اساتذہ پر لاٹھی چارج و گرفتاریاں!

جمعرات 24 دسمبر 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

استاد وہ شخصیت ہے جو ماں کے بعد دوسری بڑی درس گاہ ہے اور اس درسگاہ سے گزر کر ہی ایک شخص کامیابی کی منازل طے کرتا یے۔ یہاں کوئی شخص ایسا نہیں جس کا استاد نا ہو ہر شخص کسی نا کسی استاد کا شاگرد ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں استاد کو بڑی اہمیت ڈی جاتی ہے اور استاد کو ہی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ دین اسلام کا اگر بغور مطالعہ کیا جاۓ تو دین حق نے بھی استاد کی کے حقوق اور عزت کے احکامات کا حکم دیا۔

اسی طرح حضرت امام علیؓ نے بھی فرمایا کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا اس نے مجھ اپنا شاگرد کر لیا۔ یہ وہ شخصیت نے فرمایا جس سے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا کہ علیؓ علم کا دروازہ ہے۔ گویا علم کی تقسیم ہی جب حضرت علی ؓ سے ھوکر گزرتی ہے۔ یہ شعبہ ایسا شعبہ ہے کہ جو کسی بھی ملک میں سماجی انقلاب سے لے کر فکری انقلاب تک پیدا کرسکتا ہے۔

(جاری ہے)

استاد وہ ہستی ہے جو بچے کو سیڑھی چڑھنا سیکھاتی ہے اور اسے روشن مستقبل کی جانب سمت فراہم کرتی ہے۔

  استاد کسی بھی معاشرہ کا بنیادی حصہ ہیں اور ان کے بغیر یہ ملک کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ کروناوائرس کی پچھلی لہر کے دوران ہم نے اپنی آنکھوں سے اساتذہ کو سبزی کی ریڑھی لگاتے دیکھا تو کسی کو برگر و شوارما تک لگاتے دیکھا بہر حال پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ماہ اسکول کھلنے کے فوری ایک ماہ کے اندر اندر اسکول پھر بند کر دیے جاتے ہیں۔

بچوں کو بغیر امتحان پاس کیا جاتا ہے اور پھر بچوں اور تعلیم کا فاصلہ بڑھا دیتا ہے۔  بہر حال خدا خدا کر کہ تعلیمی ادارے تو کھلے مگر کرونا کی دوسری لہر آتے ہی سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو بند کیا گیا اور اطلاعات ہیں کہ مزید جنوری بھی تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔
ہم نے وفاقی وزیر براۓ تعلیم۔ شفقت محمود صاحب کا بیان سنا تھا کہ آن لائن کلاسز ہوں گیں جس ملک میں سرکاری تعلیمی اداروں میں کرسی، چھت، پنکھا و استاد تک نا ھو اور جس ملک میں سرکاری اسکول میں آنے والے بچے کے پاس ٹوٹی ہوئی جوتی ھو اور آٹے کے تھیلے کا بستہ ھو وہاں آن لائن کلاسز کی بات مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔

جس گھر میں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہ کہاں سے سمارٹ فون اور انٹرنیٹ بچوں کو لا کردیں گے۔ بات اگر متوسط طبقہ کی کروں تو اگر ایک گھر میں تین بچے ہیں اور سب کی کلاسز کا ٹائم ایک ھو تو کیسے ایک موبائل پر الگ الگ کلاسز لی جاسکتی ہیں۔ حکومت وقت کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنا چاہئیے اور عام آدمی کو ریلیف دینا چاہئیے۔ گزشتہ دو روز قبل لاہور مال روڈ پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے احتجاجی مظاہرہ کیا جس اور انکی مرکزی قیادت چیئرمین۔

آل پاکستان اکیڈمیز ایسوسی ایشن رانا انصر محمود، چیئرمین آل پنجاب  کالجز اینڈ اکیڈمیز ایسوسی ایشن عادل خلیق، کاشف ادیپ و دیگر مرکزی رہنماوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا اور گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی۔ اس موقع پر سوچا شائد پرائیویٹ سیکٹر ہے اور اپنی دوکان کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں مگر دوسری طرف انکا کیا قصور ہے جو استاد ہے، جس کی کینٹین ہے اسکا کیا قصور ہے اور پھر اسٹیشنری کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہے۔

حکومت وقت کو لاٹھی کی بجاے بات چیت سے معاملات کی نبٹانا چاہئیے۔ اساتذہ کے ہاتھ کی تھامنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف ایک احتجاج اسلام آباد بنی گالا کے باہر ہوتا ہے یہ احتجاج سرکاری اساتذہ کا ہے جس پر پولیس شیلنگ و گرفتاریاں کرتی ہے۔ یہ 11 ہزار سے زیادہ وہ اساتذہ ہیں جنکو 2014 سے مستقل ہی نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ن لیگی حکومت والی روش اختیار کرلی ہے کہ تشدت سے ہر تحریک کو کچل دو۔

کبھی مال روڈ پر نابینا افراد لا چار نظر آتے ہیں ٹی کبھی اساتذہ پر لاٹھی چارج و گرفتاریاں نظر آتی ہیں۔ آخر کب تک اس ملک میں لاٹھی ڈنڈا، فائرنگ و آنسو گیس چلتا رہے گا ؟ ہم کیوں بات چیت سے افہام و تفہیم سے معاملات طے نہیں کرتے؟ میری حکومت وقت خاص طور پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ قوم کے معماروں اور بھی توجہ کریں۔

انہی نے قوم کو شعور دینا ہے اور علم و حکمت کی بنیاد فراہم کرنی ہے۔ اگر معمار پر ہی ظلم و تشدت ہیں گے اور معاشرہ کی تعمیر کیسے ممکن ہے۔ وزیراعظم صاحب کو ایسی پالیسی بنانی ھوگی کہ جس سے چھوٹا ٹیچر بھوکا نا مرے اور دو وقت کی روٹی اسے میسر نا آسکے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب سے مجھے مثبت امید ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کی درستگی اور یکساں تعلیمی نظام کو رائج کریں گے تاکہ اس ملک میں برابر تعلیم مل سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :