لاک ڈاؤن اور خواتین میں بڑھتی تشدد کی شرح

بدھ 19 اگست 2020

Iqra Hashmi

اقراء ہاشمی

سال 2020 پوری دنیا کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا، بڑی ریاستیں ہوں یا طاقت  معیشت میں بہت ہی چھوٹی ریاست سب کو مشترکہ طور پر ایک ہی مصیبت کا سامنا رہا ہے اور وہ ہے "کرونا وائرس"۔ چائنا سے شروع ہونے والا یہ وائرس بہت ہی مختصر عرصے میں پوری دنیا میں اپنی جڑیں پھیلاتا گیا اور سات لاکھ سے زائد لوگوں کی زندگیاں نگل لیں۔

جنہوں نے ابھی آگے کے لئے بہت کچھ پلان کر کے رکھا تھا سب اس وبائی امراض کے نظر ہوگیا۔ بچے سے لے کر بوڑھے، ہر کسی کی آنکھوں میں خوف یکساں تھا، بچوں نے ابھی اسکول جانا تھا لیکن لاک ڈاؤن ہوگیا اور شاید لاک ڈاؤن ہی واحد مسئلے کا حل بھی تھا۔ بچوں کو اسکول جانے سے روک دیا گیا، دفتروں فیکٹریوں کو تالے لگ گئے، کام والیوں کی بھی چھٹی کر دی گئی، غرض ہر کوئی اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گیا۔

(جاری ہے)

زندگی کو جیسے اچانک کسی نے زنجیر ڈال دی ہو کہ اس سے آگے نہیں جانا، بس یہیں تک تمہاری حدیں ہیں۔
 اس لاک ڈاؤن نے ہر کسی کو متاثر کیا ہے بچوں سے لے کر بڑوں ، بوڑھوں کو سب کو۔ لیکن سب سے زیادہ اگر دیکھا جائے تو اس لاک ڈاؤن نے خواتین کو متاثر کیا ہے، ہر کسی کو اپنے کاموں سے چھٹی مل گئی لیکن پاکستان میں خواتین پر ذمہ داریوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔

لاک ڈاؤن نے خواتین کو گھر میں بند رہنے پر مجبور کیا بلکہ انہیں جسمانی اور ذہنی دونوں طرح سے بہت متاثر کیا۔ پاکستان میں خواتین کا ایک طبقہ ایسا ہے جو گھریلو خواتین کا ہے، جن کے اوپر گھر کی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ ہے جسے وہ سالوں سے بخوبی نبھاتی بھی آئی ہیں لیکن انہیں قابلِ ستائش نہیں سمجھا جاتا گویا کہ یہ سارے کام ان کے فرائض میں ان کی پیدائش کے ساتھ ہی شامل کر دیے گئے ہوں، ایک طبقہ ایسا ہے جو نوکری پیشہ خواتین کا ہے جو زندگی کی اس دوڑ میں خود کو برابر رکھنا چاہتی ہیں، اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں ہیں لیکن معاشرے کے پیروں میں پھنس کر اکثر گر بھی جاتی ہیں اس لاک ڈاؤن نے بھی ان کے ساتھ یہی رویہ روا رکھا۔

اور آخر میں ایک طبقہ ایسا آتا ہے جو گھروں میں کام کر کے اپنے گھر کا چولہا جلاتی ہیں اور گھر جا کر خود بھی جلتی ہیں کبھی چولہے میں تو کبھی تشدد کی زد میں آکر۔
پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا مثبت کیس 26 فروری کو منظرِ عام پر آیا اور ایک اپریل سے ملک میں جزوی لاک ڈاؤن لاگو ہوگیا جس نے معاشی اور معاشرتی دونوں ہی طرح سے ملک کو جھٹکا دیا جس سے ہر کوئی ہی متاثر ہوا جس کی نشاندھی بھی کی گئی لیکن جب ہر کوئی اپنے گھروں میں چھٹی منا رہا تھا، بچوں کے ساتھ اپنا وقت گزار رہا تھا وہاں ہمارے معاشرے نے گھریلو خواتین کے کاندھوں پر بڑھتے بوجھ کو نظر انداز کر دیا جن کی ذمہ داریوں میں اس قدر اضافی ہوا کہ دوپہر کی جھپکی سے بھی آنکھیں محروم ہوگئیں، بچوں کے اسکول، ٹیوشن بند ہوگئے، ساری پڑھائی آنلائن میں تبدیل ہوگئی، دفتروں کو تالے جو لگے تو گھروں میں مردوں کا قیام 24 گھنٹوں پر مبنی ہوگیا اور خواتین کچن، چائے، سنیکس, اور ناشتے کھانے کے بیچ ایسے پھنسیں کہ دن گزرنے کا پتا نہیں چلا۔

کام والی بھی چھٹی پر تو گھر کے کاموں سے کے کر بچوں کی آنلائن اسٹڈیز تک ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا گیا اور افسوس کی بات تو تب ہے جب آپکی اتنی کوششوں کے بعد بھی کہیں نہ کہیں کوئی آپ سے شکوہ کناں ہوجائے۔
دوسری طرف ایسی خواتین کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں کے اس معاشرے میں خود کو ثابت کرنے کے لئے جدوجہد کا ایک طویل سفر طے کیا ہے اور کر بھی رہی ہیں، کہیں اپنے بچوں کی اکیلی ماں بن کر تو کہیں خود اپنی بقا کو قائم رکھنے کے لئے لیکن اس لاک ڈاؤن نے ان چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو بھی اس طرح جکڑ لیا کہ جو خاتون اسکول پڑھا کر اپنے دو بچوں کو بغیر کسی کے سہارے کے پال رہی تھیں خالی ہاتھ گھر بیٹھی ہیں، جو یقینی طور پر ان کو ذہنی طور پر بیمار کرنی کی ایک بڑی وجہ ہے اور ہم میں سے کوئی یہ بات نہیں جانتا کہ ان مہینوں میں آنے والے خلا کو آخر کس طرح پُر کیا جائے گا۔


اگر ہم صرف مشرقی پنجاب کی بات کریں تو سرکاری حکام کے مطابق(ڈی ڈبلیو کی رپورٹ) گھریلو تشدد میں مارچ اور مئی میں پچیس فیصد اضافہ ہوا ہے اور تقریباً 3217 کے قریب کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
یہ تو صرف وہ کیسز ہیں جن کے لئے خواتین نے رپورٹ درج کرائی ہیں، ان کے علاوہ تشدد کے کئی ایسے واقعات ہیں جو خواتین کو اب روز کا معمول لگتی ہیں اور وہ اسے اس قدر بھی اہم نہیں سمجھتیں کہ ان پر بات کریں۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب گھروں میں کام کرنے والی خواتین کا طبقہ  گھر بیٹھا اور پیسے آنا بند ہوئے تو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور وہ اپنی ضرورتوں کے لئے سوال کرنے لگیں تو نا اتفاقی مزید بڑھتی چلی گئی حتی کہ جینڈر سٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک کیس ایسا بھی رپورٹ ہوا جس میں ایک خاتون جو خود لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں اور اپنی ضرورت کی اشیاء خود خرید لاتی تھیں، جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے باہر نہیں جا پائیں تو اپنے مہینے کے دنوں کے لئے  انہوں نے شوہر سے سینٹری نیپکن کا سوال کیا تو اسے اتنا مارا کہ وہ زخمی ہو گئی۔


یہ تو بس ایک آدھ واقعات ہی ہیں جن کی نشاندھی کی جاتی ہے باقی ایسے سینکڑوں واقعات ہمارے پیچھے انگڑائی لیے کھڑے ہیں لیکن کہاں کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ دست سوال دراز کرے کیونکہ ہم تو وہاں کی پیداوار ہیں جہاں کاشتکاری سے پہلے ہی  سودا ہو جاتا ہے اور چپ رہنا ماں کی گود ہمیں سکھا دیتی ہے۔
کہہ دوں اگر تو بات بڑی بہت بن جائے۔۔۔
 نہ کہوں تو سراہے ہر کوئی صبر پہ۔۔۔
آواز اٹھے تو بےباک کہلائی جاؤں۔۔۔
لفظ گھونٹ دوں تو فاتح سمجھی جاؤں۔۔۔
وقت گزرا ہے تو اب دانائی آئی ہے۔۔۔
انگلی اٹھائی گر تو ہاتھ سے محروم ہو جاؤں!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :