راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم پنڈی عوام کےلئے درد سر

منگل 1 دسمبر 2020

Ijaz Ul Haq

اعجازالحق

راولپنڈی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم شہراقتداراسلام آبادسےدس منٹ کی مسافت پرفوڈاسٹریٹ،شمس آباد راولپنڈی میں واقع ہے۔پندرہ ہزار تماشائیوں کی گنجائش رکھنے والے اس اسٹیڈیم نےپہلی دفعہ 19جنوری 1992ء کوپاکستان اورسری لنکاکے درمیان کھیلےجانےوالےایک روزہ کرکٹ میچ کی میزبانی کی۔اسکے بعد9دسمبر1993ءکوپاکستان اورزمبابوےکےدرمیان کھیلےگۓپانچ روزہ ٹسٹ میچ کےلۓاپنےخدمات پیش کۓ۔

جبکہ پہلاٹی ٹوینٹی میچ سات نومبر2020ء کواس اسٹیڈیم پرکھیلاگیا۔اس اسٹیڈیم پرروایتی حریف بھارت کےسابقہ کپتان راہل ڈراویڈ نےسال2004 میں ٹسٹ میچ کےدوران پاکستان کے خلاف 270رنز کی ناقابل شکست انگز کھیلی جوآج تک اس اسٹیڈیم کا ٹاپ سکور ہےجبکہ ایک روزہ انٹرنیشنل میچ کا اب تک کاٹاپ سکور117ہے جوپاکستان کےسابقہ کپتان انضمام الحق نےسال1992ءمیں سری لنکا کے خلاف اسکورکۓتھے۔

(جاری ہے)


اس کےعلاوہ یہ اسٹیڈیم کئ ڈومیسٹک،لیگ اورانٹرنشنل میچز کی میزبانی کرچکاہے۔
پاکستان میں لاکھوں شائقین کرکٹ موجود ہیں اور جب کرکٹ میچ اپنےملک اوراپنے ہی شہر میں ہوتو مداہوں کےلۓ سونے پہ سہاگاہوتاہے۔
مداہوں کو اپنےپسندیدہ کھلاڑی براہ راست دیکھنے کا موقع ملتاہےجبکہ دوسری طرف ایسے انٹرنیشنل گراونڈزملک کی معیشت بڑھانے میں اہم کردار اداکرتےہیں۔


لیکن جہاں راولپنڈی اسٹیڈیم کااتناقلیدی کردار ہےوہاں پریہ اسٹیڈیم پنڈی عوام کے لۓدرد سر بن گیاہےکیونکہ اس اسٹیڈیم کےباۓجانب اریڈایگریکلچریونیورسٹی ہے توباۓ جانب آئ جےپی روڈ ہے۔ساتھ ہی میٹروروٹ ہےجوراولپنڈی اوراسلام آبادشہرکو آپس میں ملاتی ہےاور جہاں پریہ اسٹیڈیم واقع ہےوہ ایک فوڈاسٹریٹ اورکمرشل ایریاہے جوکاروبارکا ایک مرکزہے۔


اورجب بھی اس اسٹیڈیم میں میچ ہوتاہےتوپوراراولپنڈی شہر مفلوج ہوکررہ جاتاہے۔ پوری فوڈاسٹریٹ کو بند کردیاجاتاہے۔ریسٹورانٹ کھولنےکی اجازت نہیں ہوتی۔ میٹروبس سروس معطل کردی جاتی ہے۔ گاڑیوں کا گزروہاں سےبندکردیاجاتا ہے۔
اور لوگوں کووہ متبادل راستےاختیارکرنےپڑتےہیں جوگاڑیوں سےبھرےہوتےاور لوگوں کو دو دو، تین تین گھنٹےٹریفک میں گزارنے پڑتےہیں۔

اب سوال یہ ذہن میں آتاہےکہ جہاں پراگراسٹیڈیم کےنقصانات ہیں توساتھ فائدے بھی تو ہیں لیکن نقصانات کی نسبت ذیادہ ہےکیونکہ پہلےسال میں گن گناۓچندمیچزہواکرتےتھےاب کرکٹ اتنی زیادہ ہوگئ ہے کہ  تقریباًہرتین مہینےبعدکرکٹ میچزہوتےہیں۔جن میں انٹرنیشنل، پی ایس ایل، نیشنل ٹی ٹوینٹی کپ، قائداعظم ٹرافی اور پاکستان کپ شامل ہے۔
اوراس سارےصورتحالات کےپیش نظرایک طالب علم اورمریض سب سےزیادہ پکڑمیں آتاہے۔


طالب علم کا ساراکاسارا دارومدار میٹروبس پر ہوتاہے۔عام دنوں میں توپھربھی متبادل راستہ اختیارکر کےبندہ پہنچ جاتاہے۔ لیکن تصور کریں امتحانات ہورہے ہوں۔ سخت گرمی ہواور میٹرواسٹیشن پہنچ کر آپ کو پتہ چلے کہ بوجہ کرکٹ میچ میٹروبس سروس بندہے۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف اگرمریض کی حالت خراب ہو اورمتبادل راستے ٹریفک سےبھرےپڑےہوں توکیاایمولنس کےلۓوقت پرہسپتال پہنچنا ممکن ہوگا؟
لہٰذاگورنمنٹ کو پنڈی عوام کی حالت زار پرخاص توجہ دیناچاہئیے۔


فوڈاسٹریٹ میں فلائی اوور بناکر اس مسلے کو تھوڑاکم کیاجاسکتاہے۔ دوسرامیٹروسروس کا تومیچ کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ میٹروبس سروس کی دوران میچ معطلی عوام اور  خصوصاً طالبعلموں کےساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے۔جبکہ ایسے گنجان آبادکاروباری مرکزاور کمرشل ایریا میں تواسٹیڈیم ہونا ہی نہیں چاہئیےاگر ممکن ہوتو گورنمنٹ کو چاہئیے کہ اس اسٹیڈیم کو کسی اور جگہ منتقل کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :