کرونا وائرس اور ہماری ذمہ داریاں

منگل 28 اپریل 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

یوں تو تاریخ انسانی میں بہت سی وباؤں نے عالم انسانیت کو گھیرا جن میں 1720 سے ہر صدی کا جائزہ لوں تو ہر صدی بعد کوئی نا کوئی وائرس ہمیں ضرور نظر آتا ہے 1720 طاعون ، 1820 ہیضہ، 1920 بوبونک طاعون اور اب 2020 کرونا وائرس۔چین کے ووہان سے نئے کرونا وائرس کی بڑھتی ہوئی وباء کے بارے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ 1720 کے طاعون سے شروع ہونے والی پوری تاریخ کا ایک حصہ ہے۔

کیا تاریخ نے واقعی اپنے آپ کو دہرایا ہے؟ بہر حال دسمبر 2019 میں چین کے صوبہ وہان سے شروع ہونی والی وبا کرونا وائرس اس وقت عالمی وبا بن چکی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ چینی قوم نے کس احسن طریق سے کرونا کو فقط 3 ماہ میں شکست دی۔ بہر حال اس وقت یہ وائرس براستہ ایران بارڈر پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس ملک میں اپنے پنجے گاڑھ رہا ہے۔

(جاری ہے)

حکومت وقت نے لاک ڈاؤن کا نوٹیفکیشن تو جاری کیا مگر ہمیں آج بھی بازاروں و دیگر جگہوں پر عوام کا ہجوم نظر آتا ہے۔اس وبا کو ہم سب نے ملکر شکست دینی ہے جیسے ہم نے دہشتگردوں و دہشتگردی کو شکست دی۔ ہمیں بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہئیے، اسی طرح ماسک کا استعمال اور بار بار ہاتھ دھونا بھی ہماری ذمہ داریاں ہیں۔ یہ وہ ذمہ داریاں ہیں جس کو ہم نے اپنانا ہے، اب حکومت آکر سب کو ماسک یا ہاتھ نہیں دھلوا سکتی۔


اسی طرح ہمیں اب شادی بیاہ و دیگر اجتماعات بشمول نماز جمعہ و مسجد میں با جماعت نماز کو بھی کچھ عرصہ کے لیے موخر کرنا چاہئیے۔ امام مدینہ نے بھی فرمایا کہ "لاکھوں مسجدیں ہونے پر پریشان نا ہوں، کروڑوں گھروں کو مساجد بنا دیں"۔۔ یہ وبا اتنی خطرناک نہیں جتنا انسان پریشان ہو کر اپنی زندگی تباہ کر رہا ہے۔ گویا ذہنی سکون، صبر و احتیاط بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

اسی طرح ہمیں غربا، ہمسائیوں و اردگرد احباب پر نظر رکھنی چاہئیے اور جس قدر امداد و مدد کر سکیں کرنی چاہئیے۔احساس و بھائی چارے کو فروخ کرنا اس وقت قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
اگر میں ملکی سیاسی منظر نامہ کو دیکھوں تو اپوزیشن اس مشکل وقت میں بھی حکومت اور حکومت اپوزیشن کے خلاف نظر آتی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ وفاق و سندھ کے بیانیے بھی مختلف نظر آتے ہیں۔

مذہبی رہنماؤں کی بات کروں تو اس وقت دو الگ الگ طبقات و نظریات اٹھ چکے ہیں۔ ایک طرف ایک طبقہ باجماعت نماز ادا کرنے کا کہتا ہے تو دوسری جانب گھروں میں نماز ادا کرنے کا فتویٰ دیتا نظر آتا ہے۔ اس وقت، وقت کی ضرورت ہے کہ تمام طبقات بلخصوص سیاسی و مذہبی رہنما ایک پیج پر متفق ہوں تاکہ قوم و عوام کو بھی ایک واضع سمت میسر ہوسکے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یکجا ہو جائیں تاکہ متحد ہوکر اس کرونا وائرس کو شکست دے سکیں۔


 اسی طرح اگر میں افراد کی ذمہ داری کی بات کروں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کرونا وائرس سے خوف زدہ نا ہوں بلکہ اپنے آپ کو مضبوط بنا کر اس وبا کو شکست دیں۔ اس کے لیے اچھی غذا یعنی ایسی غذا جو قوت مدافعت کو بڑھاے انکا کثرت سے استعمال انتہائی اہم ہے۔ پھل، سبزیاں، وٹامن ای کا استعمال، گندم وغیرہ کا استعمال اس وقت انتہائی اہم ہے۔ بے  شک اس وقت ہم قرنطینہ کی حالت میں ہمیں پریشان ہونے کی بجاے مختلف کتب کا مطالعہ کرنا چاہئیے۔

فیملی کو زیادہ ٹائم دینا چاہئیے۔ جدید و مصروف ترین زمانے میں والدین و بچوں میں کافی فاصلہ آگیا تھا،اب اس گولڈن ٹائم میں والدین کو بچوں کی خاص تربیت کی جانب متوجہ ہونا چاہئیے۔اس وقت کو صرف انٹرنیٹ و ٹی۔وی کی نظر نہیں کرنا چاہئیے بلکہ والدین/اولاد، کتب (دنیاوی/دینی)، اخلاقی و روحانی تربیت، ورزش و دیگر مفید مصروفیات کے بھی نظر کرنا چاہئیے۔

گھر میں باجماعت نماز کا اہتمام و بچوں میں نماز و عشق الہی کا شوق اجاگر کرنا چاہئیے تاکہ سوسائٹی کی بنیاد فیملی مضبوط و مستحکم ہو جس سے معاشرہ بھی مضبوط و مستحکم ہو۔ہم سب کو، ہر فرد کو مکمل ذمہ داری نبھانی ہوگی اور مکمل احتیاط کرنا ہوگا۔
اسی طرح جہاں صحت مند خوراک اچھی صحت کی ضامن ہے اسی طرح انسان کیاچھی ذہنی کیفیت بھی اچھی صحت کی علامت ہے۔

ہمیں اس وبا کے دنوں میں اپنے آپ کو غیر ضروری و پریشان کن سوچوں سے دور رکھنا ہوگا۔ جہاں صحت مند خوراک کا استعمال کرنا چاہئیے، ویسے ہی گھر میں ورزش و یوگا کو بھی اپنا معمول بنا لینا چاہئیے تاکہ جسم تندرست و چست رہے۔ اسی طرح گھر کے مختلف کاموں و کتب بینی و دیگر مشغلوں میں اپنی مصروفیات کو وقف کرنا چاہئیے تاکہ ذہنی کیفیت بھی توازن رہے۔

اچھی صحت، ذہنی توازن و چستی و تندرستی سے ہم اس وبا کو شکست دے سکتے ہیں۔
 ہمارا ملک ہم سے ہے اور ہم اس ملک سے ہیں۔ جس قوم نے دہشت گردی، 2005 کا زلزلہ و دیگر مسائل دیکھے ہوں اور ہر محاذ پر متحد رہی ہو۔ اگر اب بھی متحد رہی تو یقینا" اس وبا کو بھی شکست دے سکتی ہے اس کے بر عکس اگر ہم نے ذمہ داری کا مظاہرہ نا کیا تو ہم بکھر سکتے ہیں۔ صرف حکومتی اقدامات و فیصلوں سے ہم کرونا کو شکست نہیں دے سکتے، ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کا ہر فرد ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تاکہ ہم جلد از جلد اس وبا کو شکست دے سکیں۔ مجھے امید ہے کہ انشااللہ ہم جلد کرونا وائرس کو بھی شکست دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :