بجلی کے مسائل اور عوام

جمعرات 12 نومبر 2020

Hamad Hussain Sheikh

حماد حسین شیخ

 ہوش سنبھالتے ہی میرا جن مسائل سے پالا پڑا اُن میں سے ایک مسئلہ بجلی اور اُس کے بل کا بھی ہے۔مگر یہ میرے اکیلے کا مسئلہ نہیں ہے، اوور بلنگ اور لوڈشیڈنگ پاکستانی قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے۔گزشتہ حکومت نے بجلی کی پیداواربڑھانے کے حوالے سے کئی منصوبے شروع کیے، جن میں سے کچھ مکمل بھی ہو گئے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ لوڈشیڈنگ ابھی ختم تو نہیں ہوئی مگر اُس کا دورانیہ بہت کم ہوگیا۔

موجودہ حکومت بھی اس حوالے سے کام کر رہی ہے۔مگر بجلی کی قیمتوں میں بہت حد تک اضافہ اور اوور بلنگ ابھی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں جہاں بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ایک عام آدمی کے لئے کافی مشکل ہے وہاں لائین مین کی من مانی ریڈنگ نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔

(جاری ہے)

لائن مین اپنے مفاد کے لئے بجلی چوروں کے ساتھ مل کرلائن لاسسز کا باعث بنتے ہیں۔ غریب آدمی جو پہلے ہی لاک ڈاؤن کے بعد سے کاروبار میں شدید مندی کی وجہ سے اپنے گھریلو بجٹ کو پورا کرنے کی دوڑ میں لگا ہے،وہ آئے دن گیس، پانی، پراپرٹی ٹیکس، پیڑول، ادویات، مٹی کے تیل اور اشیا خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کو دیکھتا ہے تو ویسے ہی حواس باختہ ہو جاتا ہے۔

وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کیا حکومت نے اس کی کوئی حد بھی مقرر کی ہے یا یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔
 بات ہو رہی تھی بجلی سے متعلقہ مسائل کی تو میری حکومت اور متعلقہ اداروں سے دست بستہ گزارش ہے کہ برائے کرم عوام پر رحم کریں۔ اگر آپ فوری کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے تو کم از کم لائین مین کی من مانیوں کو تو روکیں۔ جب ایک لائین مین اضافی ریڈنگ لکھ کر اضافی بل بھیجتا ہے تو اُس وقت سب سے بڑا مسئلہ ایک عام شہری کے لئے یہ ہوتا ہے کہ وہ بجلی کا بل درست بھی کروا لے تو کوئی بنک اس بل کو جمع کرنے پر راضی نہیں ہوتا۔

کیونکہ غلط ریڈنگ والے بل کو محکمہ ہاتھ سے تو ٹھیک کر دیتا مگرسسٹم سے اُسے ٹھیک نہیں کیا جاتا۔جس کی وجہ سے جب صارف بنک جاتا ہے تو اصل بل کی تفصیل موجود ہونے کی وجہ سے بنک والے اُس بل کو جمع کرنے سے انکاری ہوتے ہیں۔ اگر محکمہ بل کی درستگی کے وقت اس کو سسٹم سے بھی ٹھیک کر کے دوبارہ پرنٹ کر دے تو صارفین کی مشکل آسان ہو جائے گی۔
دوسری جانب لائین لا سسز کو کم کرکے صارفین کے لئے بجلی کے نرخ میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے۔

اس سلسلے میں اگر ہم صرف لاہور کی بات کریں تو لاہور کے ایک علاقہ میں تعینات ایس ڈی او میاں شاہد نے کافی بہتر کارکردگی دیکھائی ہے بہت سی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈال کر محکمے کو لاکھوں کروڑوں کا فائدہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ دشمنیاں بھی مول لی ہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ سچ کا راستہ کھٹن اور دشوار گزار ہوتا ہے۔ یہ تو میرے ذاتی مشاہدے کی بات ہے اس طرح کے بہت سے اچھے آفیسر یقیناً محکمے میں موجود ہوں گے میں تو کسی نہ کسی نایاب ہیرے کو مثال بنا کر اس لئے پیش کرتا ہوں کہ ملک کے دوسرے آفیسرز کا حوصلہ بڑھے اور وہ بھی آگے بڑھ کر وطن کا نام روشن کریں کیونکہ دریا تو قطرے قطرے سے ہی بنتا ہے۔


اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ کام تو تب بہتر ہو گا جب پورے ملک میں بجلی سے متعلق تمام ادارے اسی جانفشانی و محنت سے کام کریں گئے۔ صرف ایک آفیسر اپنے محکمے میں اچھی مثال تو ہو سکتا ہے مگر پورے نظام میں بہتری لانے کے لئے اجتماعی محنت درکار ہے۔
ایک اور بات جو حکومت کے گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ کالا باغ ڈیم و بھاشا ڈیم کی جلد تعمیر ہی ہماری بقا کا واحد ذریعہ ہے ۔

مگر پوری دنیا میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے سولر انرجی اور ونڈ انرجی کا استعمال کیا جاتا ہے یہاں تک کہ حکومتی سطح پر سولر پینل گھروں، دفاتر اور فیکٹریوں کو مہیا کیے جاتے ہیں تاکہ ملک میں بجلی کی پیداوار میں نا صرف اضافہ ہو بلکہ اضافی بجلی کو سنٹرل گرڈ میں شامل کر کے اس آمدنی کو سولر پینل رکھنے والے گھروں اور کاروباری افراد کو ادا کی جاسکے ۔

اس کا آسان مطلب یہ ہے کہ حکومت خود ہی سولر پینل مہیا کر کے اضافی بجلی خود ہی خرید کر صارفین کو ہی فائدہ پہنچاتی ہے۔ جس کے بدلے میں صارفین کی آمدنی میں اضافہ اور فری بجلی کی سہولت بھی ملتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ یورپ امریکہ میں بڑی تیزی سے الیکٹرک گاڑیاں بنائی جا رہی ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے بڑے اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ ان ممالک کی تیل کی کھپت میں کمی واقعہ ہونے سے ان کا بھاری زرمبادلہ بچ سکے۔

مگر بد قسمتی سے پاکستان میں ہم وسائل کی کمی کی بجائے وسائل کی درست تقسیم نہ ہونے کا شکار ہیں لیکن موجودہ حکومت سے بہت سی اُمید یں وابستہ ہیں کہ یہ ان مسائل پر قابو پا لے گی۔ لیکن اس کے لئے موثر منصوبہ بندی اور وقت درکار ہے۔ پاکستان میں بھی سولر انرجی سسٹم کو مالی طور پر عوامی پہنچ تک لایا جائے تاکہ حکومت کا بجلی کی قیمت اور مسائل کا یہ بوجھ کم ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :