جنسی درندگی ،فحاشی اور انسانی اقدار

پیر 26 فروری 2018

Ijaz Ahmad Sial

اعجاز احمد سیال

اخلاقی اقدار کسی بھی معاشرے کے زندہ ہونے کا ثبوت دیتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جددیت(Modernity) نے اخلاقیت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ امام غزالی کے مطابق انسان اور جانور میں فرق صرف جذبات اور عقل کا ہوتا ہے جانور عقل سے عاری ہے اور جب آدمی جذبات کو اپنے اوپر حاوی کردے تو وہ بھی جانور جیسا ہوتا ہے لیکن جب و ہ عقل کو ترجیح دے تو وہ انسان کہلاتا ہے۔

اس لیے جب شروع شروع میں انسانی معاشرہ قائم ہوا تو انسانی عقل نے کچھ اخلاقیات اور معاشرتی اقدار کو جنم دیا جنہوں نے ایک پرسکون معاشرتی زندگی کی ضمانت دی۔ لیکن پچھلی کئی صدیوں سے ہم ان انسانی اقدار کا حلیہ بدلنے میں لگے ہوئے ہیں اور نتیجتاًآج کا انسان روزانہ جانوروں جیسے کام کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ ایسے حال میں آئے روز قصورکی 08سالہ زینب ، مردان کی اسماء اور دہلی میں میں 8ماہ کی معصوم کے ساتھ انسانیت کو شرما دینے والی جنسی درندگی دہشت گردی ، چوری، ڈکیٹی اور قتل و غارت کے واقعات معمول بن جاتے ہیں جہاں انسانیت اپنی آخری سسکیاں لیتے ہوئے نظر آتی ہے۔

(جاری ہے)

جس معاشرے میں خواہشات کو اخلاقیات پر ترجیح دی جاتی ہواس میں ظلم و زیادتی کا معمول بن جانا کوئی مضحقہ خیز بات نہیں۔
اب ہم ان عوامل کی طرف آتے ہیں جن کے باعث انسانی اقدار ماند پڑ رہی ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلا اور اہم محرک پورن فلمز(Porn Films) ہالی ووڈ (Hollywood) بالی ووڈ(Bollywood) اور میڈیا گروپس ہیں جو انسانی جذبات کے ساتھ کھیل کر سرمایہ بٹورنے میں لگے ہوئے ہیں۔

فحش چیزوں کو پبلک تک پہنچانے میں انٹرنیٹ بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ پنجاب پولیس کے ایک انتہائی بہادر، ہونہار اور دیانت دارپولیس آفیسر ریٹائرڈڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ کے مطابق انہوں نے اپنی سروس کے دوران جتنے بھی جنسی درندوں کو انویسٹگیٹ (Investigate) کیا ہے ان سب نے کہا کہ سیکس فلم دیکھنے کے بعد ہم اپنے جذبات پر قابو کھو بیٹھے ۔ فحاشی کے اس شعبہ میں ملوث لوگ چند ماڈرن ٹرمز(Modern Terms)جیسے کہ پروفیشن (Profession ) کیریئر (Career) آرٹسٹ (Artist)وغیرہ کی آڑ میں اپنے کام کو درست گرادنتے ہیں۔

فحاشی کا یہ کھیل نسل در نسل شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔بالی ووڈ کے سب سے بڑے سٹار سلمان خان اور ان کی ہیروئن بھاگے شری نے ان کی پہلی فلم "میں نے پیار کیا"میں فرینچ کس (French Kiss)کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد ڈائریکٹر نے ان دونوں کے درمیاں شیشے کا سہارا لیا۔ سلمان خان نے پورے فلمی کیریئر میں کوئی کسنگ سین نہیں دیا اوروہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ بچپن میں ایک دفعہ وہ والدین کے ساتھ انگلش فلم دیکھتے ہوئے فحش سین کے دوران کافی شرمندہ اور گھبراہٹ کا شکار ہوگئے تھے۔

یہاں پر والدین کو اپنے بچوں کو اخلاقیات کی تربیت دینے کی بات ابھرتی ہے ۔بہر حال آج انگلش فلموں اور انگلش معاشرے کی پیدوار کے ہماری نئی نسل کے ہیرو اور ہیروئن بلا جھجک فحش سین دیتے ہیں اور ان کی کوئی بھی ایسی فلم نہیں ہوتی جس میں فحش سین نہ ہو۔ نئی نسل کے ہیرو رنویر سنگھ نے 2016میں ریلیز ہونے والی اپنی فلم "بے فکرے"میں23 کسنگ سین دیئے ۔

2016ہی میں انڈیا میں چیرٹی(Charity) کے نام پر ہونے والے شو آل انڈیا بک چود(All India Backchod) میں بالی ووڈ کی نئی نسل کے تمام ہیرو اور ہیروئن نے شرکت کی جس میں ہر بیہودہ اور فحش گالیبکی اور سنیں گئی۔ خیرات کرنے کا یہ انوکھا فیشن ہے جس میں انسان کو برائی کی طرف راغب کرکے معاشرتی زندگی کوتباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ اس شوکی تینوں خانز عامر خان، شاہ رخ خان اور سلمان خان جوکہ مسلمان بھی ہیں نے مزمت کی ۔

انگلش فلموں اور ہماری پچھلی نسل کی فلموں کی محنت سے آج برصغیر کا معاشرہ اس قدر آزاد خیال ہو گیا ہے کہ اس نے پورن سٹار سنی لیون (Sunny Leone) کو بھی کھلے دل سے قبول کر لیاہے جس نے آئٹم سونگ (Item Song) میں فحاشی کو ایک نئی جہت دی ہے۔ اس سارے ماجرے کو بالی ووڈ کی کامیاب ترین ہیروئن کنگنا راناؤت (Kangna Ranaunt) کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں کہ میں نے کسی جگہ ایک چھ سالہ بچی کو ایک آئٹم گانے پر ناچتے ہوئے دیکھا تو تب سے میں نے فلموں میں آئٹم سونگ نہ کرنے کا ارادہ کر لیاکہ اس سے ہماری نئی نسل پر غلط اثر پڑتا ہے ۔

یہاں پر اس بات کی ضرورت ہے کہ اس شعبہ میں ملوث تمام لوگوں کو اس امر کو سمجھنا چاہیے اور جنسی جذبات ابھارنے والے کام سے دریغ کرنا چاہیے ورنہ وہ جنسی ظلم کے بلاواسطہ طور پر ذمہ دار ٹھہریں گے۔ جب کسی آزاد خیال سے ان سب چیزوں کی فحاشی کی شکایت کی جائے تو وہ جواب دیتا ہے کہ یہ انٹرٹینمنٹ (Enertaimnent)ہے اور یہ لوگ آرٹسٹ ہیں لیکن جب اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ اپنی بہن کو اس طرح سے معاشرے کو انٹر ٹین کرنے کی اجازت دیں گے اور مغرب میں تو پورن سٹار Porn star))کو بھی لوگ آرٹسٹ کہتے ہیں تو کیا آپ اپنی بہن ، بیوی یا ماں کو پورن آرٹسٹ بننے کی اجازت دیں گے تو وہ بھڑک جا تا ہے۔

بس یہی معمولی سا غیرت اور شرم کا فرق ہماری لبرل کلاس اور مغربی معاشرے میں رہ گیا ہے جو کہ ہماری آنے والی نسل میں ختم ہو جائے گا۔ اسی فحاشی اور عریانیت کی وجہ سے امریکہ وہ ملک ہے جہان دنیا میں سب سے ذیادہ ریپ کے کیسز رونما ہوتے ہیں اور دہلی دنیا کے ان شہروں میں آتا ہے جہاں پر ریپ کے واقعات سب سے زیادہ رونما ہوتے ہیں۔یہاں پر یاد رکھیئے گا کہ میں میسج اوراورینٹیڈ(Message Oriented)اور مثبت فلموں کے خلاف نہیں بلکہ فلموں کے صرف فحاشی کے منفی پہلو کے خلاف بات کر رہا ہوں۔

بس ہمیں اپنی آڈینس (Audience) کے ذہن میں فلموں اور میڈیا کے ذریعے ایسی جنسی فینٹسی (Fantasy) اور جذباتی مقاصد کو پید ا نہیں کرنا چاہیے جن کو پورا کرنے کے لیے وہ عورتوں کو جنسی درندگی کا شکار بنائے ۔
دوسرے نمبرپر عریانیت اورنیم برہنہ لباس آتے ہیں۔ آج کے شارٹ لباس جو فلمون میں یا ہماری لبرل اور ایلیٹ کلاس استعمال کر رہی ہے اُن سے انسانی جزبات کو ابھار ملتا ہے اورانسان کے ذہن میں کوئی غلط کام کرنے کا خیال آتا ہے ۔

مخالف جنس کے نیم برہنہ جسم کو دیکھ کر انسانی ذہن میں جنسی خلل آنا یا سیکس کی طلب محسوس ہونا ایک قدرتی عمل ہے اور اگر کسی کو ایسا محسوس نہیں ہوتا تو وہ سائیکالوجی کے مطابق ایک نفسیاتی مریض ہے ۔اسی عریانیت اور فحاشی کی وجہ سے مغرب میں ایک خاندان کے مقدس رشتوں میں بند ھے ممبران کے درمیان جنسی تعلقات کی بہت بڑی شرح موجو د ہے جو کہ مسلسل بڑھ رہی ہے اور بدقسمتی سے اس طرح کے واقعات اب ہمارے معاشرے میں بھی رونما ہو رہے ہیں ۔

انسانیت کو شرما دینے والے اس گھناؤنے فعل کو اانسیسٹ سیکس ( Incest Sex) کہتے ہیں اوراس گھناؤنے عمل میں شراب اور نشہ آور چیزیں بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ ان سب عوامل کے پیچھے سرمایہ دارانہ نظام کا ہاتھ آتا ہے۔ تمام قسم کی فلمیں بڑی بڑی پروڈکشن کمپنیوں کے سائے میں بنتی ہیں اور نفع کا ذیادہ تر حصہ انہیں کے حصہ میں جاتا ہے۔ شارٹ اور سیکسی لباس بھی انٹرنیشنل برینڈز بناتے ہیں جو کہ فیشن شوز میں ماڈلز اور ایڈز (Adds)میں فلمی ستاروں کو پہناکر دیکھنے والوں کو پہننے کی ترغیب دیتے ہیں ۔

انسانی جدت ہے کہ وہ اچھائی کی نسبت برائی کی طرف جلد مائل ہو تا ہے۔ بڑے بڑے ٹی وی چینلز پر بھی کاروباری طبقہ کا ہی کنٹرول ہے جن کے لیے پیسہ کماناہی مذہب ،اخلاقیات اور ایک نیک عمل ہے ،چاہے پیسے کے اس گھٹیا کھیل میں معاشرتی زندگی کا بیڑا ہی غرق کیوں نہ ہو جائے ۔
تیسرا بڑا محرک لیٹ شادی اور مذہب سے نفرت ہے ۔لیٹ شادی یا پھر بالکل شادی نہ کرنے کاٹرینڈ عام ہو رہا ہے جس کا ذمہ دار بھی استحصالی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔

روٹی اور کپڑا کی طرح سیکس بھی ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے، اس لیے جب ایک لڑکا یا لڑکی جوان ہو جائے تو اس میں جنسی خواہشات کا پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے ۔کیا ایک جوان انسان جنسی تعلقات کے علاوہ رہ سکتا ہے ؟ کیااس کا کوئی اور حل ہے ؟ایسے میں اس کی جنسی ضروریات کا جائز طریقہ سے پورانہ ہوناریپ جیسی برائیوں کو جنم دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں مذہب سے بھی اپنی اخلاقیات کو محفوظ اور مضبوط کرنے میں مدد لینے کی ضرورت ہے اور اس ضمر میں میڈیا کے ذریعے ایک جامہ تحریک چلائی جا سکتی ہے ۔


اس حوالے سے چوتھی اورآخری بڑی وجہ مجرموں کو سزا دینے کے قانون میں خامیاں ،سزا کا غیر یقینی اور انصاف کا لیٹ ہونا ہے ۔ جب تک سزا کے اٹل ہونے کا خوف انسان کے سر پر حاوی نہیں ہوتا تب تک وہ جرم اور کوتاہیاں کرنے سے نہیں گھبراتا ۔ہمارے ہاں انصاف یا تو تھانہ لیول پر بک جاتا ہے یا پھر عدالتوں میں یا پھر پیسے کے لیے قانونی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھانے والے وکیل کے ہاتھوں اور اگر یہ سارے حربے بھی فیل ہو جائیں تو آخری صورت میں مذہب کا سہارہ لیتے ہوئے دیعت (Retributive Money) کو ڈھال بنایا جاتا ہے ،جیسے کہ حال ہی میں سندھ کے ایک طاقتور خاندان کے صاحبزادے شاہ رخ جتوئی کو بچانے کے لیے کیا گیا ہے ۔

اس کے علاوہ اگر کسی کو مجرم ٹھہرادیا جائے تو تب بھی مجرم پندرہ یا بیس سال جیلوں میں اپنی سزا کا انتظار کرتا رہتا ہے اور پھر بہت سارے کیسز میں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ اس کی سزا کو یا تو ختم کردیتی ہے یا پھرکم کردیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پینل کوڈ (Pakistan Penal Code) ایک پرانا قانون ہے جوکہ نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔یہ سارے عوامل مل کر سزا کو غیر یقینی بنا دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں طاقتور اور درندہ صفت عادی مجرم گھناؤنے جرم کرتے ہوئے نہیں گھبراتے۔ اگر ہمیں اپنے معاشرے کو اپنی ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کے لئے محفوظ بنانا ہے تو ہمیں ان تمام عوامل کو کنڑول کرنے کے لیے ایک جامعہ لائحہ عمل بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :