رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ۔۔

بدھ 9 جون 2021

Hamad Hussain Sheikh

حماد حسین شیخ

کبھی کبھی اپنے آبائی گھر جو اندرون شہر کی تاریک و تنگ گلیوں میں واقعہ تھا اپنے بچپن کی یادوں کے تعاقب میں نکلتا ہوں تو اپنے گرد نواع  کے لوگوں کی مجبوریاں و مشکلات دیکھ کر گہری سوچ میں مبتلا بھاری قدموں و بوجھل دل کے ساتھ گھر واپس لوٹتا ہوں ۔  گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی  رب کعبہ سے ہم کلام ہو کر اُس کا لاکھ لاکھ شکر بجا لاتا ہوں کہ اُس نے مجھے وہ ہاتھ دئیے جو محنت و مزدوری سے دو وقت کی روٹی کما سکتے ہیں۔

صحت و تندرستی اور وسائل عطا فرمائے کہ اُس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ مگر وطن عزیز میں بہت سے گھر ایسے ہیں جہاں خاندان کے خاندان اپنی مجبوریوں ، گھریلو مسائل اور غربت کی وجہ سے روز مرہ کی ضروریات کے لئے ترس رہے ہیں ۔ آٹا ، چاول ، دال ، گھی و سبزی اس قدر مہنگی ہے کہ اب تو عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہو تی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)


آج کے دور میں وطن عزیز کے بہت سے لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں کیونکہ روٹی مشکل اور فاقہ کشی آسان ہو چکی ہے۔

بقول احمد داؤد بخاری “اب تو  بھوکےبچے اس خوف اپنے والدین سے روٹی نہیں مانگتے کہ اُن کے بے بسی کی وجہ سے خود کشی نہ کر لیں “ اس پر اب کیا کہا جائے اور کیا کِیا جائے۔ محترم وزیر اعظم صاحب حق تو یہ ہے کہ دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوکا مر گیا تو خلیفہ وقت جوابدے ہے تو ہم کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔۔ میں تو اُن روتی ہوئی آنکھوں لرزتے ہاتھوں کو اسی سال کی عمر میں کام کرتا دیکھ کر آیا ہوں جو گلی گلی شکر قندی بھیج کر اپنا اور اپنی بزرگ بیوی کا پیٹ پال رہا ہے۔

میں اُس بیوہ کو دیکھ کر آیا ہوں جو کہ اپنے بچوں کی پرورش کے لئے دن رات سلائی کر کے اپنی آنکھوں کی آدھی بینائی کھو چکی ہے۔ یہاں لوگ روز آدھا کلو آٹا خریدتے ہیں ایک وقت کی کھا کر ایک وقت فاقہ کرتے ہیں ۔ مزدور کو جس دن مزدوری نہ ملے اُس کے بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ۔ صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا کہ “ جس ریاست میں روٹی مہنگی ہو جائے وہاں عزت سستی ہو جاتی ہے” اب بھی وقت ہے اس قوم کا احساس کیجیے ان کی مشکلات میں کمی کیجیے ان کے دکھوں و زخموں پر مرہم رکھیے۔

ان کی اندر مزید تکا لیف برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ ان کی بسس ہو چکی ہے ان کے بس میں کچھ نہیں ہے ان کے صبر کو مزید مت آزمائیے۔ خدا را مہنگائی کے اس بت کو پاش پاش کر دیجیے کیونکہ یہ اُمید ہمیں صرف خان صاحب آپ سے ہے۔ میں مانتا ہوں کے آپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں تب سے مشکلات و مسائل کا ایک طوفان آپکو گھیرے ہوئے ہے کبھی قرض کی اقساط کا مسلۂ تو کبھی کشمیر کا مسلۂ کبھی کورونا کا مسلۂ تو کبھی ایف اے ٹی ایف کی کڑی شرائط مگر زرا غریب کا بھی سوچیئے ۔

۔۔ بقول مزار اسد اللہ خان غالب
ہم نے مانا کہ تغافل  نہ  کر و  گے  لیکن
خاک ہو جائیں گئے تم کو خبر ہونے تک
قوم ہے تو ملک ہے اگر حالات یہ ہی رہے تو لوگ خدا نخوستہ  چوری چکاری ، ڈاکہ زنی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گئے۔ حکومت کا فر ض ہے کہ وہ چھوٹے کاروباری طبقے کا احساس کرئے اُن کی آمدنی میں اضافے کے لئے ان کو آسان اقساط میں سود سے پاک قرضے دے ۔

سرکاری نوکریوں کے دروازے اُن کے لئے کھولے، بیروزگاری کا خاتمہ کرنے کی طرف عملی طور پر قدم بڑھائے، اشیاء خورو نوش ، آٹا گھی چینی چاول تیل بجلی گیس کے نرخ کم کر کے عوام کی پہنچ میں لائیں ۔ گھروں کے لئے آسان اقساط میں قرضے دیں جو سود سے پاک ہوں اور ملک ترقی کی راہ پر حقیقی معائنوں میں گامزن ہو۔
اب قوم پر سے بنیادی ضروریات کی فراہمی کا بوجھ اُتار دیجیے ان کو کچھ تو جی لینے دیجیے دوسرے ملکوں کی طرح ان کی آمدنی کے مطابق ان پر بوجھ ڈالئیے۔

گذشتہ ادوار کی کمیوں کا ذمہ دار نہ تو عوام ہے اور نہ ہی موجودہ حکمران تو پھر کس کس حال دل سنائیں یہ بے چارے عوام۔۔ ان  کے پاس سوا ئے وطن عزیز سے محبت کے اور کچھ نہیں ان وفا شعاروں کی حالت تو یہ ہے کہ دکھ بھی ، تنگی بھی، مسائل بھی ، زندگی کی کم تر سہولتیں بھی مگر جان سو بار قربان اس وطن عزیز پر ۔۔۔ جس کو پوری قوم مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لئے پر اُمید بھی ہے اور بے چین بھی۔


ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیجیے جنہوں نے ملک و قوم کی دولت کولُٹا ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر ہر حد سے گذر چکے ہیں ۔ ان کی نظر میں وفا و جفا دونوں کے مفہوم مختلف ہیں  ان کا بیانیہ عوام کے بیانیے سے مختلف ہے ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ انڈے درجن کے حسا ب سے اور ٹماٹر کلو کہ حساب سے ملتے ہیں درجن کے حساب سے نہیں ۔ یہ اس ملک کی تقدیر کیا بدلیں گئے جو پچاس سال سے روٹی کا نعرہ لگا کر آج تک روٹی کا ایک لقمہ تک عوام کے حوالے نہیں کیا۔
بہر حال حکومت کو عوامی مسائل کے حل کی طرف اب خصوصی توجہ دینے کا عملی مظا ہرہ کرنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :