مہنگا نظام اور عوام

بدھ 2 فروری 2022

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

ملکی تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیا جاۓ تو قائد اعظم محمد جناح رح وہ واحد ایسے لیڈر تھے جن کی قیادت میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمان ایک الگ ریاست کے لیے اٹھ کھڑے ہوے۔ مگر بدقسمتی سے 1847 کے بعد برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو کم و بیش 100 سال لگے کہ وہ حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ کسی بھی قوم کو بیدار کرنے کے لیے اس قوم میں شعور بیدار کرنا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

سر سید احمد خاں رح نے تعلیم کی روشنی سے قوم میں شعور اجاگر کیا اور دوسری طرف علامہ محمد اقبال رح نے قوم میں فکری شعور بیدار کیا۔ اگر سیاسی قائد و رہبر کی بات کی جاۓ تو قائد اعظم محمد علی جناح رح نے قوم میں سیاسی اور ایک الگ ملک بنانے کا شعور بیدار کیا۔ جب قوم علمی، فكری اور سیاسی طور پر شعور یافتہ ہو چکی تب 1947 میں ایک انقلابی ریاست تشکیل میں آئی۔

(جاری ہے)

جب تک کسی قوم میں علمی، فكری، نظریاتی اور  سیاسی شعور بیدار نہیں ہوتے تب تک وہ قوم اپنے حقوق سے آشنا نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کے وجود آجانے کے بعد تاریخ نے دیکھا کہ ہماری سیاسی قیادت ملک میں پہلا آئین تشکیل نہیں دے سکے۔ ایک ایسا کرپٹ سیاسی و انتخابی نظام اس ملک پر رائج کیا گیا جس میں ایک عزت دار اور سفید پوش طبقہ الیکشن جیتنا تو دور لڑنے کی بھی ہمت نہیں رکھ سکتا۔

یہ وہ نظام ہے جس میں ایک یونین کونسل کے الیکشن پر کروڑ ہا روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اسی سیاسی و انتخابی نظام میں محترمہ فاطمہ جناح رح سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم تک کو بری شکست ہوئی۔ اگر تاریخ کا جائزہ لیا جاۓ تو 1947 سے آج تک اسمبلی پر کچھ خاندان مسلط ہیں وہی چند سو خاندان 22 کروڑ عوام پر قابض ہیں۔ کبھی ذاولفقار علی بھتو تو کبھی بے نظیر بھٹو کی صورت میں قیادت بدلتی ہے۔

کبھی نواز شریف کی صورت میں تو کبھی عمران خان کی صورت میں ایک نئی قیادت ملک پر قابض ہو جاتی ہے۔ بد قسمتی سے آج تک چہرے ضرور بدلے ہیں مگر نیچے وہی چند خاندان ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ کیا کبھی غریب کا نمائندہ غریب، کسان کا نمائندہ کسان، طالب علم کا نمائندہ طالب علم، ڈاکٹر کا نمائندہ ڈاکٹر، وکیل کا نمائندہ وکیل، استاد کا نمائندہ ایک استاد، ڈرائیور کا نمائندہ ڈرائیور، گارڈ کا نمائندہ گارڈ الغرض ہر طبقے کا نمائندہ اسی طبقے بھی منتخب ہوگا؟ کب تک ہر طبقے کا ایم۔

این۔اے اور ایم۔پی۔اے ایک وڈیرہ، سرمایا دار اور کرپٹ شخص منتخب ہوگا؟ کیا پاکستان کی نئی نسل میں وہ ٹیلنٹ نہیں کہ ملک کو انقلابی سمت کی طرف لے جاسکے؟ 2018 کے انتخابات میں جہاں نواز شریف کی تا حیات نا اہلی نے عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے موقع فراہم کیا کہ وہ پنجاب میں دوسری آپشن  بن سکیں۔ تو دوسری طرف عمران خان کے سیاسی کزن ڈاکٹر طاہر القادری نے 2013 کے بعد 2018 انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا جو تحریک انصاف کے ووٹ بینک کے لیے بہتر ثابت ہوا۔

مگر 2013 میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے ووٹ ڈالنے کا بھی بائیکاٹ کیا جو 2018 میں نظر نہیں آرہا تھا۔ شائد تحریک انصاف غیر اعلانیہ طور پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے انصاف کے وعدے پر پاکستان عوامی تحریک کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی تھی بہر حال خدا خدا کر کہ 2018 میں پنجاب، کے۔پی۔کے اور وفاق میں عمران خان صاحب اور تحریک انصاف  حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔

ہمیشہ کی طرح دھاندلی کا نعرہ لگایا گیا پیپلزپارٹی، ن لیگ، جمیعت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، تحریک لبیک و دیگر جماعتوں نے دھاندلی کا نعرہ لگایا اور الیکشن کے نتائج کو ماننے سے انکار کیا۔ مولانا فضل الرحمن کی اسلام آباد دھرنے کی کال تھی یا تحریک لبیک کے دھرنوں کی کال۔ وہ کرونا وائرس کی لہر تھی یا چیئرمین سینٹ اور وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں حکومت کو ہر محاذ میں کامیابی ملی۔

اگر تحریک انصاف کی 3 سالہ حکومت کا تجزیہ کروں تو حکومت نے آج تک اپوزیشن کے علاوہ کسی سمت اپنا فوکس نہیں کیا۔ مہنگائی آج آسمان سے باتیں کر رہی ہے وہ سادہ روٹی جو 2018 میں 6 روپے کی تھی آج 10 روپے کی ہو چکی ہے، ایک نان 8 روپے سے اب 15 روپے کا ہوچکا۔ کھانے کے تیل کی قیمت 250 سے اب 440 تک پہنچ چکی جبکہ 20 کلو آٹے کا تھیلا 2018 میں 850 میں میسر تھا جو آج کم و بیش 1200 کا ہوچکا ہے۔

دوسری طرف جہاں مہنگائی بڑھ چکی ہے تو بے روزگاری اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اگر عدادوشمار کو دیکھا جاۓ تو پچھلے 22 ماہ میں کم و بیش 12.3% مہنگائی بڑھی اور اسی طرح نیشنل  ہیومن ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 24 ملین نوجوان پاکستان میں بے روزگار ہیں۔ سینٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 24 فیصد پڑھے لکھے افراد بے روزگار ہیں۔ ہائی کورٹ میں چپڑاسی کی نشست کے لیے 1.7 ملین پڑھے لکھے گریجویٹ بشمول ایم۔

فل تعلیم یافتہ نے بھی درخواست دی۔ 2018 سے آج 2022 تک قوم اور وہ یوتھ جس نے وزیر اعظم عمران خان کو ووٹ دیا ایک ہی آواز سن رہی ہے کہ "آپ نے گھبرانا نہیں ہے"۔  کیا یہ وہ مشن تھا جس کے لیے 22 سال جدوجہد کی گئی ہر ادارے میں ایک ایسا مافیا جو کبھی پڑھی لکھی، نئی سوچ اور نئے عزم کو اوپر نہیں آنے دیتا۔ حکومت کو چاہئیے کہ ایسا قانون بنایا جاۓ جس میں 50 سال کی عمر میں خواہ وہ  سرکاری ادارہ ہو یا پھر نجی ادارہ ایک ملازم و افسر ریٹائر ہو جاۓ تاکہ نئی پڑھی لکھی سوچ اور نیا عزم اوپر آسکے۔

آج ہر ادارے اور پرائیویٹ  ادارے میں چند خاندان اور گروپ قابض ہیں جو کبھی تعلیم یافتہ اور اچھی قیادت کو اوپر نہیں آنے دیتا۔ آج حکومتی حلقوں کو 4 سال بعد ایک صدارتی نظام کی یاد آرہی جو شائد پارلیمانی نظام سے بہتر ہو۔ یہی صدارتی نظام جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں رائج کیا گیا۔ ایک طرف اپوزیشن 18 ویں ترمیم کی محافظ ہے تو دوسری جانب صدارتی نظام لانے کی باتیں زیر گردش ہیں۔

اگر ماضی میں دیکھا جاۓ تو 2012 میں مینار پاکستان کے ساۓ تلے ایک  شخص نے نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا جس کے بعد 2013 اور پھر عمران خان کے ساتھ 2014 میں نظام کی تبدیلی کے ایجنڈے کے تحت دھرنے دیے گئے۔ یہ ڈاکٹر طاہر القادری تھے جن کا نظریہ نظام خواہ سیاسی ہو یا انتخابی نظام میں تبدیلی کا نعرہ لگایا اور اپنا متبادل نظام دیا جسے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے سامنے بھی رکھا گیا، مگر بدقسمتی سے اس انقلابی نظام اور نظریہ کو خاص اہمیت نہیں دی گئی۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب آج سمجھ چکے ہیں کہ 18 ویں ترمیم انھیں کبھی چلنے نہیں دے گی۔ اگر بغور جائزہ لیا جاۓ تو صدارتی نظام پارلیمانی نظام سے بہتر تو ہوسکتا ہے ابھی یہ نظام رائج ہوتا نظر نہیں آتا۔ وزیر اعظم کو مہنگائی اور بے روزگاری کو اپنی توجہ کا مرکز  بنانا چاہئیے ورنہ 2023 میں پنجاب، وفاق اور کے۔پی۔کے تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکلتا نظر آتا ہے۔

اگر حالات یہی رہے تو قوم ایک بار پنجاب میں نواز شریف اور شہباز شریف جبکہ کے۔پی۔کے میں مولانا فضل الرحمن اور اے۔این۔پی کو منتخب کرسکتی ہے۔ حکومت کی اصل دشمن اپوزیشن نہیں مہنگائی اور بے روزگاری ہے جو شائد اس حکومت کو لے ڈوبے۔ امید ہے کہ اقتدار کے ایوان بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمہ میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے کیونکہ امید پر دنیا قائم ہے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :