احساس کی قدروں سے جڑا انسانیت کا رشتہ

جمعہ 4 ستمبر 2020

Iqra Hashmi

اقراء ہاشمی

"وقت ہمیشہ ایک سا نہیں ہوتا" یہ جملہ سنا تو بچپن سے ہے لیکن اس کی وقعت سال 2020 نے ہمیں سمجھائی ہے۔۔۔زندگی بہت پرسکون تھی، ہنستے کھیلتے بچے، دوڑتے بھاگتے دن رات اور بس اچانک ایک ایسی ہوا چلی جو ایک سناٹا اپنے ساتھ لئے لوگوں کی دہلیز عبور کر گئی۔۔۔کچھ عرصہ تو گزر گیا تو جوں جوں حالات نے تیزی پکڑی تو لوگوں کی پیشانی پر فکروں کی لکیروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

بچوں کے بستے بند ہوگئے، زندگی کے سبق کے اوراق کھل گئے اور جو لوگ ساری زندگی خود اپنا کما کر تھوڑا ہی سہی مگر کھاتے رہے ان کی غزتِ نفس پر قسمت نے زور آور پاؤں رکھ دیا اور گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔
کتنے ہی لوگ بے روزگار ہوگئے، روز کے کمانے والوں کو اپنے بچوں کے لیے دوسروں کی طرف مدد کا ہاتھ پھیلانے لگے۔

(جاری ہے)

۔۔ایک ایسی نقب لگائی گئی کہ لوگوں کے زبانوں پر قفل پڑگئی، پچے سوال کرنے لگے ۔

۔ مائیں پریشان رہنے لگیں، روز کی نئی فکر اور بس وہی خالی جیبیں۔۔۔زندگیاں تنگ ہونے لگیں لیکن وہ کہتے ہیں نا اسباب بن ہی جاتے ہیں جب مصیبت گھیرے ہوتی ہے۔
اور ایسا ہی کرونا کے بعد پیش آنے والی صورت حال کے ساتھ ہوا، پریشانی کا سماں تو تھا مگر ایک دوسرے کی مدد کو بے شمار لوگ اپنے گھروں سے نکلے، نیکی کی نیت سے، خدمتِ خلق کے جذبے سے سر شار ہو کے اور بےشمار لوگوں کی مدد کی۔

۔کچھ کی امداد نظروں کے سامنے رہی جب کے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کے وسائل خود بہت محدود تھے مگر ان کے جذبے نے انہیں گرنے نہیں دیا اور ضروت مندوں کی مدد اس طرح کی کے شبِ تاریکی بھی اس سے ناواقف رہی۔
ایسی ہی ایک خاتون کا ذکر میں کرنا چاہوں گی، جن کا نام مخفی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کی نیکیوں کے پلڑے بھی کبھی دکھاوے کا لفظ شامل ہو۔

انہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران خود جا کر کچھ علاقوں کا دورہ کیا اور ایک مکمل تحقیق سروے کے بنا پر کرنے کے بعد انہوں نے مستحق گھرانوں کی مدد کی، اس کام میں ان کے ساتھ اور بھی کئی لوگ شامل ہوتے گئے اور اس طرح ان کا ایک قدم سو قدموں میں تبدیل ہوگیا اور مدد کی پوری ایک چین بن گئی۔ لوگ ان کے اس قدر مشکور بھی ہوئے کہ انہوں کے خود جا کر گھروں میں راشن تقسیم کیا تاکہ سفید پوش لوگ جو خود سے مانگنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں ان کی عزت نفس مجروح ہوئے بغیر ان کی غائبانہ مدد ہو جائے اور یہ مشکل وقت ان کے آنسوؤں کے نظر نہ ہو. ان خاتون اور ان کے ساتھیوں نے اس سلسے میں ضلع ساؤتھ کے غریب علاقوں کا دورہ کیا اور ایک سروے کے ذریعے لوگوں کے گھر کے حالات کا جائزہ لیا اور پھر پوری ٹیم کے مدد سے فنڈز جمع کیے اور مستحق لوگوں کے گھروں تک راشن کی فراہمی میسر بنائی۔

مدد تو بہت لوگوں نے کی لیکن ایک اکیلی خاتون جس طرح تھوڑے سے ذرائع سے مدد کو کھڑی ہوئی یہ جذبہ بہت کم ہی دیکھنے میں آتا ہے، ہم سب صرف سوچ کر ہی رہ جاتے ہیں اور ہمت ہار جاتے ہیں جبکہ ایسے ہی لوگ ہیں جو واقعی دوسروں کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہیں اور فرشتہ بن کر لوگوں کی زندگیوں کو پرنور کر جاتے ہیں۔
بھیگتی آنکھوں میں کسی کو مسکراہٹ دے جانا۔

۔۔دکھ بھرے لمحے میں کسی کا سہارا بن جانا۔۔۔بھوک میں کسی کی خوراک اور معذوری میں کسی کی بےساکھی بن جانا بہت کم خوش قسمت لوگوں کے حصے میں آتا ہے، اور بہت کم لوگوں کے دلوں میں اتنی جگہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کا درد اپنے اندر محسوس کرتے ہیں۔۔۔خوشی ہوتی ہے جب اپنے اردگرد ایسے لوگوں کا ہجوم دکھائی دیتا ہے اور سر فخریہ اٹھ جاتا ہے کہ شکر ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی اتنا بے حسی نہیں ہوا ابھی کچھ شمعیں جلتی ہیں جو اندھیرا مٹانے میں ہماری مدد کو کوشاں ہیں!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :