بیمار معاشرہ

بدھ 25 نومبر 2020

Ijaz Ul Haq

اعجازالحق

گدھا ایک بے ضرر حیوان ہے جس نے سماج کی بے مثال خدمت کی ہے۔دوسری طرف شیر ایک وحشی درندہ ہے جس نے ہمیشہ انسان کو نقصان سے دو چار کرکے قتل وزخمی کیا ہے۔پھر بھی سماج میں گدھے کو نیچ اور شیر کو با عث فخر سمجھا جاتا ہے۔ہمارا معاشرہ ایک جابر،طاقتور،ظالم کی قدر کرتا ہے لیکن کمزور و محکوم کی تزلیل کرتا ہے جو ایک بیمار معاشرے کی خوبی ہے۔


ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جن میں ایک طاقتور،ظالم اور جابر کو ہمیشہ سے بری کیا جاتا رہاہے جبکہ ایک کمزور، محکوم اور مظلوم کورونداگیا ہے۔اس بیمار معاشرے میں اگر ایک طرف عامر (تہکالے)کو دیکھا جائے جو پولیس کے خلاف چند توہین آمیز الفاظ استعمال کرتا ہے تو بدلے میں اس کی پردہ دری کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

بے حجاب کرکے اس کی ویڈیوز بناکر رسوا کیا جاتا ہے اور اس کو باربار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ پولیس(قانون) بے حرمتی کرنا کتنا بڑا جرم ہے جبکہ دوسری طرف ایک ایم پی اے دن دیہاڑے ایک پولیس کو اپنی گاڑی تلے روند کرچلاجاتا ہے اور بدلے میں اس کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک کرنل بیوی ہے جو قانون کو اپنی جوتی کے نوک پر رکھ کر ٹریفک قوانین کو توڑتے ہوئے چلی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف سرفراز شاہ ہے جس کو سرعام گولیاں ماری جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ادھر نقیب محسود کو بے گناہ پولیس مقابلے میں مارا جاتا ہے۔اس پر دہشت گردی کے دفعے لگائے جاتے ہیں صرف اس لئے کہ وہ معاشرے کا بڑا اور جابر شخص نہیں ہے اور دوسری طرف مارنے والے کو پرٹوکول لے ساتھ ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے۔


اس معاشرے میں حاکم کی گاڑی سے ملنے والی شراب کی بوتلیں شہد کی بوتلیں بن جاتی ہیں جبکہ حیات بلوچ کو صرف احتجاج کرنے پر ہاتھ باندھ کر اس کے ماں باپ کے سامنے گولیاں ماری جاتی ہیں۔
اس معاشرے میں ایک لڑکی کسی کے گھر میں گھس کر توڑپھوڑ کرسکتی ہے۔گالیاں دے سکتی ہے۔کسی پر ہاتھ اٹھاسکتی ہے صرف اس لئے کہ وہ ایک بزنس ٹائیکون کی بیٹی ہے۔

اور اس کا باپ معاشرے کا بڑا اور جابر شخص ہے۔جبکہ ایک ریڑھی والے کو اس جگہ سے ہٹنے کو کہا جاتا ہے جہاں پر کھڑے ہوکروہ اپنی بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کماتاہے۔اس معاشرے مین اربوں کی جائیداد رکھنے والے سے ٹیکس لینے کی جراء ت نہیں کی جا سکتی لیکن ایک درمیانے طبقے والے کو بائیک کے ڈاکومینٹس گھر بھول آ نے پر چالان ضرور دیا جاتا ہے۔

اس معاشرے میں حاکمین کی مہمان نوازی ستر ستر کھانوں سے کی جاتی ہے لیکن وہ غریب لوگ جو بھوکے مرتے ہیں اور دو وقت کی روٹی نہ ملنے کی وجہ سے خودکشیاں کرتے ہیں۔اُن کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔اس معاشرے میں حاکمین کے بچے اگر چند منٹ سکول سے آنے میں دیر کردیں تو اُن کے لئے ٹریفک رکوائی جاتی ہے لیکن کم حیثیت رکھنے والوں کے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیاجاتا ہے۔معاشرے میں جب ایسی ناختم ہونے والی بیماریاں آجاتی ہیں کہ جس میں جابر اور ظالم کی خوشامد کی جاتی ہو۔مظلوم اور محکوم کو کم تر سمجھا جاتا ہو۔جس معاشرے میں حاکم اور محکوم کے لئے الگ الگ قانون ہو۔تاریخ گواہ ہے کہ ایسے معاشروں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :