23 مارچ "یوم پاکستان" کیا ہم آزاد ہیں؟

جمعرات 25 مارچ 2021

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

آج کا روز انتہائی اہمیت کا حامل ہے جب لاہور مینار پاکستان یا منٹو پارک میں قائد اعظم محمد علی جناح رح کی زیر صدارت قرارداد پاکستان منظور کی گئی اور آزادی پاکستان کے لیے لاکھوں افراد نے قربانیاں دیں۔  اگر ملک پاکستان کی بنیاد کو دیکھا جاۓ تو ملک اس بنیاد پر بنا کہ یہاں دین محمدی ﷺ کا راج ہوگا اور ایک اسلامی و فلاحی ریاست تشکیل پاۓ گی۔

قائد اعظم محمد علی جناح رح کا دو قومی نظریہ ہی تھا کہ جس بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا اور اسی طرح، اس زمانے میں قائد اعظم محمد علی جناح رح پر مسلمان مولویوں نے کفر کا فتویٰ تک لگایا مگر حق تو آکر رہنا تھا۔ ایک مرتبہ ایک ہندو لڑکے نے قائد اعظم سے پوچھا کہ آپ ہندوستان کو کیوں تقسیم کرنا چاھتے ہیں؟ یہ سن کر قائد اعظم نے پانی کا گلاس منگوایا اور بیٹھ گئے۔

(جاری ہے)

یہ دیکھ کر ہندو لڑکا خوش ہوا کہ میں نے مسلمانوں کے قائد کو پریشان کر دیا اور وہ جواب نہیں دے پارہے۔ پانی لایا گیا ۔۔۔۔ قائد اعظم نے آدھا گلاس پانی پیا اور اس ہندو لڑکے کو پانی پینے کو کہا جس پر اس لڑکے نے کہا میں آپکا جھوٹا پانی نہیں پی سکتا۔ پھر قائد اعظم محمد علی جناح رح نے وہی پانی کسی مسلمان کو پینے کو دیا تو اس نے وہ پانی پی لیا۔

پھر قائد اعظم نے فرمایا کہ جب ہم ایک دوسرے کا پانی نہیں پی سکتے تو ہم اکٹھے کیسے رہ سکتے ہیں۔ قائد اعظم اپنے نظریے پر بلکل کلیر تھے اور یہی وجہ ہے کہ 14 اگست 1947 کو پاکستان ایک الگ آزاد خود مختار ریاست کے طور پر ابهرا۔
پھر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت تھی یا پھر فاطمہ جناح رح کی انتخابات میں شکست۔ وہ ایوب خان کا مارشل لا تھا یا 1965 کی جنگ۔

اسی طرح پھر 1971 کی جنگ تھی یا پاکستان کا ٹوٹ جانا۔ ضیاء الحق کا مارشل لا تھا یا پھر ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو و نواز شریف کی سیاسی جنگیں تھیں یا پھر 1999 کا جنرل پرویز مشرف کا مارشل لا یہ سب اس ملک نے قائد اعظم کی وفات کے بعد دیکھا۔ ہر سياستدان ملک کو لوٹ کر مقروض کرتا چلا گیا۔ پھر بے نظیر بھٹو کی شہادت تھی یا پھر نواز شریف و زرداری کی حکومتیں، وقت نے ہر دور دیکھا۔

اگر ملک کی 72 سالہ تاریخ کو غور سے دیکھا جاۓ تو تمام مارشل لا نکال کر، ایم۔این۔اے و ایم۔پی۔اے چند خاندان ہی بنتے آے ہیں اور آج تک وہی خاندان ملک پر براجمان ہیں۔ یہ ٹولہ کبھی کسی جماعت کا حصہ ہوتا ہے کبھی کسی نئی نعرہ لگانے والی جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں یہ لوگ ق لیگ میں تھے تو آصف زرداری کی حکومت میں یہی لوگ PPPP کے ساتھ تھے۔

اسی طرح پھر یہ لوگ نواز شریف کے ساتھ اور آج چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی پارٹی و حکومت کا حصہ ہیں۔ مجھے ان 72 سالوں میں کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آیا جس کے پاس کوئی منشور ہو کوئی نظریہ ہو مگر ایک ہستی ایسی بھی ہے جو میدان میں اتری اور ایک نظریہ رکھتی ہے۔ یہ 23 دسمبر 2012 کا دن تھا جب مینار پاکستان کا گراؤنڈ انسانی سروں کے سمندر کا منظر پیش کررہا تھا۔

ہر طرف سبز ہلالی پرچم کی بہار تھی۔ میں نے اس گراؤنڈ سے لے کر گردونواح کا جائزہ لیا تو ہر طرف عوام ہی عوام تھی اور یہ پاکستان کی عظیم دینی شخصیت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک آواز پر لوگ امید لگا کر یہاں جمع تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا نظریہ پیش کیا جس کے مطابق اگر اس ملک کے سیاسی و انتخابی نظام کو نہ بدلا گیا تو ملک کبھی بہتری و تبدیلی کی طرف نہیں جاسکتا۔

اس نظام کو بدلنے سے مراد تھا کہ وہی چند خاندان پلٹ کر اسمبلیوں میں نہ آئیں بلکہ غریب، کسان، مزدور، تاجر،وكلا، اساتذہ و دیگر صاف لوگ اسمبلی کا حصہ بنیں اور انتخابات آرٹیکل 62,63 کے مطابق کرواے جائیں۔ اس نظریہ کو انہوں نے انقلاب کا نام دیا اور ایک پورا نظام تک پیش کیا۔
بات یہاں تک نہیں تھی ڈاکٹر طاہر القادری نے اس مقصد جوکہ عوام کی بہتری کا ایجنڈا تھا اس کی خاطر دو مشکل لانگ مارچ و دھرنے بھی دیے۔

پھر حق کے مقصد میں 17 جون 2014 کو انکے کارکنان تک کو شہید کیا گیا اور آج تک انکے وارثان انصاف کے لیے دربدر پھر رہے ہیں۔ 2014 کے لانگ مارچ میں عمران خان و ڈاکٹر طاہر القادری ملکر تحریک چلا رہے تھے مگر دونوں کے نظریات میں ایک فرق  تھا عمران خان صاحب اُنہی Electable یعنی جہانگیر ترین و دیگر جو مختلف پارٹیز چھوڑ کر اور سرماے دار تھے سے ملکر الیکشن لڑ کر حکومت بنانا چاہتے تھے جبکہ طاہر القادری صاحب پورے انتخابی نظام کو بدل کر سخت سکروٹنی و آرٹیکل 62,63 کے مطابق انتخابات کروانا چاہتے اور شائد حصہ بھی لینا چاہتے تھے۔

مگر ایسا نہ ہو سکا اور اور طاہر القادری صاحب اور انکی جماعت نے 2008, 2013 کی طرح 2018 کے انتخابات میں بھی حصہ نہ لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری ملکی سیاست و انتخابات کے کلچر سے تنگ آ کر سیاست و پارٹی قیادت سے ہی الگ ہو کر دینی کام میں مصروف ہوگئے۔ یوں ملک کی آخری امید جو حق پر اور ہر ظالم کے خلاف آواز تھی الگ ہوگئی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دور حکومت مہنگائی و بے روزگاری کا طوفان لے کر آیا۔

اگر فیلڈ میں اتر کر عوام الناس کا رد عمل جاننے کی کوشش کروں تو عوام موجودہ حکومت سے خفا نظر آتی ہے۔ یہ وہی بنیادی وجہ نظام سیاست و نظام انتخاب ہے جو ملک کا پہیہ نہیں چلنے دیتا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے خود کو سیاست سے تو الگ کر لیا مگر قوم کو بھی مایوس چھوڑ گئے۔ انکی سیاست سے ریٹائرمنٹ انکا ذاتی و پارٹی معاملہ ہے مگر میری راۓ میں یہی وقت تھا کہ آپ خالی جگہ پُر کرتے۔

عوام کو بتاتے کہ دیکھو میرا نظریہ کیا تھا؟ ہم حق پر تھے۔۔۔۔ قوم کو امید دیتے اور قوم کو بیدار کرتے۔ میری معلومات کے مطابق جماعت اسلامی و محترم امیر سراج الحق صاحب نے نظام کی تبدیلی و انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا اپنا رکھا ہے جوکہ قابل تعریف ہے۔
قصہ مختصر میری نظر میں ملک آج بھی ایک غلامی کا شکار  ہے۔ پہلے انگریزوں کی حکومت تھی تو آج اس ملک پر چند سو خاندان قابض ہیں، فقط لیڈر کا چہرہ بدلتا ہے نیچے سب ایک ہی ہوتے ہے۔

اللّه کرے کہ کوئی ایسا اُٹھے جو ملک میں عوامی سمندر و دلائل سے تعمیر ملک اور پھر آزادی قوم کے لیے جدوجہد کرے اور حقیقی معنوں میں قائد اعظم محمد علی جناح رح، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رح، قائدین و کارکنان تحریک آزادی کا پاکستان نظر آئے۔آمین
پاکستان زندہ باد ۔۔۔۔ پاک فوج زندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :