پھر تم سا نا کوئی ہوا

جمعرات 22 اکتوبر 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

اس میں کوئی شک نہیں جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے اس دنیا سے جانا بھی ہے اور آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ آج کی تحریر دوسری تحریروں سے مختلف مگر خاص اس شخص کی یاد اور خراج عقیدت کے لیے ہے جو علم کا مشتاق اور علم کو دوسروں میں بانٹتا تھا۔ وہ شخص بذات خود آج کے نوجوانوں کے لیے ہمت و حوصلہ کا نشان ہے۔ 25 مئی 1939 کو ضلع راولپنڈی تھانہ جاتلی کے گاؤں جھنگی پھیرو میں پیدا ہونے والا خالد محمود وہ شخص تھا جس نے ثابت کیا کہ محنت، مشقت اور علم کے ساتھ سے انسان ترقی کی منازل کو طے کرسکتا ہے۔

نومبر 2019 کے دوران میں نے ایک تحریر لکھی تھی جس کا موضوع ہی صوبیدار (ر) خالد محمود بھٹی مرحوم کے نام سے تھا۔ میری کوشش ہوگی کہ آج کی تحریر اس تحریر سے مختلف ہو۔

(جاری ہے)

آپ کے والد کا نام فضل احمد جبکہ والدہ کا نام کرم نور تھا۔ خالد بہن بھائیوں میں سب سے بڑا بھائی تھا جس نے غربت کو بچپن سے ہی اپنے گھر میں پایا مگر بچپن سے ہی آپ علم کے مشتاق تھے دن رات آپ کتب بینی میں مصروف رہے۔

میٹرک کرنے کے لیے آپ کی داخلہ فیس کی مدد محمد حسین نامی شخص کرتے ہیں۔بہر حال میٹرک کے بعد 2 اکتوبر 1958 میں آپ پاک فوج کو جوائن کر لیتے ہیں اور اس وقت آپ کی عمر 19 سال تھی۔ اب خالد محمود اپنے بہن بھائیوں کی شادیاں بھی کرواتے ہیں اور پھر اکثریتی بھائیوں کو پاک فوج میں بھرتی بھی کرواتے ہیں۔ یہ وہی خطہ ہے جہاں سے اکثریتی افراد پاک فوج سے منسلک ہوتے ہیں۔

پاک فوج کی سروس کی بات کروں تو آپ نے لاہور محاذ پر 1965 و 1971 کی جنگیں بھی لڑیں جبکہ 1965 کی جنگ میں آپ نے اپنے سینے پر دشمن کی گولی بھی کھائی اور غازی رہے۔ آپ نے میٹرک کے بعد ایف۔اے، بی۔اے، اور بی۔ایڈ بھی کیا اور آرمی ایجوکیشن کور میں بطور استاد پڑھاتے رہے۔ پاک فوج میں سروس کے دوران آپ کی پوسٹنگ مختلف شہروں کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ملتان، اٹک (کیمل پور) اور خیر پور میں ہوئی۔

آپ کو 1965 کی جنگ کے اعزاز میں ستارہ جرات اور تمغہ جنگ 1965 سے نوازا گیا۔ اسی طرح 1971 کی جنگ کے اعزاز میں آپ کو تمغہ جنگ 1971 اور ستارہ حرب سے نوازا گیا۔ 1988 میں خالد محمود بھٹی کو تمغہ جمہوریت اور تمغہ صد سالہ جشن قائد اعظم و گولڈن جوبلی میڈل سے نوازا گیا۔ آپ 32 سال کی سروس کے بعد 1990 میں پاک فوج سے ریٹائر ہوگئے۔
پاک فوج میں سروس کے ساتھ ساتھ خاندان کو بھی وقت دیتے رہے اور بھائی، بہنوں، بیوی و بچوں میں توازن برقرار رکھا۔

آج 22 اکتوبر 2020 کو آپ کی پہلی برسی کے موقع پر اس تحریر کا مقصد آپ کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا۔ جس قدر آپ سے ہوتا اپنی زندگی میں غربا کی مالی و دیگر امداد کرتے۔ جہاں تک میرے علم میں ہے کافی خاندانوں کو رمضان پیکج، ماہوار خرچ اور گاؤں کی مساجد میں کافی حد تک آپ کا کردار رہتا تھا۔ جس کے پاس قلم نا ہوتا اسے فی سبیل اللہ‎ قلم لے دیتے، جس کے پاس کتاب نا ہوتی اسے کتاب لے دیتے اور جس کے پاس کاپی نا ہوتی اسے کاپی خرید دیتے۔

اگر کسی کے پاس علم کا شوق ہوتا مگر داخلہ فیس نا ہوتی اسکی فیس خود ادا کروا دیتے۔ علم سے آپ کو اس قدر شوق تھا کہ اکثر کتب بینی کرتے جبکہ اخبار کا مطالعہ آپ کا معمول تھا۔ یہ وہ شخصیت تھی جو بذات خود میڈیا کی زینت تو نا بن سکے مگر اپنے اندر فلاحی و علمی خصوصیات رکھتے تھے۔ تعلق میں آپ میرے دادا جان تھے مگر میرے لیے آپ کی کی اہمیت ایک بہترین دوست سے بڑھ کر، رازدان، بڑے ابو جی و دل نشیں جیسی ہے۔

آپ کے وصال کے بعد میرے لیے انکے گھر و کمرے میں جانا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ جب سے آپ کا وصال ہوا بمشکل تین مرتبہ ہی آپ کی قبر کی زیارت کر
سکا، میرے لیے وہاں کھڑا ہونا انتہائی قرب کا سبب بنتا ہے۔ ہمیشہ کوشش رہی کہ نماز کے مصلے پر آپکے لیے دعا و دیگر ایصال ثواب کے اعمال کرسکوں۔ ربیع الاول کی آمد آمد ہے آپ کے منہ سے نعت پاک کا ورد اکثر سنا کرتا تھا کہ "محبوب دا میلہ اے۔

۔۔ راہواں نوں سجائ رکھنا"عشق مصطفی ﷺ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اور ماہ ربیع الاول میں آپ کے چہرے پر ایک خفیف سی مسکراہٹ ہوتی۔ آپ اپنی روحانی تربیت کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی سنگت سے وابستہ تھے اور ہمیشہ شیخ الاسلام سے متعلق پوچھتے رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے نماز جنازہ کی امامت بھی پھر شیخ الاسلام کے بڑے بیٹے ڈاکٹر حسن محی الدین القادری نے کروای۔

آج کا دن میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے کسی کے خاص دوست کی پہلی برسی ہو۔ یہ وہ شخصیت تھی جس کی رگوں میں خون حضرت علی رضی اللہ عنہ دوڑتا تھا اور 1965 و 1971 کی جنگوں میں دشمن کا مقابلہ کیا۔ آپکا شجرہ اعوان قطب شاہی ہونے کی وجہ سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے جس کا تفصیلا" ذکر میں نومبر 2019 کی تحریر میں کرچکا ہوں۔ یہ وہ محب وطن پاکستانی تھا جس نے قائد اعظم محمد علی جناح رح اور علامہ محمد اقبال رح کا دور بچپن کے زمانہ میں دیکھا تھا۔

آپ نے لیاقت علی خان، جنرل ایوب خان، سقوط ڈھاکہ، ذولفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، نواز شریف، بے نظیر بھٹو، جنرل پرویز مشرف، آصف زرداری اور 2013 و 2014 دھرنوں و سانحہ ماڈل ٹاؤن کا زمانہ اپنی زندگی میں دیکھا تھا۔ ملکی و بین الاقوامی حالات سے باخبر رہنا آپ کا سب سے بہترین مشغلہ تھا۔ آخری دنوں میں جب اخبار و ٹی۔وی دیکھنے میں مسائل درپیش آتا تو مجھ ناچیز صحافی سے ملکی و بین الاقوامی حالات کا خلاصہ سنا کرتے۔

آج اگر میرے قلم میں جان ہے، اگر بین الاقوامی کونٹینٹ رائٹنگ میرے لیے آسان ہے اور میں اگر حالیہ دنوں میں صحافت میں ماسٹرز کرچکا ہوں تو اس میں صوبیدار (ر) خالد محمود بھٹی مرحوم کا کلیدی کردار ہے۔آج انکی برسی کے روز میں اپنی ڈگری انکے نام بھی کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ ہی بلندی درجات کے لیے بھی دعاگو ہوں۔ ایک سال میں لمحہ با لمحہ آپ میری یادوں اور سوچوں میں محو رہے اور انشااللہ ہم اپنے ابا و اجداد کے لیے سراپا دعا و عزت کا سبب بنیں گے۔

انشااللہ اس علم، قلم اور فلاح کے سفر کو جاری رکھیں جو آپ ہمیں تھام گئے۔ اپنے اس سال کی بات کروں تو یہی جملہ دل سے نکلتا ہے کہ "پھر تم سا نا کوی ہوا"۔
جس طرح صوبیدار (ر) خالد محمود بھٹی مرحوم نے محنت و مشقت سے غربت و فاقہ سے نکل کر دیکھایا۔ جیسے وہ فلاحی اور علمی روشنی کو عام کرتے تھے ایسے ہی ہر فرد کو چاہئیے کہ وہ علم کی شمع کو عام کرے ۔

کسی کے پاس قلم نا ہو تو قلم لے دیں، کسی کے پاس کاپی و پینسل نا ہو تو لیں دیں اور کوی داخلہ فیس ادا نا کرسکتا ہو مگر علم کا مشتاق ہو تو اسکی مدد کریں۔ اس جدت کی دنیا میں سمارٹ فون و انٹرنیٹ سے وقت نکال کر اردگرد کے ماحول و لوگوں کو بھی وقت دیں۔ ایسے اعمال کریں جو آپ کی قبر کو نورانی و منور کرے نا کہ اندھیرا دے۔ یہی سبق اس شخصیت کی زندگی نے دیا جس سے متعلق آج کی تحریر تھی۔اللہ‎ مرحوم کی مغفرت کرے اور ہمیں حقیقی سمت میں چلنے کی توفیق عطا فرماۓ۔آمین
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :