پی۔ڈی۔ایم اور کرونا وائرس

اتوار 29 نومبر 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

تاریخ پاکستان کا اگر بغور جائزہ لیا جاۓ تو ہمیشہ انتخابات پر جماعتیں متفق نہیں رہیں۔ ہمیشہ اقتدار میں آنے والی جماعت نے شفاف انتخاب ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ ہارنے والی جماعتوں نے انتخابات چوری ہونے یا دھاندلی کا الزام لگایا۔  شائد ہارنے والی جماعت فقط اس لیے اس نعرے کو لگاتی ہے تاکہ جماعت کے کارکن اور ووٹر جماعت سے جڑے رہیں اور کوئی جواز رہے۔

90 کی دہائی کی چھوڑ کر اگر حالیہ دو دہائیوں بات کروں کو 2002 مشرف دور حکومت کو بھی دھاندلی زدہ کہا گیا اور ق لیگ و دیگر حکومتی جماعتوں نے انتخابات کو درست قرار دیا۔ اس وقت مولانا فضل الرحمن و ن لیگ نے ملکر اپنا وزیراعظم لگانا چاہا مگر پاکستان پیپلزپارٹی نے شاہ محمود قریشی کو وزیراعظم کا امیدوار نافذ کیا۔

(جاری ہے)

اپوزیشن کی تقسیم کی وجہ سے ظفر جمالی صاحب وزیراعظم منتخب ھوے۔

اس کے بعد 2008 کے انتخابات کو بھی اگر دیکھا جاۓ تو تحریک انصاف نے تو اسکا بائیکاٹ کیا مگر پیپلزپارٹی نے میدان مارا تو اب اپوزیشن میں ق لیگ نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے دیا۔ ہم نے دیکھا کہ ن لیگ کیسے پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف اور ججز بحالی تحریک میں نکلی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے مگر کشمیر محاذ پر سردی رہی۔

اس شہباز شریف کے نعرہ کہ "آصف زرداری کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر نا گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں!" اسی طرح کبھی موصوف فرماتے تھے کہ "میں علی بابا چالیس چور (زرداری و گروپ) کے پیٹ سے قوم کا پائی پائی نکالوں گا"۔ جہاں یہ تماشے لگا کر قوم کو بیوقوف بنایا گیا اور ووٹ لینے کے لیے عوام کے جذبات سے کھیلا گیا اسکی مثال نہیں ملتی۔ 2008 کے بعد 2013 کے انتخابات کو تاریخ کا سب سے زیادہ دھاندلی زدہ کہا گیا۔

سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی مگر وفاق میں دھاندلی کا الزام لگاتے۔  دوسری طرف مولانا فضل الرحمن ایک مرتبہ پھر حکومت کا حصہ بٹے ہیں اور کشمیر کمیٹی کے سربراہ رهتے ہیں۔ تحریک انصاف کا ووٹ ان انتخابات میں کافی متاثر کن ٹھا اور 32 وفاق کی سیٹیں جبکہ کے۔پی۔کے میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ جیتنے والی جماعت کے علاوہ تمام جماعتوں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، ق لیگ، ایم۔

کیو۔ایم، جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ اس ملک میں کبھی ہار کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا اور انتخابی اصلاحات پر موثر قانون سازی ہی نہیں کی گئی۔ مجھے نہیں لگتا کہ الیکٹ ایبل خود کبھی ایسا اصلاحی انتخابی نظام لانا پسند کریں گے جس سے عوامی لوگ اسمبلی میں حصہ بن سکیں۔ جس سے طلبہ کا نمائندہ طالب علم اسمبلی میں ھو، وکیل کا نمائندہ وکیل، اساتذہ کا نمائندہ استاد، کسان کا نمائندہ کسان، مزدور کا نمائندہ مزدور و دیگر اسمبلی میں ھو۔

اگر میں دھاندلی پر جلسہ، ریلی و لانگ مارچ کی حالیہ رسم کو دیکھوں تو یہ رسم تحریک انصاف نے 2014 میں شروع کی۔ آزادی مارچ میں وزیراعظم و چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جس قدر دھاندلی اور حکومت کے خاتمہ کی آواز اٹھائی جو اب نئی لہر لے چکا ہے۔
2018 انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگاے اور نواز شریف، مریم نواز و کیپٹن (ر) صفدر کو دس اور سات سات سال کی قید کی سزا ہوئی۔

پھر ہم نے دیکھا کیسے نواز شریف علیل ھو می اور 4 ہفتوں کی دوائی لینے کے لیے لندن گئے اور آج تک واپس نہ آسکے۔ بہر حال ہم نے پچھلے سال مولانا فضل الرحمن کا اسلام آباد پڑاؤ بھی دیکھا اور مذاکرات سے معاملہ سلجھتا بھی دیکھا۔ اس وقت ن لیگ،پیپلزپارٹی، جمیعت علمائے اسلام (ف)،اے۔این۔پی و دیگر جماعتوں کا ایک اتحاد پی۔ڈی۔ایم یعنی پاکستان ڈیموکریٹک الائنس وجود میں آ چکا ہے جس کی قیادت مولانا فضل الرحمن خود کر رہے ہیں۔

اے۔پی۔سی کے بعد بناے گئے پروگرام کے تحت 17 اکتوبر گجرانوالا جلسہ عام سے تحریک کا آغاز کیا جو بعد ازاں کراچی، کوئٹہ اور اب پشاور پہنچتا ہے۔ ن لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف نے لندن سے خطاب کرتے ھوے جس طرح ملک کے اہم ادارے کے سربراہ پر دھاندلی و دیگر الزامات لگاے اسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ نواز شریف نے کوئٹہ جلسہ عام میں بھی اسی روایت کو برقرار رکھا۔

یہ وہی نواز شریف ہیں جو جنرل ضیاء الحق کے جوتے سیدھے کرکہ اوپر آے اور آج ایک اژدھا کی مانند ہیں۔ اگر انھیں آج کا الطاف حسین کہا جاۓ تو مضحکہ خیز نہیں ہوگا۔ یہ قائد محترم خود لندن بیٹھ کر امام خمینی بننا چاھتے ہیں اور عوام کے بچوں کو مروانا چاھتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جنکی گاڑی کے ٹائر کے نیچے آکر بچہ دم توڑ گیا اور قائد محترم گاڑی سے باہر بھی نہ آسکے۔

انہی کے دور حکومت میں ماڈل ٹاؤن میں 14 لوگوں کو براہ راست گولیاں ماری گئیں اور فیض آباد میں عاشقان رسول ﷺ کو گولیاں ماری گئیں۔ قائد محترم نے کلبوشن یادیو کی گرفتاری پر عالمی سطح پر ایک لفظ نہیں اٹھایا اور انھیں کے دور حکومت میں ڈان لیکس بھی کروائی گئی۔ جنرل کرامت سے لے کر جنرل مشرف تک آرمی چیف سے جناب کو مسائل ہی رہے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ و سپریم کورٹ پر حملہ بھی جناب کے رفقا نے کیا۔


 بہر حال حالیہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران حکومت سخت پابندیاں لگانا چاہتی ہے مگر پی۔ڈی۔ایم اپنے سیاسی ایجنڈا کو آگے لے کر چلنا چاہتی ہے۔ حالیہ فیض آباد دھرنا اور مذاکرات حکومت کے لیے مثبت رہے مگر دوسری جانب مولانا خادم حسین رضوی مرحوم کے بعد مذہبی طبقہ مزید متحرک ھوچکا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق تحریک لبیک کے نئے امیر و علامہ صاحب کے بیٹے صاحبزادہ حافظ سعد حسین رضوی زیادہ اگریسو ہیں اور ایگریمنٹ پر عمل درآمد کا فروری تک انتظار کیا جاۓ گا۔

حکومت وقت کو معاملات کو احسن طریق سے نبٹا لینے چاہییں تاکہ ملک مثبت رخ چل سکے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو بند کر کہ آن لائن کلاسز کی جائیں گئیں۔میرے ذاتی تجزیہ کے مطابق پی۔ڈی۔ایم میں اتنا دم نہیں کہ حکومت کو چلتا کرے۔ گلگت بلتستان ناکامی کو چھپانے کے لیے جماعتیں کوشش کریں گئیں مگر پیپلزپارٹی سب سے پہلے پی۔ڈی۔ایم سے الگ ہوگی۔

آئندہ چند ہفتے سیاسی و کرونا وائرس کے بڑھاؤ کے ھوسکتے ہیں۔ عوام کو اپنی صحت کا مکمل احتیاط کرنا چاہئیے۔ ایک صحت مند خاندان ایک صحت مند معاشرہ کا ضامن ہے۔ پی۔ڈی۔ایم کو اپنی تحریک کچھ ماہ کے لیے موخر کرنی چاہئیے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ مناسب وقت پر مناسب حکمت عملی سے میدان میں اترنا ہی عقلمندی ہے۔ حالیہ چند دنوں میں مولانا خادم حسین رضوی صاحب کا وصال ہوا اور بعد ازاں انکا نماز جنازہ مینار پاکستان گراؤنڈ میں ادا کیا گیا۔

اگر پچھلے 55 سال کی تاریخ دیکھی جاے تو یہ جنازہ عددی اعتبار سے انتہائی بڑا ٹھا اور اعداد و شمارکے مطابق مولانا مودودی و ممتاز قادری و دیگر جنازوں سے یہ جنازہ بڑا تھا۔اسی طرح میاں محمد شریف (مرحوم) کی اہلیہ، نواز و شہباز شریف کی والدہ kکا بھی انتقال ہوا۔ اللہ‎ کریم سے دعا ہے کہ وہ بخشش عطا کرے۔آمین اس وقت کرونا وائرس کی دوسری لہرکی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے لاک ڈاؤن کی تجویز سے انتہائی نہ خوش ہیں۔

گزشتہ دنوں آل پاکستان اکیڈمیز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رانا محمود انصر سے میری تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے کہا تعلیمی ادارے بند ہونے کی صورت میں ہم دھرنا دیں گے۔ حکومت وقت کو ایسی پالیسی بنانی ہوگی جس میں ہر طبقہ بہتر طریق سے روزگار کما سکے اور آگے بڑھ سکے۔ امید ہے کہ پاکستان آئندہ مثبت سمت کی جانب رواں دواں رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :