ریاستی آنسو ناقابل یقین کیوں۔۔

اتوار 19 اپریل 2020

Hamna Afzal

حمنہ افضل

پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک ہمیشہ ہی معاشی بحران کشتی میں تیرتا نظر آیا ہے۔قائداعظم کی وفات کے بعد اس کشتی کو پار لگانے کا دعوی کرتے ہوئے کئی سیاستدان ملاح تو بنے پر کشتی پار لگنے کی بجائے کنارے سے اور دور ہوتی گئی۔1948 کے بعد اب تک کئی سیاستدان آئے اور گئے لیکن یہ کشتی مسلسل غوطے کھا رہی ہے۔
 2018میں جب  عمران خان نے حکومت کی ڈور اپنے ہاتھوں میں لی تو کہیں نہ کہیں امید کی کرن جاگنے لگی کہ پاکستانی قوم کو ورلڈ کپ ٹرافی دلانے والا یہ شخص اس ڈوبتی کشتی کو کنارے سے ملا دے گا۔

لیکن اس غیر تجربہ کار حکومت کو جب ملک سمبھالنے کا اعزاز ملا تو ملک پہلے ہی معاشی طوفانی بحران کی زد میں تھا۔
رواں سال کرونا وائرس نے عالمی سطح پر خودمختیار ملکوں کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ، چین ،یورپ خواہ ہر طرف سے اس وبا کے سبب معیشت سکڑنے کی خبریں آرہی ہیں۔
ان بڑی بڑی سلطنتوں کی بادشاہت کا یہ حال ہے تو ایک عام پاکستانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی کیا صورتحال ہوگی۔

۔۔ یہ ملک جو 62 ارب ڈالر قرضے کی ادائیگی کا پابند ہے۔ ملک جہاں غربت کی شرح کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہے۔سوچیئے اس وبا سے اس ملک کے معاشی اور اقتصادی ڈھانچے کو کتنا بڑا صدمہ پہنچے گا۔
یہ سوچ ایک کپکپی سی پیدا کردیتی ہے۔ ہر انسان جو اس وقت بے بس ہوکر گھر تک محدود ہے وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا رہا ہے اور اللہ کو پکار رہا ہے کہ بس ہماری آزمائش اب ختم کر۔

آنسووں کے ساتھ ہر دل کی آواز ہے کہ اب تکلیف اور بھوک افلاس سے روتے لوگوں کو نہیں دیکھا جاتا۔
یہ کیفیت اگر ایک عام پاکستانی ،ایک عام شہری، ایک عام انسان کی ہے۔وہ شخص جو اللہ کے سامنے صرف اپنی ذات کے حوالے سے جوابدہ ہے تو سوچیے کہ وہ انسان جس کے اوپر پوری ریاست کی ذمہ داری ہے۔جوعوامی خلیفہ ہے اور رعایا کے بارے میں جوابدہ ہے اس کی دلی کیفیت اس وقت کیا ہوگی۔

۔
میری یہ تحریر کسی کو فیور دینے  یا نئی حکومت کیلئے نرم گوشہ اختیار کرنے کی تجویز پر نہیں ہے۔میرے پچھلے  کالم پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں میرا قلم بھی حکومتی کھلاڑیوں کے لئے تنقیدی الفاظ کے پھول  بکھیر رہا ہے۔لیکن ایسا کیوں ہے کہ سیاستدانوں کو پرکھنے کیلئے ہماری طرف سے ہمیشہ ترش آئینہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ان کا ہر عمل دکھاوے کی مانند  نظر آتا ہے۔


کچھ دن پہلے ایک نجی ٹی وی چینل کی طرف سے عمران خان کی ویڈیو سامنے آئی۔ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان  باغ میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں اور اللہ کا ذکر کرتے کرتے وہ رونے لگے۔چینل کا دعوی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سبب کرونا اور غربت کا پھیلنا ہے۔
دیکھا جائے تو یہ صرف دو تین سیکنڈ کی عام سی ویڈیو ہے۔

ویڈیو جو اس وقت کی کشیدہ صورتحال میں ہر شخص کی ترجمانی کر رہی ہے۔لیکن سیاستدانوں کی ہر عام سی بات کو خاص بناکر  لوازمات کے ساتھ پیش کرنا اب ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔
ویڈیو کے ریلیز ہوتے ہی مخالفین جو تنقیدی توپوں کے ساتھ تیار بیٹھے تھے انہیں نکتہ چینی کی بے بنیاد جنگ لڑنے کا موقع مل گیا۔
کچھ کا کہنا تھا کہ یہ صرف دکھاوے کے لیے کیا گیا۔

تو کوئی ایسے ہمدردیاں بٹورنے کے لیے سوچی سمجھی پلاننگ کہنے لگا۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سیاستدانوں کو عوام کی خاطر آنسو بہاتے دیکھا گیا ہوں۔پاکستان کی بڑی بڑی نامور سیاسی شخصیات عوام کے مسائل پر بات کرتے ہوئے اشکبار ہوئی ہیں۔لیکن بغیر کارکردگی کےصرف لفظوں کے ڈھول بجاتی ایک کے بعد  ایک سیاسی قیادت کے آنسوؤں کو عوام نے ہمیشہ فراموش کیا۔


آج عمران خان کی ویڈیو پر بھی یہی ردعمل آرہا ہے۔جہاں اس تباہ کن وبا پر ہر آنکھ آنسوؤں سے بھیگ رہی ہے وہی سیاستدانوں کی آنکھ سے نکلا ایک آنسو بھی قابل قبول نہیں۔
وزیراعظم عمران خان جو کیی بار اپنی تقریر میں واضح کر چکے ہیں کہ یہ بڑی بڑی قوتیں صرف اس قدرتی وبا سے لڑرہی ہیں لیکن ہماری جنگ کرونا اور مالی بحران دونوں سے ہے۔
بگڑتے حالات پر لاک ڈاؤن کی عمر بڑھائی جا رہی ہے۔

معمولات زندگی پوری طرح سے متاثر ہورہی ہے۔ غربت، بے روزگاری کے ڈیرے ہیں۔ملکی خزانے کا ڈبا امداد کے رحم و کرم پر ہے۔
ایسے میں عوام کے نگہبان کا پریشان ہونا اور اللہ کے سامنے رو کر پریشانی کا حال سنانا ایک فطری تقاضا ہے۔
 لیکن جہاں احساسات اور جذبات سے جڑی اس عوام نے نیوزی لینڈ، برازیل، اٹلی کے حکومتی عہدیداروں کی روتی ہوئی فوٹیج کو( بغیر تصدیق کے) دل سے سراہا ہے۔

وہیں اپنے ہی ملک کے قائد کی فکرمندی کو ڈھونگ ،شو بازی، دکھاوے کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔
 افسوس ہوتا ہے کہ اس پاک سرزمین پر رعایا اور ریاست کا تعلق بس 'شیرآگیا' 'شیرآگیا' کہانی جیسا ہے۔
اس ریاست کے وزیروں نے معصوم عوام کو اتنا بیوقوف بنایا ہے کہ اب سچ جھوٹ، پھول کانٹے، مرہم زخم اور آنسو بس پانی کے مترادف لگتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :