دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر اور متاثرین کے تحفظات

بدھ 13 مئی 2020

Hussain Ahmed

حسین احمد

وطن عزیز پاکستان کے مقتدر حکام کی جانب سے دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر کرنے کا آغاز کرنے کی نوید سنا دی گئی ہے۔ دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر کا آغاز کا اعلان پاکستانیوں کے لئے ایک بڑی خوش خبری ہے کیونکہ پیشن گوئیوں کے مطابق وطن عزیز پاکستان کو مستقبل قریب میں پانی کی قحط کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس بات کی بنیاد پر اور پاکستان میں بجلی کا بحران پر قابو پانے کے ساتھ پاکستان کی کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لئے دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر اب ناگزیر بن چکا ہے۔

اس لئے دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر حقیقی معنوں میں پاکستان کی ضرورت ہے۔ دیامر بھاشاڈیم کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت نے شروع دن سے ریاست پاکستان کے ساتھ کا مکمل تعاون کیا ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ اس تعاون میں گلگت بلتستان کا ضلع دیامر کے عوام کا کلیدی کردار رہا ہے کیونکہ ملکی وسیع مفاد کی خاطر حقیقی معنوں میں قربانی دیامر کے عوام کو دینا پڑا۔

(جاری ہے)

اپنی جائیدادیں، اپنے آباء و اجداد کی قبریں، مساجد، اپنے آبائی علاقے، اپنی تہذیب و تمدن اور ثقافت سب کچھ قربان کرنے کا بوجھ اہلیان دیامر نے اٹھایا۔ 
وہ وقت بھی آئیگا جب ان لوگوں کو اپنا بستر باندھ کر اپنے آبائی علاقے چھوڑنے کا کہا جائے گا جوکہ انتہائی مشکل ترین مرحلہ ہوگا۔ ملکی وسیع مفاد کی خاطر یہ لوگ اپنے آبائی علاقے بھی چھوڑیں گے۔

دیامر کے عوام کی قربانیوں کو کسی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ملک کی خاطر قربانی دینے کا وقت آنے پر ملکی شہری لبیک کہیں جبکہ دوسری جانب ریاست پر بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جن شہریوں نے اپنا سب کچھ ریاست پر قربان کیا تو اسی قربانی کے دوران ان شہریوں کو پیش آنے والے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر ریاست حل کرے۔

 حکومت نہ صرف قربانی دینے والوں کے مسائل حل کرنے تک محدود رہے بلکہ ایسے ہیروز کو بڑے بڑے مراعات سے نوازے۔ ایسے لوگوں کو ایسی جگہ منتقل کرکے آباد کرے جہاں انکے بچے اعلٰی تعلیم بآسانی حاصل کرسکیں اور یہ لوگ مفت تعلیم و صحت کی سہولت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی سہولیات سے مستفید ہوسکیں جس سے دنیا کو ایک پیغام جائیگا کہ ملکی مفاد کی خاطر قربانی دینے والوں کی ریاست پاکستان قدر کرتی ہے۔

اس پیغام پر پاکستان کے دیگر عوام میں حب الوطنی اور قربانی کا جذبہ بڑھ جائیگا۔
گلگت بلتستان کا ضلع دیامر کے عوام نے ملکی وسیع مفاد کی خاطر قربانی تو دے دی لیکن ریاست پاکستان تاحال یہاں کے باسیوں کے لئے دیگر مراعات تو دور مگر معیاری صحت اور مناسب تعلیم جیسی بنیادی سہولیات تک نہ دے سکی۔ یہاں صحت کے حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ضلع بھر میں موجود واحد بڑی سرکاری ہسپتال (ریجنل ہیڈکوارٹر ہسپتال چلاس) میں کبھی ڈاکٹروں کی کمی رہتی ہے اور کبھی عوام ڈاکٹروں کی غفلت اور لاپرواہی کا رونا روتے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب تعلیم کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں کے عوام معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لئے ترس رہے ہیں۔ ڈیم ایریاز میں صورتحال یہاں تک بھی ہے کہ 2010ء کی تباہ کن سیلاب نے سکولوں کی عمارتیں بہایا ہے اور ڈیم ایریا قرار دیکر وہاں ابھی ایک عمارت قائم کرنا ریاست نے گوارہ نہیں کیا ہے۔ 10 سال تک متاثرین دیامر بھاشاڈیم کے بچے سخت سردی ہو یا سخت گرمی، دونوں موسموں میں کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کررہے ہیں جوکہ افسوسناک ہے۔

آئیں اب نظر ڈالتے ہیں کہ متاثرین دیامر بھاشاڈیم کے کون سے سنجیدہ تحفظات اب بھی باقی ہیں؟۔ متاثرین دیامر بھاشاڈیم کی زمینوں کی پیمائش کے دوران متاثرین کو اپنے زمینوں کے بارے میں معلومات نہیں تھے کہ انکا زمین پیمائش کے بعد کتنا کنال یا مرلہ بنا تھا۔ خیر متاثرین نے واپڈا کی مرضی اور انکی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے زمین کا معاوضہ واپڈا حکام سے وصول کیا۔

دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر کا آغاز کا اعلان ہوگیا لیکن متاثرین دیامر بھاشاڈیم کی زمینوں کے %100 معاوضات کی ادائیگی اب بھی باقی ہے۔ اس پر ایک سوال بھی اٹھتا ہے کہ زمینوں کی %100 ادائیگی کیے بغیر ڈیم کا کام کیسے شروع کیا جاسکتا ہے؟
دوسری جانب متاثرین دیامر بھاشاڈیم کی نئی آبادکاری کا مرحلہ بھی تاحال مکمل نہیں ہوسکا۔ متاثرین دیامر بھاشاڈیم جو اپنے آبائی علاقہ چھوڑ کر جانے جارہے ہیں توریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان متاثرین کو کہیں مناسب جگہ میں آباد کرے۔

کیونکہ متاثرین دیامر بھاشاڈیم کی نئی آبادکاری کے لئے کافی کھینچا تانی کے بعد سابق ڈپٹی کمشنر دیامر امیراعظم حمزہ نے علاقے کی کمیونٹی سے مل کر متاثرین کو ایک خاص پیکیج پر قائل کرکے اعلٰی حکام کی طرف بھیج دیا تھا جس کی باقاعدہ منظوری ایکنک سے بھی ہوچکی ہے۔ اس لئے ڈیم کا کام کا آغاز کرنے سے پہلے متاثرین دیامر بھاشاڈیم کی نئی آبادکاری کے لئے منظور شدہ پیکیج کی ادائیگی کرنا مناسب ہوگا تاکہ متاثرین میں پائی جانے والی تشویش اور بے چینی کا خاتمہ ہوسکے۔

ایک اور بڑا مسئلہ جو دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر میں رکاوٹ بن سکتا ہے جو گلگت بلتستان (تھور) اور خیبرپختونخواہ (ہربن و بھاشا) کے درمیان جاری حدود تنازعہ ہے۔ اس تنازعہ کی پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو خیبرپختونخواہ کا ضلع کوہستان کا علاقہ بھاشا پل تک صدیوں سے گلگت بلتستان (تھور) کے قبضے میں رہا۔ اس علاقے میں دیامر کا علاقہ تھور کے عوام اپنے بکریوں کے ریوڑ رکھتے تھے اور تھور کے عوام اپنے چرواہے انہی علاقوں میں رکھتے تھے۔

جب دیامر بھاشاڈیم میں زیرآب آنے والی زمینوں کی پیمائش کا مرحلہ شروع ہوا تو بھاشا پل سے لے کر بسری تک خیبرپختونخواہ کا علاقہ ہربن و بھاشا کے عوام نے ناجائز ملکیت کا دعویٰ کیا۔ اس دعوے کے بعد تھور اور ہربن کے قبائل مورچہ زن بھی ہوئے اور نتیجے میں کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوگئے۔ خیبرپختونخواہ کی گلگت بلتستان دیامر کی زمین پر اچانک دعویٰ کرنا اس میگا پراجیکٹ کی خلاف سازش سے کم نہیں لہذا ڈیم کی تعمیر کا آغاز کرنے سے پہلے حدود تنازعہ کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ 
''آئیں مل کر دیامر بھاشاڈیم بنانے کے لئے جدوجہد کریں، آئیں مل کر پاکستان کی خوشحالی کے لئے جدوجہد کریں''

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :