آہ ۔۔۔۔خرطوم کا نور بجھ گیا

ہفتہ 6 مارچ 2021

Hamad Hussain Sheikh

حماد حسین شیخ

رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رحلت سے قبل جن دو مقدسات کو اُمت میں چھوڑ گئے ان میں سے ایک تو قرآن حکیم تھا تو دوسرے ان کے اہل بیعت اطہارہیں جن کا قدر ومقام کسی لفاظی کا محتاج نہیں بلکہ الفاظ ہمیشہ ان کے محتاج رہتے ہیں، اگر یوں کہیے کہ ہاتھ باندھے قطار میں کھڑے آل محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ڈھونڈتے رہتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔


 جہاں تک قرآنِ مجید کا تعلق ہے تو اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس مقدس کتاب کا حرف حرف خدا کی عزمت و بڑھائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ گزشتہ چودہ سو سال سے لاکھوں خوش نصیب لوگوں نے اس مقدس کتاب کو ذہن نشین کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی خوبصورت آواز کے توسط سے پورے کرہ ارض کو منور کیا۔ یہی نہیں بلکہ اُن کی آواز میں کلام خدا وندی کو سُن کر کئی خوش نصیب دین حق کی طرف مائل ہوئے۔

(جاری ہے)


شیخ نورین محمد صدیق بھی ان خوبصورت آوازوں میں سے ایک کے مالک تھے۔قرآن کی ایک ایک آیت کو پڑھتے وقت کلام خدا وندی کی تحریم و تقدس کو ملحوظ خاطر رکھتے۔ مجھے آج بھی یاد ہے ایک مرتبہ سوشل میڈیا پر ان کی خوبصورت آواز سنی اور قرآت کا انداز دیکھا تو دل اس قدر خوش ہوا کہ اُس کلپ کوکئی بار سُنا ۔ جب جب سنتا آنکھوں سے بہتے اشک گناہوں کی سیاہی دھونے میں مصروف ہو جاتے ۔

حقیقت یہ ہے اس کلام عظیم کی برکت سے خدا ہمیشہ اپنے پیارے بندوں کو اس کا حق ادا کرنے کے لئے چن لیتا ہے ، بے شک وہی ہے جس نے لہن داؤدی کو نبیوں میں ایک خاص مقام بخشا کہ جو کوئی سنتا بس آپ علیہ السلام کی آواز کا اسیر ہو جاتا ۔ اللہ بہت رحیم ہے وہ جس کو چاہے جو بھی چاہے عطا فرما دے کیونکہ اس کے گھر میں خیر ہی خیر ہے ،وہ بہت عزت ، برکت اور رحمت والا ہے ۔

اللہ رب العزت نے شیخ نورین محمد صدیق کو اپنے کام پر لگا کر وہ عزت بخشی کہ پوری دنیا اس سادہ لوح حبشی و سوڈانی قاری کی دیوانی ہو گئی۔
سادہ سی چٹائی اور سفید لباس میں ملبوس اس شخص کی زبان پر ہر وقت کلام خدا وندی ہوتا۔ میری ملاقات ان سے بیرون ملک ایک کمیونٹی پروگرام میں جب ہوئی تو میں خوشی سے شکر خدا بجا لاتا رہا۔ میں نے اُن سے قرآن کی جس سورہ کو بھی سننے کی گزارش کی اُنہوں نے سُنائی۔

وہ قرآن سنانے میں اس قدر محو ہو جاتے کہ ہر آیت کو ادا کرتے وقت ان کی آنکھیں تو نم ہوتی ہی تھیں مگر ساتھ ہی محفل میں موجود ہر شخص بھی اشک بار ہو جاتا۔
شیخ نورین سوڈان میں پیدا ہوئے ۔آپ فراجب میں موجود ایک مدرسہ سے قرآن کی تعلیم مکمل کرکے دین کی خدمت میں لگ گئے۔ بی بی سی کے آرٹیکل میں سوڈانی جرنلسٹ جناب اسماعیل کشکش نے ان کے قرآن پڑھنے کے انداز کے بارے میں بہت ہی عمدہ انداز میں لکھا ہے ۔

یہ بات درست بھی ہے کہ ان کا قرآن پڑھنے کا انداز مڈل ایسٹ سے بہت مختلف تھا مگر ایران کے کچھ قرا کے قریب تر تھا جو ساؤتھ اور ویسٹ سوڈان کا خاصہ ہے، جو افریقی قرا کا طرہ امتیاز ہے۔ افسوس کہ یہ خوبصورت آواز سات نومبر کو ایک کار حادثے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔
شیخ نورین کی بہت سی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر موجود توہے اور شاید بہت عرصے تک موجود رہے گی مگر ان کی آواز ہمیشہ ہمارے دل میں بسی رہے گی اور چار سو قرآن کی مہک و شمع جلائے رکھے گی۔

خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اہل بیعت اور اس کی کتاب سے محبت کرنے والے کبھی اس قرآت کو بھول نہیں سکیں گے کیونکہ مولا علی کرم اللہ سے جب کسی نے پوچھا کہ اے امام علی نماز اور قرآن پڑھنے میں کیا فرق ہے، تو آپ نے فرمایا کہ جب خدا سے بات کرنی ہو تو میں نماز پڑھتا ہوں اور جب میں چاہتا ہوں کہ خدا مجھ سے بات کرے تو قرآن پڑھتا ہوں ۔


شیخ نورین نے ساری زندگی خدا سے بات کی اور خدا کے کلام کے توسط سے اس کے احکامات کو پوری دنیا تک پہنچایا بھی، جو کسی بھی سچے مسلمان کے لئے اعزاز کی بات ہے۔
اللہ ہم سب پر رحم فرمائے اور اللہ کے بندوں کی آوازوں کو عمل کے سانچے میں ڈھال دے تاکہ ہم اس خالق کے شکر گزار ، اس کے احکامات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والے بن جائیں۔ آمین ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :