پرائیویٹ تعلیمی ادارے یا مافیا؟

اتوار 21 جون 2020

Hamad Hussain Sheikh

حماد حسین شیخ

​کورونا کی اس وباء میں جب سے تعلیمی ادارے بند ہوئے ہیں ان کی حرکات و سکنات روز بروز مشکوک ہوتی جا رہی ہیں ۔ ان میں بلخصوص پرائیوٹ تعلیمی کے مالکان یا تو ذہنی توازن  کھو بیٹھے ہیں یا پھر ان کو مولیہ خولیہ ہو گیا ہے۔ بلاشبہ ان اداروں کے گورکھ دھندے کسی حد تک ماند پڑتے نظر آرہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی انتظامیہ والدین کی جیبوں پر ہاتھ صاف نہ کر سکنے کے باعث حواس باختہ ہو کر نت نئی تدابیر اپنا رہی ہیں ۔

حال ہی میں جب میری نظر اپنی بیٹی کے سکول کی فیس بک پر پڑی تو مجھے دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ہر آئے دن ان کی انتظامیہ مختلف طرح کے سٹیٹس لگا رہے ہیں اور طرح طرح کی دھمکی آمیز بیانات والدین کے لیے جاری کیے جا رہے ہیں۔
 ایسے ادارے کہنے کو تو تعلیمی ادارے  ہیں مگر حقیقت میں یہ دولت کمانے کی فیکٹریاں ہیں۔

(جاری ہے)

ان کی حرکات کورونا وائرس کی اس وبائی صورت حال میں بھی تبدیل نہیں ہوئی ۔

بچوں کےمستقبل کا لالچ دے کر مجبور والدین کی جیب سے ہزارووں روپے لوٹۓ جا رہے ہیں۔ جس کے پاس چار پیسے ہیں وہ اپنا سکول بنا کر بیٹھ جاتا ہے ان کا نہ تو تدریس سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی خود تعلیم ہی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ۔  بیرون ملک کا ایک آدھ چکر لگا کر خود کو سقراط سمجھنے لگتے ہیں اکثر تو اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے بچارے کم تعلیم یافتہ والدین کو اپنے جال میں پھانسنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

معصوم والدین اپنے بچوں کے لیے سہانے خواب خرید کر ان کی چکنی چُپڑی باتوں میں  آکراپنے بچوں کے کئی اہم تعلیمی سال برباد کر بیٹھتے ہیں ۔ ان کا طریقہ واردات کچھ یوں ہوتا ہےکہ  سب سے پہلے یہ لوگ تعلیمی ادارے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں زیادہ تر طبقہ غریب اور کم تعلم یافتہ ہو تا ہے ​​تاکہ انکا بھید نہ کھل سکے ۔ لوگوں کے مالی حالات کو جانچتے ہوئے فیس  بٹورتے رہتے ہیں۔

​ اس کے بعد یہ اپنے خاندان کو کاروبار میں شامل کر کے اہم ذمہ داریاں سونپ  کر اپنی من مانی  نہ کرتے ہیں تاکہ اندرون کہانی باہر نہ نکلے ۔ ان کو اہلیت، قابلیت اور تعلیم کی بنا پر نہ تو ترقی دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کسی اور استاد کو کبھی اس مقام پر آنے دیا جاتا ہے۔ ان استاتذہ کا نہ تو کوئی تعلیمی معیار پرکھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کو ترقی یا ٹرنگ کے مواقعے فراہم کیے جاتے ہیں اور ترقی دی بھی جائے تو خاندان کے افراد کو کہ جو یا تو کبھی بیوی ، کبھی سالیوں ،تو کبھی کزنوں کی فوج ہو تی ہے کہ جن کو اساتذہ کے طور پر یہاں رکھا جاتا ہے بچوں کا تعلیمی معیار جیسا بھی ہو والدین کو سب اچھا کی رپورٹ ​ملتی رہتی ہے۔


​اگر خاندان سے باہر سے کسی کی باری آ بھی جائے تو کم تعلیم یافتہ اساتذہ کو بھرتی کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی کم تعلیم ہونے کی وجہ سے کہیں اور نوکری نہ کر سکیں اور ان کے انڈر پریشر ​رہ کر کام کریں اور وہی کریں کہ جیسا سکول مالکان چاہتے ہوں۔ اگر اتفاق سے ان کو کوئی تعلیم یافتہ استاد مل بھی جائے تو ان کو ہر وقت جاب سے نکالے جانے اور حالات کے خراب ہونے کا قصہ سنا سنا کر انڈر پریشر رکھتے ہیں ۔

اگر کوئی شکایت والدین کی طرف سے وصول بھی ہو سکول مالکان ان تمام چیزوں کونظر انداز کرتے ہوئے نوٹ کمانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
​ ابتدائی کلاسز سے ہی شارٹ سٹڈی کو رائج کر دیا جاتا ہے تاکہ بچوں کا رزلٹ 100% ہوں اس بات کو قطعی طور پر نطر انداز ​کیا جاتا ہے کہ اگلی کلاسوں میں ان بچوں کو کن تعلیمی مسائل سے دوچارہونا پڑ سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ٹیسٹ سیشن اور امتحانات کے دنوں میں بچوں کو سلیکٹڈ سٹڈی  کروائی جاتی ہے تاکہ جتنا وہ پڑھیں وہی ٹیسٹ یا پیپر میں آجائے ​اور بچے اچھے نمبروں سے پاس ہو جائیں ۔


جب تک والدین کو اس بات کی سمجھ لگتی ہے تب تک وہ اس فراڈ ادارے کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہوتے ہیں اور ان کا بچہ اس حد تک ​نالائق ہو چکاہو تا ہے کہ کسی اوراچھے سکول کے ٹیسٹ کے قابل نہیں رہتا لہذا وہ اسی طرح ان ہی کے سکول میں ذلیل و خوارہوتارہتا ہے اور ماں بات سر پیٹتے رہ جاتے ہیں ۔ ہاں یہاں میں ایک اوربات کا ذکر کرناچاہتا ہوں کہ اگرکسی بچے کے  والدین ان کا یہ طریقہ واردات بھانپ لیں تو یہ اپنے من پسند اساتذہ کے ذریعے اُن بچوں کو اتنا تنگ کرتے  ہیں کہ وہ بچے ذہنی تناﺅ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

والدین بیچارے سیشن پورا ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ کوئی دوسرا سکول ان کے بچوں کو قبول کر لیں ۔ آپ کسی بھی جگہ شکایت کریں مشکل آپکو ہی بھگتنا ہو گئی۔
​آخر کب تک یہ تھڑڈ کلاس ذہنیت چند روپوں کی خاطر ہمارے بچوں کے مستقبل سے کھیلتے رہیں گے ۔ اور غریب والدین کم ​ٍفیس کے چکر میں اپنے بچوں کی زندگیاں ایسے تعلیمی مافیا کے ہاتھوں برباد کرواتے رہیں گے ۔
​یہ تعلیمی ادارے ہیں یا صرف دولت کمانے کا ذریعہ یا نئی نسل کی بربادی کا مؤجب میں  فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :