
23 مارچ "یوم پاکستان" کیا ہم آزاد ہیں؟
جمعرات 25 مارچ 2021

حسان بن ساجد
(جاری ہے)
پھر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت تھی یا پھر فاطمہ جناح رح کی انتخابات میں شکست۔ وہ ایوب خان کا مارشل لا تھا یا 1965 کی جنگ۔ اسی طرح پھر 1971 کی جنگ تھی یا پاکستان کا ٹوٹ جانا۔ ضیاء الحق کا مارشل لا تھا یا پھر ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو و نواز شریف کی سیاسی جنگیں تھیں یا پھر 1999 کا جنرل پرویز مشرف کا مارشل لا یہ سب اس ملک نے قائد اعظم کی وفات کے بعد دیکھا۔ ہر سياستدان ملک کو لوٹ کر مقروض کرتا چلا گیا۔ پھر بے نظیر بھٹو کی شہادت تھی یا پھر نواز شریف و زرداری کی حکومتیں، وقت نے ہر دور دیکھا۔ اگر ملک کی 72 سالہ تاریخ کو غور سے دیکھا جاۓ تو تمام مارشل لا نکال کر، ایم۔این۔اے و ایم۔پی۔اے چند خاندان ہی بنتے آے ہیں اور آج تک وہی خاندان ملک پر براجمان ہیں۔ یہ ٹولہ کبھی کسی جماعت کا حصہ ہوتا ہے کبھی کسی نئی نعرہ لگانے والی جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں یہ لوگ ق لیگ میں تھے تو آصف زرداری کی حکومت میں یہی لوگ PPPP کے ساتھ تھے۔ اسی طرح پھر یہ لوگ نواز شریف کے ساتھ اور آج چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی پارٹی و حکومت کا حصہ ہیں۔ مجھے ان 72 سالوں میں کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آیا جس کے پاس کوئی منشور ہو کوئی نظریہ ہو مگر ایک ہستی ایسی بھی ہے جو میدان میں اتری اور ایک نظریہ رکھتی ہے۔ یہ 23 دسمبر 2012 کا دن تھا جب مینار پاکستان کا گراؤنڈ انسانی سروں کے سمندر کا منظر پیش کررہا تھا۔ ہر طرف سبز ہلالی پرچم کی بہار تھی۔ میں نے اس گراؤنڈ سے لے کر گردونواح کا جائزہ لیا تو ہر طرف عوام ہی عوام تھی اور یہ پاکستان کی عظیم دینی شخصیت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک آواز پر لوگ امید لگا کر یہاں جمع تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا نظریہ پیش کیا جس کے مطابق اگر اس ملک کے سیاسی و انتخابی نظام کو نہ بدلا گیا تو ملک کبھی بہتری و تبدیلی کی طرف نہیں جاسکتا۔ اس نظام کو بدلنے سے مراد تھا کہ وہی چند خاندان پلٹ کر اسمبلیوں میں نہ آئیں بلکہ غریب، کسان، مزدور، تاجر،وكلا، اساتذہ و دیگر صاف لوگ اسمبلی کا حصہ بنیں اور انتخابات آرٹیکل 62,63 کے مطابق کرواے جائیں۔ اس نظریہ کو انہوں نے انقلاب کا نام دیا اور ایک پورا نظام تک پیش کیا۔
بات یہاں تک نہیں تھی ڈاکٹر طاہر القادری نے اس مقصد جوکہ عوام کی بہتری کا ایجنڈا تھا اس کی خاطر دو مشکل لانگ مارچ و دھرنے بھی دیے۔پھر حق کے مقصد میں 17 جون 2014 کو انکے کارکنان تک کو شہید کیا گیا اور آج تک انکے وارثان انصاف کے لیے دربدر پھر رہے ہیں۔ 2014 کے لانگ مارچ میں عمران خان و ڈاکٹر طاہر القادری ملکر تحریک چلا رہے تھے مگر دونوں کے نظریات میں ایک فرق تھا عمران خان صاحب اُنہی Electable یعنی جہانگیر ترین و دیگر جو مختلف پارٹیز چھوڑ کر اور سرماے دار تھے سے ملکر الیکشن لڑ کر حکومت بنانا چاہتے تھے جبکہ طاہر القادری صاحب پورے انتخابی نظام کو بدل کر سخت سکروٹنی و آرٹیکل 62,63 کے مطابق انتخابات کروانا چاہتے اور شائد حصہ بھی لینا چاہتے تھے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اور طاہر القادری صاحب اور انکی جماعت نے 2008, 2013 کی طرح 2018 کے انتخابات میں بھی حصہ نہ لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری ملکی سیاست و انتخابات کے کلچر سے تنگ آ کر سیاست و پارٹی قیادت سے ہی الگ ہو کر دینی کام میں مصروف ہوگئے۔ یوں ملک کی آخری امید جو حق پر اور ہر ظالم کے خلاف آواز تھی الگ ہوگئی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دور حکومت مہنگائی و بے روزگاری کا طوفان لے کر آیا۔ اگر فیلڈ میں اتر کر عوام الناس کا رد عمل جاننے کی کوشش کروں تو عوام موجودہ حکومت سے خفا نظر آتی ہے۔ یہ وہی بنیادی وجہ نظام سیاست و نظام انتخاب ہے جو ملک کا پہیہ نہیں چلنے دیتا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے خود کو سیاست سے تو الگ کر لیا مگر قوم کو بھی مایوس چھوڑ گئے۔ انکی سیاست سے ریٹائرمنٹ انکا ذاتی و پارٹی معاملہ ہے مگر میری راۓ میں یہی وقت تھا کہ آپ خالی جگہ پُر کرتے۔ عوام کو بتاتے کہ دیکھو میرا نظریہ کیا تھا؟ ہم حق پر تھے۔۔۔۔ قوم کو امید دیتے اور قوم کو بیدار کرتے۔ میری معلومات کے مطابق جماعت اسلامی و محترم امیر سراج الحق صاحب نے نظام کی تبدیلی و انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا اپنا رکھا ہے جوکہ قابل تعریف ہے۔
قصہ مختصر میری نظر میں ملک آج بھی ایک غلامی کا شکار ہے۔ پہلے انگریزوں کی حکومت تھی تو آج اس ملک پر چند سو خاندان قابض ہیں، فقط لیڈر کا چہرہ بدلتا ہے نیچے سب ایک ہی ہوتے ہے۔ اللّه کرے کہ کوئی ایسا اُٹھے جو ملک میں عوامی سمندر و دلائل سے تعمیر ملک اور پھر آزادی قوم کے لیے جدوجہد کرے اور حقیقی معنوں میں قائد اعظم محمد علی جناح رح، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رح، قائدین و کارکنان تحریک آزادی کا پاکستان نظر آئے۔آمین
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حسان بن ساجد کے کالمز
-
مہنگا نظام اور عوام
بدھ 2 فروری 2022
-
محبت اور آج کی محبتیں!
جمعرات 1 اپریل 2021
-
23 مارچ "یوم پاکستان" کیا ہم آزاد ہیں؟
جمعرات 25 مارچ 2021
-
کیا تبدیلی آنے والی ہے؟
پیر 8 مارچ 2021
-
اساتذہ پر لاٹھی چارج و گرفتاریاں!
جمعرات 24 دسمبر 2020
-
پی۔ڈی۔ایم اور کرونا وائرس
اتوار 29 نومبر 2020
-
پھر تم سا نا کوئی ہوا
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
نواز شریف اور 12 اکتوبر 1999
پیر 12 اکتوبر 2020
حسان بن ساجد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.