پکچر ابھی باقی ہے۔۔

اتوار 12 اپریل 2020

Hamna Afzal

حمنہ افضل

حکومت کی طرف سے کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے ٹائیگر فورس کا تشکیل دینا حالات کے پیشِ نظر ایک واجبی عمل ہے۔ یہ ٹائیگر فورس اور اس کے مقاصد تو ہر عقل و فہم رکھنے والے انسان کو سمجھ آتے ہیں لیکن یہ 25 اپریل کی پکچر  سے پہلے کا ٹریلر کچھ پلے نہیں پڑتا۔
آٹا چینی بحران پر ایف آئی اے کی مکمل تحقیقات پر مبنی رپورٹ 25 اپریل کو سامنے آنے تھی لیکن اس سے پہلے ہی حکومت نے میڈیا کو کرونا سے ہٹ کر بات کرنے کا موقع فراہم کردیا۔

رپورٹ جو آجکل پورے اثرورسوخ کے ساتھ اخبارات کی سرخیوں اور ٹاک شوز کی زینت بنی ہوئی ہے۔لیکن یہ بات سمجھ سے قاصر ہے کہ پیپر سے پہلے پیپر لیک کرنے کا مقصد کیا ہے؟؟
وفاقی حکومت کی جانب سے بغیر کسی پریس کانفرنس، پریس ریلیزکے یک دم آٹا ،چینی کرپشن میں بڑے بڑے سیاسی ناموں کے ہونے کا انکشاف کرنا کیا ایک سوچی سمجھی پروٹیکٹیو گیم ہے؟
آٹا، چینی بحران کی رپورٹ شائع کرنے پر عوام اور خاص طور پر پی ٹی آئی سپوٹرز کی طرف سے تو یہ حکومت خوب داد سمیٹ رہی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن مختلف صحافی، تجزیہ کار اور دیگر ماہرین جو سیاست کی باریکیوں کو خوب سمجھتے ہیں اس رپورٹ کو ہر زاویے سے جانچ رہے ہیں۔
ان حالات میں رپورٹ پبلک کرنا اور اپنے ہی کھلاڑیوں کی بدعنوانی کو بے نقاب کرنا ہر سیاسی لیڈر کے بس کی بات نہیں۔ عمران خان کو اس پر بھرپور کریڈٹ دیا جا رہا ہے۔ یہ نا قدین کے لیے ایک جواب بھی ہے جو کہتے نہیں تھکتے تھے کہ احتساب تو ہو رہا ہے لیکن صرف ایک طرفہ۔

۔ آج اپنی ہی ٹیم کے  تجربہ کار کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے عمران خان نیازی نے احتساب کا عمل اپوزیشن تک محدود نہیں رہنے دیا اور ثابت کیا کہ احتساب بلا امتیاز ہوگا۔
لیکن اس رپورٹ کے اگر ہر زاویے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور مختلف سیاسی تجزیہ کاروں کے بیانیہ کو پڑھا جائے تو صورتحال کچھ اور ہی بنتی نظر آتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق تین ارب روپے کی سبسڈی دے کر شوگر ملز مالکان کو دس لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور دوسری طرف گنا سستا ہونے کے باوجود ملکی سطح پر چینی کی قیمت میں من چاہا اضافہ کیا گیا۔


سبسڈی دینے کے باوجود مہنگے داموں چینی فروخت کرکے ناجائز پیسہ بنانے والوں میں  حکومت کی دو معتبر شخصیات جہانگیر ترین اور خسروبختیار بھی شامل ہیں۔
واضح رہے اس رپورٹ میں سوال پنجاب حکومت پر بھی اٹھ رہے ہیں کہ پنجاب حکومت نے اتنی آسانی سے اتنی بڑی رقم سبسڈی  کے طور پر کیسے پیش کر دیں ؟؟
کیا پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو اعتبار میں لیے بغیر یہ فیصلہ کرلیا؟ یا پھر سرکار کے کہنے پر یہ قدم لیا گیا؟۔


اگر آٹا، چینی بحران ایک مکمل سازش کے تحت پیدا کیا گیا تو کیا یہ سازش پوری ٹیم کی تھی؟؟کیا سارا میچ فکس تھا؟؟ یا کچھ منجھے ہوئے کھلاڑیوں نے شرارت کرنے کی کوشش کی؟؟
انگلیاں تو اٹھیں گی اور خدشات بھی پیدا ہوں گے کہ جب پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کو لیڈ کرنے والا واحد شخص عمران خان ہے اور اس بات کا اعتراف  عمران خان  نےخود کیا ہے کہ سب فیصلے میرے سے ہوکر  طے پاتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی کرپشن سے حکومت بے خبر ہو اور قانون کی ناک تلے  غیر قانونی کھیل کھیلا جارہا ہوں؟؟
ایف آئی اے کی اس رپورٹ پر اپوزیشن کا بھی شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔

مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق یہ دفاقی اور صوبائی حکومت کی طے شدہ سازش ہے۔اب پی ٹی آئی اپنے لئے سزا مقرر کریں۔۔
جہاں ایک طرف اس نئی نویلی سرکار کو کرونا جیسی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہیں دوسری طرف ایف آئی اے کی اس رپورٹ نے حکومت کے لیے مشکل اور پیچیدہ سوالات پیدا کر دیے ہیں۔
 کیا 25 اپریل کے بعد حکومت اپنے ہی جانشینوں کے خلاف کاروائی کرنے جارہی ہے؟؟  کیا ایف آئی اے اور نیب انڈیپینڈنٹ ادارے ہوتے ہوئے انکوائری بلا تشخیص کریں گے؟؟ کیا کرپشن مافیا کو سزا دی جائے گی؟؟ کیا احتساب کے نعرے لگا  کر وزیراعظم کی کرسی لینے والے عمران خان ان نعروں کو عملی شکل بھی دیں گے؟؟
 کیا شفافیت پر مبنی تعقیقات سے عوام کو آگاہ رکھا جائے گا؟؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات 25 اپریل کو آنے والی فرانزک آڈٹ کے نتائج سے جڑے ہیں۔


البتہ اس ٹریلر سے یہ تو آسانی سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان اب خلش کی نہ ٹوٹنے والی دیوار کھڑی ہو چکی ہےاور ان کی راہیں اب جدا جدا ہیں۔جہانگیر ترین کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور جہانگیر ترین بھی ایک ٹاک شو میں بتا چکے ہیں کہ اب وہ سیاست کو نہیں بلکہ بزنس اور فیملی کو ٹائم دیں گے۔
ان راہوں کے جدا ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کتنا خمیازہ بھگتے گی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔لیکن سچ مانے اس جے ویرو کی جوڑی کو پی ٹی آئی کے چاہنے والے ہمیشہ مس کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :