردگی ہے ؟ کونسا افسر کس حدتک مخلص ہے اور کو نسا پارسائی کا ڈرامہ کر کے کرپشن کی گنگا میں ہاتھ صاف کر رہا ہے ؟کیا تھانہ کلچر کی تبدیلی کا نعرہ واقعی حقیقت میں تبدیل ہوا؟عام عوام کا پولیس پر کس حد تک اعتماد قائم ہوا اور پولیس کا عام عوام کے ساتھ کیا رویہ رہا؟ ایسے تما م سوالات کا جواب تلاش کر نے کی جدوجہد میں کئی شب وروز صرف ہوئے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گذشتہ کچھ سالوں میں پورے ملک میں پنجاب پولیس اور بالخصوص لاہورپولیس میں اس حوالے سے کافی مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں ۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ افسران نے جہاں کرپشن کے حوالے سے اندھیر نگری مچائی ہوئی تھی وہاں زیادہ تر افسران نیک نیتی اور خلوص دل کے ساتھ کام کے نتیجے میں تھانہ کلچر میں حیرت انگیز طور پر تبدیلی، فرنٹ ڈیسک کا قیام، کالز اور ایس۔

(جاری ہے)

ایم ۔ایس کے ذریعے کمپلنٹ سیل کا آغاز ، شکایت کنندہ کی شکایت کو ہنگامی بنیادوں پر حل کر کے اسے مطمئن کرنا ،شہدا کے لواحقین کے لئے آن لائن نظام کے تحت متعلقہ افسران تک فوری رسائی اور مسئلے کا حل اور صدیوں پرانے گھسے پٹے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کر نے سمیت تما م دفاترمیں” پیپر لیس“ پالیسی بناتے ہوئے آن لائن خط و کتابت کا آغاز، ان اقدامات میں سے چند ایک ہیں ۔


قارئین !اس دوران کئی ایک افسر تبدیل بھی ہوا لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ماضی کی طرح اس میں سے کوئی پروجیکٹ بند نہیں ہوا بلکہ کامیابی کے ساتھ جاری ہیں ۔ حالیہ دنوں میں الیکشن کے دن قریب آتے ہی الیکشن کمیشن کے احکامات پر محکمہ پولیس میں بڑے پیمانے پر تبادلوں کا موسم شروع ہوا تھا ، جس کے نتیجے میں ایک بار پھر ایسے خدشات نے جنم لیا تھا کہ اگر کوئی حرام خور اور کرپٹ افسر پھر سے آگیا تو جہاں پولیس کا امیج بہتر بنانے اور عام عوام کو کچھ آسانیاں تقسیم کر نے کا یہ شاندار منصوبے ختم ہو سکتے ہیں وہاں صاف اور شفاف الیکشن میں سوالیہ نشان بھی اٹھایا جا سکتا ہے ۔


ایسے تما م خدشات صرف خدشات ہی ثابت ہوئے اور نگران وزیر اعلیٰ اور میرے قبیل کے بزرگ جناب حسن عسکری اور الیکشن کمیشن کی مشاورت کی بدولت ڈاکٹر سید کلیم امام جیسے اُجلے اور صاف شفاف بندے کی بطور آئی۔جی پنجاب تعیناتی بلا شبہ ایک احسن اقدام ہے ۔ اپنے اندر ایک اسپورٹس مین سپرٹ لئے اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے یہ شخص جتنا باہر سے خوبصورت نظرآتا ہے، اندر سے اس سے زیادہ خوبصورت ہے ۔

اپنی سابقہ تعیناتیوں کے دوران بھی جن کا کردار اُجلار ہا اور ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگ بھی جس کی گواہی دیتے ہیں ۔ چند دنوں میں ان کے کچھ فیصلوں کے مثبت نتائج برآمد ہونا ہونا شروع ہوگئے ہیں اور پھر لاہور میں جن افسران کی تعیناتی کی گئی ہے وہ بھی ان جیسے خوبصورت لوگ ہیں جو یقینا اپنی اپنی فیلڈز میں مقام رکھتے ہیں اور کوئی بھی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا ۔


بی۔اے ناصر کی بطور سٹی چیف پولیس افسر لاہور کی تعیناتی ، یقینا لاہور پولیس کو مزید بہتری کی جانب لے جانے میں راہ ہموار کرے گی۔ ان کا شمار بھی پولیس کے ان چند افسران میں کیا جا تا ہے جو واقعی کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ اپنی تعیناتی کے دوران یہ شفاف الیکشن میں اپنا کردار دا ء کریں گے وہاں اہلیان لاہور کی جان ومال کی حفاظت کے لئے بھی کوئی کسر نہ چھوڑیں گے ۔

ڈی۔آئی۔جی آپریشنز لاہور ، شہزاد اکبر کے بارے صرف اتنا لکھوں گا کہ نہ جھکنے والا ، نہ بکنے والا ۔ حق پر ڈٹ جانے والے قلیل لوگوں کے قافلے میں ان کا شمار بھی ہوتا ہے ،چاہے انہیں اپنی سیٹ کی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایس۔ایس۔پی ایڈمن لاہور تعیناتی کے دوران شہدا کے لواحقین اور پولیس ملازمین کی بہبود کے لئے دیوانہ وار کاموں میں یہ مصروف رہتے تھے ۔

میں بذات خود ان کی تعیناتی سے بہت خوش ہوا ہوں جس کی وجہ یہ ہے کہ اب عام شہریوں کو بڑے افسر تک رسائی بالکل آسان ہو جائے گی اور پہلی ہی سیڑھی پر ان کے بگڑے کام سنورنا شروع ہو جائیں گے۔ایس ۔ایس۔پی آپریشنز ، اسد سرفراز بھی انہی ہیروں میں سے ایک ہیرا ہے جو محکمے کی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں ۔ لاہور میں پہلے بھی اپنی تعیناتی کے دوران اہل لاہور کی خدمت کا سہرا ان کے سر سجا ہے اور یہ بھی اسے بخوبی سرانجام دے چکے ہیں اور مید نہیں بلکہ یقین ہے اس دفعہ پہلے سے مزید بہتر خدمت کا جذبہ لے کر آئیں ہیں۔

یہاں ہر دلعزیز افسر ، نامور ادیب اور دلوں میں گھر کر جانے والے خوبصورت انسان کیپٹن (ر) لیاقت علی ملک کا ذکر نہ کیا جائے تو گستاخی ہو گی کہ جن کہ ذمہ داری لاہور کی بے ہنگم ٹریفک کو راہ راست پر لانے کی لگی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ جیسے اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں میں انقلاب بر پا کر دیتے ہیں ، اپنی خداد اد صلاحیتوں کی بدولت بد حال ٹریفک کو کنٹرول کر نا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔

یہ جہاں بھی گئے اپنی خدمت کی بدولت لوگوں کے دلوں میں گھر کر آئے ۔ میں تو انہیں اپنا مرشد مانتا ہوں کہ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ عام انسان بالکل نہیں ۔ امید ہے جس طرح میرے نزدیک یہ افسران نیک نامی میں آگے آگے ہیں اسی طرح اہل لاہور بھی ان کے بارے یہ زاویہ نظر اختیار کر لیں اور مجھے یقین ہے کہ اپنے جذبہ خدمت کی وجہ سے یہ اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :