کچھ کہانیاں ایسی بھی

پیر 1 فروری 2021

Hamna Afzal

حمنہ افضل

ٹی وی پر دیکھائی جانے والی مختلف ڈرامائی کہانیاں اور ان کہانیوں میں دلچسپی رکھنا ہمیشہ سے ہی عام عوام کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔کہانیاں 90 کی دہائی کی ہوں یا آج کے موجودہ دور کی ہر کہانی  ناظرین پر ایک تاثر ضرور چھوڑتی ہے۔
ہم اپنے بڑوں کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ کہانیا ں تو وہ جو 90 کی دہائی میں سنائی گئی۔ جب پی ٹی وی کا راج تھا اور پی ٹی وی پر پیش کیے جانے والے ڈرامے ہمیشہ ہی ایک مثبت سبق کے ساتھ اختیام پذیر ہوتے تھے ۔

کہا جاتا  ہے ان ڈراموں میں آج کل کے ڈراموں کی طرح  سازشیں، مکروفریب، لڑائی جھگڑے کم اور عملی سبق زیادہ ہوتا تھا۔
آج کل کے ڈراموں کی بات کرو تو ایک تحریر کا حوالہ دینا چاہوں گی جس کا موضوع ایک سوال تھا کہ کیا ہمارے ڈرامے  اسٹار پلس  کی کہانیاں بنتے جا رہے ہیں؟؟ جہاں عورت یا تو مظلوم ،کمزور ،دکھیاری ابلاناری ہوتی ہے یا مکمل چڑیل کی مانند جس کا مقصد بس دوسروں کی زندگیوں کو برباد کرنا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)


اس سوال کا جواب میرے ذہن میں بھی ہاں میں ہی تھا لیکن حال ہی میں ایک ڈرامے کو دیکھ کر دل باغ باغ ہے اور کہنے پر مجبور ہے کہ کچھ کہانیاں ایسی بھی۔۔
گھسی پٹی محبت  ڈرامے کا نام جتنا منفرد ہے اتنی ہی منفرد اس ڈرامے کی کہانی  تھی جس میں عورت کو دو ٹکے کی  دیکھانے کی بجائے ایک مظبوط با اختیار کردار میں دیکھایا گیا ہے۔
کہانی کا پلاٹ ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتا ہے جو لوہر  مڈل کلاس  گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور اوسط درجے کی نوکری کرتی ہے مگر اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ جب کام کرنا ہی ہے تو کیا چھوٹا  اور کیا بڑا۔

۔یہ اس لڑکی کی کہانی ہے جو اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کی قائل ہے۔سامعہ اپنی پسند سے تین بار شادی کرتی ہے لیکن مختلف حالات کے پیش نظر اس کی تینوں شادیاں ناکام ہو جاتی ہے اور چوتھی شادی کی طرف جانے سے پہلے اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے حصے کا آسمان بغیر کسی سہارے کے بھی چھو سکتی ہے
دشواریوں سے کامیابی تک کی یہ داستان ہر اس لڑکی کی ترجمانی ہے جو مظلومیت کی تصویر بن کر زندگی گزارنے کی بجائے جارہانہ طریقے سے اپنے حالات سے لڑنے پر یقین رکھتی ہے اور اپنے حصے کا آسمان خود چنتی ہے۔


فصیح باری خان کے لکھے گئے اس ڈرامے میں معاشرے کے غلط رویوں اور وجود زن سے جڑ ی ہماری دقیانوسی سوچوں کو  انتہائی خوبصورتی سےطنزیہ اور مزاحیہ انداز میں  بیان کیا گیا ہے۔۔
ہم آج کے دور میں بغیر کسی خوف کے  ویمن امپاورمنٹ اور فیمینیزم پر بات کرتے ہیں پر کبھی کبھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں بس الیٹ کلاس پر فٹ بیٹھتی ہیں۔ لیکن گھسی پٹی محبت میں جس طرح ایک عام سی لڑکی کو خاص بنا کر پیش کیا ہے وہ واقعی کمال ہے۔

سامعہ جو عام سی نوکری سے گھر چلاتی ہے، نوکری کی جگہوں پر ہراسگی کا سامنا کرتی ہے،اپنی من پسند جگہ پر تین بار اپنی مرضی سے شادی کرتی ہے پر ہر بار شوہر کی طرف سے ٹھکرا دی جاتی ہے، وہ گرتی ہے، زندگی کی دربدر کی ٹھوکریں کھاتی ہے، غلط فیصلے کرتی ہے، ان سے سیکھتی ہے اور اطمینان رکھتی ہے کہ یہ زندگی اس کی ہے تو فیصلے بھی اسی کے ہو گے۔ یہ لڑکی ڈر کر   کبھی روکتی نہیں، کبھی زندگی سے ہارتی نہیں اور نہ ہی مظلومیت کی چادر اوڑھ کر خود کو روگ  لگا تی ہے
اس ڈرامے کی ہر قسط میں  ایک مثبت پیغام ہے اور زمانے میں بسی ان تمام رسموں پر تنقید ہے جو آج کے دور میں بھی عورت کی بہادری سے خفا ہیں۔

   اگر اس پوری ڈرامے کو میں آج کے دور میں آج کی نسل کے لیے سبق آموزی سے جوڑو تو کچھ اس طرح سے اسے اخذ کرنا چاہو گی:
عورت کی خوش قسمتی اور بد قسمتی اس کی شادی کے کامیاب ہونے سے نہیں جڑی
عورت کا گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر کام کرنا اتنا ہی قابل عزت ہے جتنا مرد کا گھر سے باہر نکل کر روزی کمانا
شادی کے بندھن کی مضبوطی میں دونوں فریق کا کردار ضروری ہے ایک طرفہ دھکا اس رشتے کو کامیاب نہیں بنا سکتا
عورت فرشتہ اور شیطان میں بھٹی شے نہیں بلکہ یہ دنیا میں موجود ہر مخلوق کی طرح اچھائی اور برائی کا مکمل وجود ہے
مختلف شعبہ جات کو جنس سے منسوب کر دینے سے معاشرہ ترقی نہیں کر پاتا۔

اسی معاشرے میں عورت کاروبار ی ذہن بھی رکھ سکتی ہے اور ٹرانس جینڈرز  معاشرے کے ہر فرد کی طرح معتبر طریقے سے روزی بھی کما سکتے ہیں۔
زندگی میں کچھ بھی کھو جاے پر پھر بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے جس کی تلاش میں زندگی چلتی رہنی چاہیے۔
آخر میں اس ڈائیلاگ کو لکھنا چاہو گی جو آخری قسط میں ادا کیا گیا اور سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا
"آسمان کو چھونے کے لیے تارے توڑنے والے کی تلاش ہی کیوں، کوئی ہوتا تب بھی اس کھوج کو کیوں رکنا چاہیے تھا، یہ آسمان تو میرا ہےاسے مجھے ہی چھونا ہے، چھونے جا رہی ہوں آہستہ آہستہ، ایک ایک قدم بڑھا کر""۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :